Paid ad
Breaking NewsNationalتازہ ترین

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے2020 کی رپورٹ جاری کردی

نذیراحمد کونسل ممبر ہیویمن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ہمراہ راجہ اشرف وائس چیئر پرسن پنجاب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور فیصل تنگوانی ریجنل کوآرڈینیٹر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ملتان ریجن نے پریس کلب ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں سال 2020 کے دوران عورتیں اور مذہبی اقلیتیں مشکلات میں گھری رہی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ 2020 میں انسانی حقوق کی صورتحال میں وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کہ کوویڈ 19 نے بیماریوں سے نمٹنے کی تیاری اور سہولیات تک رسائی اور دونوں میدانوں میں شعبہ صحت کی خامیوں کو کس حد تک بے نقاب کیا ہے پنجاب بھی ان مسائل سے پاک نہیں تھا ابتدا میں معیاری قواعد و ضوابط کے اطلاق میں غفلت نے عوام کی سلامتی کو خطرات سے دوچار کیا خاص طور پر پنجاب کی جیلوں میں حالات خطرناک نہج تک پہنچ گئے تھے جہاں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدیوں کی موجودگی اور ناقص حفظان صحت نے پہلے سے ہی غیر محفوظ قیدیوں کے لیے صورتحال اور زیادہ گھمبیر بنا دی تھی۔
زیر التوا مقدمات کے انبار سے نمٹنے کے لئے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی دسمبر 2020 کے اختتام تک عدالت عالیہ لاہور میں 188، 176 جبکہ ضلعی عدالتوں میں 1372 اور 908 مقدمات تصفیہ طلب تھے۔
ایچ آر سی پی کے مشاہدے کے مطابق سال کے دوران 91 مقدمات میں 148 افراد کو سزائے موت سنائی گئی ہے تاہم حوصلہ افزا پیش رفت یہ ہے کہ کسی فرد کو پھانسی نہیں دی گئی۔
پنجاب درسی کتب و نصابی ترمیمی بل اور پنجاب تحفظ بنیادی اسلام بل 2020 کی منظوری عوام کے غم و غصے کا نشانہ بنیں جن کا کہنا تھا کہ یہ قوانین مذہب کے تحفظ کی آڑ میں اظہار فکر اور عقیدے کی آزادیوں پر مزید پابندیاں لگانے کی کوششیں ہیں۔
پنجاب میں قانون کا نفاذ پولیس فورس میں لگاتار تبادلوں اور اندرونی کشمکش کا شکار رہا جبکہ قومی احتساب بیورو جیسے ادارے سیاسی بنیادوں پر گرفتاریاں کرنے پر ہدف تنقید بناتے رہے
سب سے زیادہ مسائل کا سامنا فیکٹری مزدوروں اور دیہاڑی دار محنت کشوں کو کرنا پڑا لاک ڈاؤن کے دوران ہزاروں مزدور ملازمت سے نکال دیے گئے آن لائن کلاسز صرف ان علاقوں کے لیے مفید ثابت ہوئی جہاں انٹرنیٹ سروس کی فراہمی کا مستحکم نظام موجود تھا، اس تکلیف دہ حقیقت نے طالب علموں کو احتجاج کرنے پر مجبور کیا البتہ ایسے عوامی اجتماعات کو محدود کرنے والی کارروائیاں حکام کی متلون مزاجی کا غماز تھی اور سیاسی اجتماعات کو مذہبی اجتماعات یا عام شہریوں کے احتجاجی مظاہروں کی نسبت زیادہ پابندیوں کا سامنا تھا
بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات بلا روک ٹوک جاری رہے ملک بھر سے رپورٹ ہونے والے ایسے کل واقعات میں سے 57 فیصد پنجاب سے رپورٹ ہوئے ایچ آر سی پی نے گھریلو تشدد اور آن لائن تشدد کے واقعات بھی پہلے سے زیادہ قلم بند کئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کے وبا کے دوران عورتیں قدرے زیادہ غیر محفوظ ہوگئی تھی۔
مذہبی اقلیتوں کو پورا ساتھ امتیازی سلوک کا سامنا رہا مذہب کی بے حرمتی کے الزامات مذہب کی جبری تبدیلی اور خاص طور پر جنوبی پنجاب میں کم آمدنی والے ہندوؤں کے گھروں کی مسماری کے اطلاع منظر عام پر آتی رہی ہیں، پولیس کے قواعد سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف پنجاب میں مذہب کی بے حرمتی کے 487 مقدمات درج ہوئے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button