زکریا یونیورسٹی کے اساتذہ نے وائس چانسلر کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا
زکریا یونیورسٹی کے 90 فیصد اساتذہ نے وائس چانسلر کی پالیسی مسترد کردی، 13 مطالبات پیش کردئیے۔

زکریا یونیورسٹی کے اساتذہ تمام اختلافات بھلا ایک ہوگئے، 90 فیصد اساتذہ نے وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر کی پالیسی مسترد کردی اور بڑے مطالبات پیش کردیے۔
اس سلسلے میں اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن زکریا یونیورسٹی ملتان کی جنرل باڈی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں یونیورسٹی اساتذہ کی بڑی تعداد نے اجلاس میں شرکت کی۔
اجلاس کی صدارت صدر ڈاکٹر عبد الستار ملک نے کی، نظامت کے فرائض سیکرٹری ڈاکٹر خاور نوازش نے انجام دیئے۔
ڈاکٹر خاور نواز ش نے خطاب کرتے ہوئے کہ ایک ماہ پہلے اے ایس اے کی طرف سے یونیورسٹی انتظامیہ کو ایک دس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا گیا تھا جس کی طرف انتظامیہ کی طرف سے بالکل بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا اور ابھی تک کسی ایک مسئلے کے حل کے لیے بھی اقدام نہیں کیا گیا۔ اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ جنرل باڈی میٹنگ کال کی گئی ہے تاکہ پوری کمیونٹی کی طرف سے انتظامیہ کو ایک جامع پیغام دیا جا سکے۔
ڈاکٹر علیم احمد خان نے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جامعہ زکریا ملتان کو ایسی انتظامیہ ملی جو اسے ایک کمپنی کی طرح چلانے کی خواہش مند ہے، یہ جنوبی پنجاب ہے لاہور، اسلام آباد یا گجرانوالہ نہیں ہے، یہاں کے غریب بچوں کی فیسیں بڑھانا درست نہیں۔ اگر یونیورسٹی معاشی مشکلات ہیں تویہاں ہونے والی کرپشن پر ہاتھ ڈالنا چاہیے۔
ڈاکٹر عبد القدوس صہیب نے کہا کہ اساتذہ کے ورک لوڈ کو بڑھانے اور شعبہ جات کو مرج کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا، ہم نے انتظار کیا کہ اساتذہ کے مسائل کا کوئی حل سامنے گا لیکن انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، انتظامیہ کا حصہ بن کر مسائل حل نہیں ہوںگے، 32 سال کی سروس ہے اور میں کئی بار صدر بھی رہ چکا ہوں۔ اور یہ بات پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ موجودہ سربراہ ِ ادارہ دراصل پرائیویٹ سیکٹر کے نمائندے ہیں اور وہ اس سرکاری ادارے کو بھی اُسی ذہن سے چلانے کے کوشش کر رہے ہیں، کمپنی بہادر کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اساتذہ کا ورک لوڈ بڑھانے سے صرف 6 کروڑ سالانہ کی بچت ہو گی لیکن اگر اسے سولر پر منتقل کر دیا جائے تو ہر مہینے 2 سے ڈھائی کروڑ بچائے جا سکتے ہیں، یونیورسٹی کی وہ زمین جو ٹھیکے پر دی ہوئی ہے اُس کا ٹھیکہ بڑھا کر انکم جنریٹ کی جا سکتی ہے۔لیکن انتظامیہ کو صرف استادوں کی مراعات پر کٹ لگانے کا خیال ستاتا ہے، انہوں نے اساتذہ کی تنخواہوں پر دیا جانے والا 25فیصد ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کے فیصلے کی بھی مذمت کی۔
ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ، ڈاکٹر آصف یٰسین ،ڈاکٹر طاہر اشرف اور ڈاکٹر اِرم بتول اعوان نے کہا کہ کیسز وی سی آفس میں میچور ہوئے پڑے ہیں اور وہ اس سال ریٹائر ہونے جا رہے ہیں لیکن پچھلے چار سال سے سلیکشن بورڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ترقی کے جائز حق سے بھی محروم ہو رہے ہیں، انتظامیہ کو چاہیے کہ اُن لوگوں کی بد دعاؤں سے بچتے ہوئے فوری طور پر سلیکشن بورڈ کا انعقاد کیا جائے۔
وائس چانسلر کے لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ وہ فنڈز لے کر آئے اور یونیورسٹی کی انکم بڑھائے اساتذہ کے معمولی انسینٹیوز کو کاٹنا یا فیسیں بڑھانا معاشی مسئلے کا حل نہیں ہے
یونیورسٹی کی سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر سیما محمود نے کہا کہ میں نے 14 وائس چانسلر کے ساتھ کام کیا ہے، ہر وائس چانسلر معاشی مشکلات کی کہانی سناتا ہے، یونیورسٹی میں کوئی فنڈز کی کمی نہیں ہے، اصل مسئلہ فنانشل مینجمنٹ ہے، جس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
شہزادہ فہد نے کہا کہ پاکستانی اشرافیہ اپنے لیے سب سہولتیں اور مراعات چاہتی ہے لیکن معاشرے کے معمار استاد کو خوار کرنے کے دَر پے ہے۔ ہم کسی طرح حکومت کی طرف سے نئے پنشن رولز کو تسلیم نہیں کرتےاور اس سلسلے میں فپواسا اور اگیگا کے ہر احتجاج کا بھرپور حصہ بنیں گے۔
ڈاکٹر عمر چوہدری نے کہا کہ حالیہ سرکلر میں شعبہ جات سے کہا جار ہا ہے کہ وہ اپنے بجٹ سے بجلی کے میٹرز انسٹال کروائیں، شعبہ جات کے پاس اتنا بجٹ نہیں ہوتا کہ وہ اس حکم نامے پر عمل درآمد کر سکیں۔
ڈاکٹر فرقان احمد اور رئیس نعمان احمد نے کہا کہ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پی ایچ ڈی کرنے اور متعدد ریسرچ پیپرز لکھنے کے باوجود اس جامعہ میں ہمارے جیسے اساتذہ دس دس سالوں سے بطور لیکچرر بیٹھے ہیں، ہماری اگلے سکیل میں ترقی کے لیے انتظامیہ فوری طور پر نئی ایڈورٹائزمنٹ دے۔
ڈاکٹر محمد حنیف نے کہا کہ سولرائزیشن کے لیے مختلف شعبہ جات کے بجٹ میں سے مختلف کٹوتیاں کی گئی ہیںَ، اس ضمن میں کوئی ایک پالیسی بنائی جانی چاہیئے۔
جنرل باڈی اجلاس سے ڈاکٹر مقرب اکبر ،ڈاکٹر تراب الحسن سرگانہ ، ڈاکٹر امتیاز وڑائچ اور ڈاکٹر زاہدہ عزیز سیال نے بھی خطاب کیا۔
ڈاکٹر عبد الستار ملک نے خطاب کیا اور کہا کہ ہم متفقہ طور پر اس جنرل باڈی کی طرف سے پہلا پُر زور مطالبہ یہ کرتے ہیں کہ ڈیوٹی لیو کے حوالے سے جاری کردہ غیر قانونی سرکلر فوری طور پر واپس لیا جائے، ہم نے وائس چانسلر صاحب کو اُن کی تعیناتی کے بعد چار ماہ خاطر خواہ وقت دیا کہ وہ اس جامعہ کے معاملات اور مسائل کو سمجھ سکیں اور اس پر فیصلے لیں۔ لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ انتظامیہ کو نرم الفاظ میں سمجھائی گئی ہماری بات سمجھ نہیں آتی، جامعہ کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر اساتذہ ہیں اور انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے۔
بعد ازاں پوری فیکلٹی نے متفقہ طور پر قرارداد منظوری کی، جس میں کہاگیا کہ اساتذہ کے موجودہ ورک لوڈ کو بڑھانے کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
شعبہ جات کے مرجر کے خیال کو اسی جامعہ کی اساتذہ کمیونٹی بالکل رَد کرتی ہے۔ ایسا کوئی فیصلہ جب تک بورڈ آف فیکلٹی، اکیڈمک کونسل اور سینڈیکیٹ سے ہو کر نہیں آئے گا اُسے قبول نہیں کیا جائے گا
اساتذہ کی چھٹی(ڈیوٹی لیو) کے حوالے سے جاری سرکلر کو فوری طور پر واپس لیا جائے، یونیورسٹی ایکٹ اور کیلنڈر سے متصادم کوئی نئی لیو پالیسی قبول نہیں کی جائے گی، سینڈیکیٹ کے انعقاد سے پہلے سلیکشن بورڈ منعقد کیا جائے۔
ایف بی آر کی طرف سے اساتذہ کی تنخواہوں پر 25 فیصد ٹیکس ریبیٹ ختم کرنے کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا، یہ ہاؤس نئے پنشن رولز کو رَد کرتے ہوئے اگیگا اور فپواسا کی ہر احتجاجی کال میں شریک ہونے کی یقین دہانی کراتا ہے پی ایچ ڈی لیکچررز اور دیگر یونیورسٹی اساتذہ کی پرموشن کے لیے فوری طور پر آسامیوں کا نیا اشتہار دیا جائے اور اس ضمن میں ایک ٹائم فریم جاری کیا جائے۔
اکیڈیمک بلاکس ،گھروں اور یونیورسٹی کی سڑکوں کی تباہ حالی کی طرف فوراً توجہ دی جائے۔ جو گھر مینٹینس کی وجہ سے شفٹ ہونے کے قابل نہیں ہیں ان کو فوراً رینوویٹ کروایا جائے، نئے الیکٹرک میٹرز کی انسٹالمنٹس شعبہ جات کے بجٹ کی بجائے مرکزی بجٹ سے کرائی جائے۔
پی ایچ ڈی کے مقالات جن غیر ملکی ایگزیمنرز سے جانچ کرائے گئے ہیں اُنہیں موجود قوانین کے مطابق فوراً ادائیگیاں کی جائیں۔ اگر یونیورسٹی معاشی مشکلات کا شکار ہے تو آئندہ کے لیے غیر ملکی ایگزیمنرز کا اعزازیہ ختم کرنے کی بجائے آدھا کر دیا جائے۔
ہاؤس نے انتظامیہ کو 15 فروری 2025 تک کی ڈیڈ لائن دی، جس کے بعد مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں کلاسز کے بائیکاٹ ، وائس چانسلر آفس اور دیگر انتظامی دفاتر کے سامنے دھرنے اور احتجاج کی کال دی جائے گی۔