بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔مہنگائی بڑھنے کی پیشن گوئی

ماہرین نے وفاقی بجٹ 2025-26 کو الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دےدیا، مہنگائی بڑھنے کی پیشن گوئی کردی۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ بجٹ 2025-26ایک روایتی بجٹ ہے، شہریوں کو برے حالات کےلئے تیار رہنا چاہیے۔
تاہم زکریا یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر حسن بچہ کا ہے کہ موجودہ حالات میں یہ ایک بہترین بجٹ ہے، شہریوں کو سہولت دینے کی کوشش کی گئی ہے حکومت نے مشکل حالات کے باوجود ریلیف دینے کے لیے معتدد اقدامات اٹھائے ہیں، پرانی گاڑیوں کے ٹیکس کی شرح کو کم کیا گیا ہے، یہ آئی ایم ایف کا بھی مطالبہ تھا اب باہر سے پرانی گاڑیاں آسکیں گی جس کی وجہ سے لوکل مارکیٹ میں موجود کمپنیوں کو اپنی وجود برقرار رکھنے کے لیے بھی قیمتوں میں کمی کرنی پڑے گی۔
اسی طرح حکومت نے پینشن کے حوالے سے نئے قانون بھی متعارف کرا دیا ہے اب پینشنرز کی موت کے بعد بیوہ کو 10 سال تک پینشن مل سکے گی، اس سے خزانے پر اضافی بوجھ میں کمی ہوگی جبکہ نان فائلر کے لیے نئے قوانین سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوگا اور ٹرانزیکشنز کی ڈاکومنٹیشن مکمل ہو سکے گی، سود کی آمدن پر ٹیکس کی شرح میں5 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے اب انویسٹر مارکیٹ میں آئیں گے، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز سے مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ہے، نان فائلر کے کیش نکلوانے پر ٹیکس کی شرح 0.6 سے بڑھا کر 1 فیصد کرنے کی تجویز پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
پہلے انفراسٹرکچر قائم کرنا ہوگا، مہنگائی کی شرح میں بدستور اضافہ جاری رہے گا۔
انسٹی ٹیوٹ آف بیکنگ اینڈ فنانس کے پروفیسر امداد اللہ کا کہنا تھا کہ یہ ایک بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے، مہنگائی مزید بڑھے گی حالات مزید خراب ہوں گے، بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں صرف چھ فیصد اضافہ کیا گیا ہے جو موجودہ صورتحال میں بہت ناکافی ہے، ایک طرف حکومتی نمائندوں نے اپنی تنخواہوں میں 600 فیصد تک اضافہ کیا وہاں چھوٹے ملازمین کے لیے چھ فیصد اضافہ کر کے روٹین کا کام نمٹا دیا گیا۔
گزشتہ برس ہونے والی مہنگائی کا دباؤ اس لیے محسوس نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کے پاس کچھ بچت باقی تھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بچت ختم ہوگئی، اب مہنگائی کی براہ راست ان کی معاشی حالت پر اثر انداز ہو رہی ہے اب بڑھتی مہنگائی سے ان کی سکت ختم ہو گئی ہے۔
حکومت کو فوری طور پر انڈسٹری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے پاکستان کی 75 فیصد سے زیادہ ابادی ایگریکلچر پر پلتی ہے لیکن حکومت ایگریکلچر کو کوئی ریلیف دینے کو تیار نہیں انڈسٹریل شعبے کو کم مارجن پر قرضہ دیا جاتا ہے، مگر شعبہ زراعت پر پورے ریٹ پر قرضہ دیا جاتا ہے، جس پر کسان کی کمر ٹوٹ جاتی ہے حکومت کو مہنگائی کنٹرول کرنے اور معاشی بہتری کے لیے زراعت کی طرف جانا پڑے گا۔
زکریا یونیورسٹی کے شعبہ کامرس کے پروفیسر ڈاکٹر آصف یاسین کا کہنا تھا کہ حکومت کے دعوے اپنی جگہ پر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا ایکسپورٹ اور امپورٹ کا جو فرق ہے اور جو خسارہ ہے وہ تاحال برقرار ہے، پاکستان کے ایکسپورٹ 27 ملین ڈالر جبکہ امپورٹ 49 ملین ڈالر ہے، یہ خسارہ اس بجٹ کو ہمیشہ متاثر کرتا رہے گا، اس وجہ میں مڈل کلاس کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ہے حکومت اس کو پرانے ڈگر پر چلانے کی کوشش کر رہی ہے اس لیے عوام کو صبر سے کام لینا پڑے گا اور رواں برس بھی ان کو مہنگائی کی چکی میں پسنا پڑے گا۔
آئی ایم ایف نے جو قرضے کی نئی قسط دی ہے، اس کے لیے پرانی کنڈیشن ہی برقرار رکھی ہیں کہ اپنے ٹیکس نیٹ ورک کو بڑھایا جائے کیونکہ جب تک ٹیسٹ نیٹ ورک نہیں بڑھے گا، معاشی استحکام نہیں آئے گا لیکن حکومت کے اقدامات وہ صرف تنخواہ دار طبقے تک ہی محدود ہیں اور یہی طبقہ ٹیکس دے رہا ہے۔
رئیل اسٹیٹ بڑے تاجر اور لارڈز اب تک ٹیسٹ نیٹ ورک میں نہیں ہے ان تین شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لائے بغیر پاکستان کی معاشی ترقی اور معاشی استحکام ممکن نہیں ہے، حکومت امپورٹ کو کم سے کم کرے، لگژری آئٹم بالکل بھی امپورٹ نہ کیے جائیں اگر جو لگژری ائٹم امپورٹ کرنے ہیں اس کو ٹیکس ریونیو بڑھانے کا کام لیا جائے ۔
رواں برس ٹیکسٹائل میں بہتری نظر ائی، حکومت کو ڈیمو گرافک پر خصوصی چیک رکھنا پڑے گا، انڈسٹریل اور دیگر شعبہ جات میں جو حقیقی انویسٹمنٹ ہے ان کو ریلیف دینا پڑے گا یہ بجٹ بھی پچھلے بجٹ کی طرح ہیں عوام کو ہی یہ برداشت کرنا پڑے گا۔
تاہم حکومت نے جو اہم اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں شوگر انڈسٹری کو ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ سسٹم میں لانے، بزنس ٹو بزنس انوائس تیار کرنے کی اور سیلز ٹیکس کا آڈٹ اے ائی سے کرنے کا جو پلان بنایا ہے، اس سے بہتری کی امید ہے اگر حکومت یہ تین اقدام کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں نیٹ ورک بڑھے گا اور اس سے معاشی طور پر استحکام آئے گا۔