Paid ad
Breaking NewsEducationتازہ ترین

ملتان : ویمن یونیورسٹی میں تین روزہ انٹرنیشنل کانفرنس اختتام پذیر ہوگئی

ویمن یونیورسٹی میں شعبہ ایجوکیشن اور پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے جاری تین روز ہ انٹرنیشنل کانفرنس اختتام پذیر ہوگئی ہے۔
جاری اعلامیہ میں اس بات پر اتفاق کیاگیا ہے کہ کورونا یا کسی بھی ناگہانی صورتحال میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا اور اس کےلئے غیر روایتی طریقہ تدریس بھی اپنائے جائیں گے تاکے طلبا کا تعلیم کا سلسلہ ٹوٹ نہ سکے، اور تعلیمی ادارے آباد رہیں ۔

اس سے قبل اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے کہا کہ ای لرننگ اور ای ٹیچنگ دنیا کے چند ترقی پذیر ممالک میں پہلے ہی سے رائج تھے۔
کورونا وائرس کے پھیلائو اور اُس کی روک تھام کیلئے لاک ڈائون کی بنا پر آن لائن طریقہ تعلیم کو ہمارے ملک میں بھی اپنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔
کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر سارے ادارے اور سارے نظام درہم برہم کا شکار رہے ہیں۔ جو شعبہ زیادہ متاثر ہوا وہ تعلیمی نظام ہے اسلئے کہ معاشی، طبّی ثقافتی، تجارتی اور سارے نظام تعلیمی پیش رفت کے محتاج ہیں۔ طلبہ ، والدین، اساتذہ اور انتظامیہ فکر مند ہیں کہ آخر اس تعلیمی نظام کا حشر کیا ہوگ۔
ا کیونکہ گزشتہ دنوں میں کووِڈ کے مریضوں کی تعداد ملک میں اچانک بڑھنے لگی ہے ای ٹیچنگ کا نظریہ کورونا سے پہلے بھی قائم تھا۔
لیکن اس نظام سے باقاعدہ استفادہ نہیں کیا گیا تھا اور وہی روایتی طریقہ تدریس کو اہمیت دی گئیں۔
ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے کہا کہ کورونا وائرس کا حملہ بالکل غیر متوقع تھا، اسلئے آن لائن تعلیم لازم و ملزوم ہوجائے گی، اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔
اس سلسلے میں ہمارے اساتذہ اگر ٹھان لیں تو وہ اس میدان کے بھی اُستاد ثابت ہوسکتے ہیں۔آج آن لائن اسٹڈی میٹریل کی تیاری میں بڑی خاموشی سے ریس شروع ہوچکی ہے، ا یسے میں اساتذہ کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا اور معیاری نصاب کی تیاری کویقینی بنانا ہوگا۔
آج کی خصوصی سپیکر ڈاکٹر لوسی(گروننگن یونیورسٹی، نیدرلینڈز) نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کے خدمات پر روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ خواتین ملک کی 48.5 فیصد آبادی بناتی ہیں جبکہ تحقیق میں ان کی کل شراکت 48.3 فیصد طبی اور صحت کے شعبوں میں ، 45.5 فیصد انسانی اور آرٹس میں ، 42.7 فیصد ، قدرتی علوم میں ، 22 فیصد انجینئرنگ میں ، اور زراعت کے مضامین میں صرف 11 فیصد ہے ان کی مناسب حوصلہ افزائی ، رہنمائی ،اور انہیں مواقع سے جوڑنے کے لیے میکانزم قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
خواتین سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کام کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے اور اپنے مقالے پیش کرتے ہوئے دیگر مقررین کا کہنا تھا کہ اپنے وطن کے لئے ہنگامی حالات کا سامنا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہنگامی حالات کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اپنے مسائل کا حل کسی نہ کسی طرح نکال ہی لیتے ہیں لیکن اس بارے میں انھیں مختلف حالات ومسائل کا سامنا ہے جو ہمارے تعلیمی نظام کے لئے لمحہ آزمائش بن کر آئے ہیں۔
کمپیوٹر یا اسمارٹ موبائل فون کے اسکرین پرمتحرک تصویر و آواز پر مبنی تعلیم جسے ہم آن لائن یا ورچول لرننگ سے تعبیر کرتے ہیں اس کی اہمیت موجودہ صورت حال میں بہت بڑھ گئی ہے۔
ورچول لرننگ کے نظم العمل پر عمل آوری اور تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی کا سارا دارومدار والدین کے ڈسپلن اور نظم و ضبط پر منحصر ہے۔ بچوں کو باقاعدگی سے بیٹھا کر تعلیمی و اکتسابی عمل کو کامیابی سے ہمکنا ر کیا جاسکتا ہے۔
آن لائن لرننگ کی کامیابی کی تمام تر ذمہ داری والدین کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے بے شک ہمارے پاس اعلیٰ معیار کی ٹیکنالوجی ،قوت،صلاحیت موجود نہیں ہے لیکن درس واکتساب ،پڑھانے پڑھنے اور سیکھنے کا طاقت ور اور لازوال عزم و حوصلہ موجود ہے۔
اس سلسلے میں ڈیجیٹل وسائل و ذرائع کا محدود علم و سمجھنے رکھنے والے والدین تک اساتذہ اور اسکولوں کی رسائی حاصل کرنے کی بھر پور سعی و کوشش لائق ستائش ہے روایتی طریقہ تعلیم کے برعکس ای لرننگ طریقہ تعلیم میں طلبہ حصول علم کے لئے سفری مشقت اور دقتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
آن لائن کورسز طلبہ کو کسی بھی وقت،کہیں بھی ،اپنی مرضی کے مطابق تعلیم و اکتساب کی تکمیل کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔اس تین روزہ کانفرنس میں 8 انٹرنیشنل اور 64 نیشنل سکالرز اور 72 مقالے پڑھیں گئے۔
کانفرنس کا اہتمام شعبہ ایجوکیشن نے کیا تھا اس موقع پر ڈاکٹر حنا منیرہ ڈاکٹر فریحہ سہیل اور طالبات بھی موجود تھے ۔ آخر میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عظمی قریشی نے کانفرنس کے شرکاء میں سرٹیفکیٹ تقیسم کیے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button