زکریا یونیورسٹی : بی اے/ بی ایس سی سکینڈل کے 5 مرکزی کردار جبری ریٹائرڈ، پراجیکٹ ڈائریکٹر کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا

زکریا یونیورسٹی کے بڑے کیسز کے فیصلوں کے نوٹیفکیشن جاری کردئیے گئے۔
سات فروری کو ہونے والی سینڈیکیٹ کے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کے بعد گزشتہ روز ملازمین کی نوکریوں کے خاتمے کے مراسلے جاری کئے گئے جس کے مطابق پراجیکٹ ڈائریکٹر ملک رفیق جن پر کرپشن، ڈسپلن کی خلاف ورزی میں ملوث ہونے پر نوکری سے برخاست کردیا، ان کے کسی موقف سے اتفاق نہیں کیاگیا اور بھاری اکثریت سے ان کو نوکری سے برخاست کرنے کی منظوری دی گئی جبکہ بی اے/ بی ایس سی سکینڈل میں انکوائری کمیٹی اور چانسلر کے فیصلے کی توثیق کردی گئی جس میں اللہ دتہ عامر، مظفر حسین شاہ، محمد امین، محمد اسلم اور رانا محمد علیم کو جبری ریٹائر کر دیا گیا تھا ۔
جاری مراسلے میں کہا گیا ہے کہ 2019 میں کنٹرولر آف امتحانات کی سفارش پر بی اے/ بی ایس سی کے حتمی نتائج میں غلط اندراجات کے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی، یہ کمیٹی وائس چانسلر نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے بنائی تھی جس کے تحت 27 نومبر 2019 کو ان تمام کرداروں کو معطل کردیا گیا جس کے بعد 21 دسمبر 2019 کو ہونے والی سینڈیکیٹ میں اس کارروائی کی منظوری دیتے ہوئے پیڈا ایکٹ لگا دیاگیا۔
انکوائری کمیٹی کی رپورٹ جس نے تمام افراد کی "لازمی ریٹائرمنٹ” کی سفارش کی تھی، کو سنڈیکیٹ 2020 میں ہونے والی سینڈیکیٹ کے سامنے پیش کیا گیا جس نے انکوائری رپورٹ کا جائزہ لیا اور کہا کہ یہ ایک منصفانہ اور شفاف طریقہ کار کے ساتھ عمل میں لائی گئی ہے۔
انصاف، اور انکوائری کمیٹی کے نتائج اور سفارشات کو مکمل طور پر منظور کیا۔ مزید سنڈیکیٹ نے اس معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے پی ای ڈی اے ایکٹ، 2006 کے سیکشن-13(4) کے تحت انہیں شوکاز کم پرسنل ہیئرنگ نوٹس دینے کا فیصلہ کیا جس پر تمام افراد نے لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا ، تین سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد عدالت نے چانسلر کو اس ہدایت کے ساتھ ارسال کیں کہ درخواست گزاروں کو قانون کے مطابق سماعت کا موقع فراہم کیا جائے، عدالت کے احکامات کی تعمیل میں چانسلر نے 23 ستمبر 2024کو دیگر متعلقہ افراد کے ساتھ درخواست گزاروں کی سماعت کی اور درخواست گزاروں کے خلاف انکوائری کی کارروائی کا فیصلہ کرنے کی ہدایت کے ساتھ درخواستوں کو سنڈیکیٹ میں ذاتی طور پر سننے کا موقع فراہم کیا۔
چانسلر اور گورنر نے بھی درخواست گزاروں کو سنا اور انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی توثیق کردی، جس پر سات فروری کو ہونے والی سینڈیکیٹ نے ایک بار سب کو سنا اور کیس کے تمام پہلوؤں پر غور کیا اور اس کے سامنے پیش کیے گئے ریکارڈ کا بغور جائزہ لینے کے بعد جس میں تحقیقاتی کمیٹی کی کارروائی، تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے ملزم کی پیشی اور تحریری جواب مسٹر محمد امین (شریک ملزم) کا اقبالی بیان جو کمیٹی کے سامنے ٹرائل شامل ہے جس میں ملزم دوبارہ پیش ہوا اور دفاعی جواب جمع کرایا تھا، سنڈیکیٹ نے امتحان کے انگلش پیپر اے اور بی میں متعدد رول نمبرز میں کی گئی ردوبدل کے ثبوت کا بھی بغور جائزہ لیا کہ جو دراصل فیل تھے لیکن انہیں پاس کرانے کے لیے نمبر بڑھا دیے گئے تھے۔
سنڈیکیٹ نے ملزمان کے کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر محمد فاروق کو تحقیقاتی کمیٹی کا رکن بنانے سے متعلق الزام سے بھی اتفاق نہیں کیا کیونکہ انہوں نے تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کے وقت کوئی اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ اس کے سامنے پیش ہو کر تحریری دفاعی جواب کے ساتھ ساتھ اعترافی بیان بھی جمع کرایا تھا۔
سنڈیکیٹ (مجاز اتھارٹی) کو انکوائری کمیٹی کی سفارشات سے اختلاف کی کوئی وجہ نہیں ملی اور ملزمان پر الزامات مکمل طور پر ثابت ہوچکے ہیں، لہذا، ایکٹ (Se-4) کے مطابق "لازمی ریٹائرمنٹ” کی سزا تجویز کی جاتی ہے ۔