تیسری الیکٹرک وہیکلز (EV) کانفرنس کا ملتان میں کامیاب اختتام

کلائمیٹ ایکشن سینٹر (CAC) نے ملتان میں اپنی تیسری الیکٹرک وہیکلز (EV) کانفرنس کا انعقاد کامیابی سے کیا، واضح رہے کہ یہ اس سے قبل کراچی اور لاہور میں منعقد ہونے والی کانفرنس کا تسلسل ہے۔
اس تقریب کو بینک آف پنجاب (BoP) نے اسپانسر کیا جبکہ ہوروِین (Horwin) جو ایک معروف برقی موٹر سائیکل ساز کمپنی ہے نے معاونت فراہم کی۔
کانفرنس میں صنعت، بینکاری، حکومت اور تعلیمی شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہم اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی تاکہ پاکستان میں صاف اور پائیدار نقل و حرکت (clean mobility) کے سفر پر بات کی جا سکے۔
یہ کانفرنس ای وی تعاون کے فروغ کے لیے ایک پلیٹ فارم ثابت ہوئی، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان میں برقی گاڑیوں کی جانب منتقلی (EV transition ) صرف اُس وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب پالیسی ساز اس صنعت کو مراعات فراہم کریں، بینک طویل المدتی فنانسنگ مہیا کریں، صنعت کار جدت لائیں اور سول سوسائٹی عوامی سطح پر شعور اجاگر کرے۔
کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے CAC کے ڈائریکٹر یاسر حسین نے کہا کہ یہ ایونٹ اس بڑھتی ہوئی آگاہی کی عکاسی کرتا ہے کہ برقی نقل و حرکت اب کوئی دور کا خواب نہیں رہی۔ان کا کہنا تھا کہ ’’CAC کراچی کو خوشی ہے کہ ہم ملتان میں آلودہ ہوا اور برقی گاڑیوں پر ایک ساتھ بات کر رہے ہیں۔ معاملات درست سمت میں جا رہے ہیں اور حکومت نے ای وی منتقلی کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ہے۔‘‘
ڈائریکٹر سی اے سی یاسر حسین کا مزید کہنا تھا کہ ’’نئی الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت تمام پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں مرحلہ وار ختم کر دی جائیں گی، جس سے وہ آلودہ ہوا صاف ہوگی جو ہمیں مسلسل بیمار رکھتی ہے اور قبل از وقت اموات کا سبب بنتی ہے۔ اسموگ جان لیوا ہے۔ ہمیں ابھی سے بیٹری ری سائیکلنگ یونٹس قائم کرنے کی سہولت فراہم کرنی ہوگی۔’’
بینک آف پنجاب کے ہیڈ آف پروجیکٹ فنانس اینڈ ایکویٹی ایڈوائزری نعیم جاوید نے اپنی تفصیلی پریزنٹیشن میں عالمی اور مقامی ای وی مارکیٹ کے رجحانات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ’’ای وی تیزی سے دنیا بھر میں مرکزی ذرائع نقل و حرکت کا حصہ بن رہی ہیں۔ صرف چین عالمی ای وی مارکیٹ کا 65 فیصد حصہ رکھتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ 2024 میں دنیا بھر میں 1 کروڑ 70 لاکھ برقی گاڑیاں فروخت ہوئیں، جو کل کار سیلز کا 24 فیصد تھیں، اور یہ تعداد آئندہ سال 2 کروڑ تک پہنچنے کی توقع ہے۔پاکستان کی نئی ای وی پالیسی (2025–2030) کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس میں نمایاں ٹیکس مراعات شامل ہیں، مثلاً:ای وی پر صرف 1 فیصد جی ایس ٹی جبکہ پٹرول گاڑیوں پر 17 فیصد،پرزہ جات پر 1 فیصد امپورٹ ڈیوٹی جب کہ دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کے لیے 5 سال میں 100 ارب روپے کی سبسڈی۔
نعیم جاوید کا مزید کہنا تھا کہ ’’پاکستان میں ای وی مارکیٹ کے امکانات روشن ہیں، لیکن قیمت اور فنانسنگ اس کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں کیوں کہ طویل مدتی اور کم لاگت فنانسنگ ہی ای وی کو عوام کی پہنچ میں لا سکتی ہے۔‘‘
پہلا پینل: مواقع، چیلنجز اور مالیاتی پالیسیپہلا پینل ہوروین کے جنرل منیجر نعمان علوی، کیپیٹل اسمارٹ موٹرز کے فروخ رضا، BoP کے نعیم جاوید اور نیکس سیلز کے سی ای او جمشید اقبال پر مشتمل تھا۔ اس میں دو پہیوں اور چار پہیوں والی گاڑیوں سے لے کر عوامی ٹرانسپورٹ تک ای وی صنعت کے مواقع اور رکاوٹوں پر بات ہوئی۔پینلسٹس کا اتفاق تھا کہ اگرچہ عالمی سطح پر ای وی اپنانے کا عمل حکومتی مراعات اور سبسڈی کے باعث تیزی سے بڑھ رہا ہے، لیکن پاکستان کو اس حوالے سے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔
بی او پی کے نعیم جاوید کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اس وقت ای وی کو پٹرول گاڑیوں جیسا سمجھ کر فنانسنگ کرتا ہے، جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ہم اس پالیسی کو قومی ای وی حکمتِ عملی کے مطابق بدلنے پر بات کر رہے ہیں، جس سے ای وی کو اپنانے کی رفتار میں نمایاں اضافہ ہوگا۔‘‘
نعمان علوی نے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے درآمدی ایندھن پر انحصار کی طرف توجہ دلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم سالانہ تقریباً 15 ارب ڈالر کا ایندھن درآمد کرتے ہیں، جس کا 60–70 فیصد دو اور تین پہیوں والی گاڑیاں استعمال کرتی ہیں۔ ان کی برقی منتقلی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ یہ 80 فیصد تک شہری آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ای وی ایکو سسٹم میں استاندردائزیشن کی اشد ضرورت ہے۔نعمان علوی کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کی ہر کمپنی، چاہے وہ ٹیسلا ہو یا مقامی ادارے، اپنی بیٹری اور چارجنگ سسٹم کی پیٹنٹ رکھتی ہے۔ یہ عدم ہم آہنگی بڑے پیمانے پر توسیع میں رکاوٹ ہے۔ حکومت اور صنعت کو مل کر چارجنگ اور بیٹری سسٹمز کے لیے یکساں معیار وضع کرنا چاہیے۔
کیپیٹل اسمارٹ موٹرز کے فروخ رضا نے بتایا کہ ان کی کمپنی صارفین کے اعتماد کو بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہے ’’ہم نے پاکستان کا پہلا ملٹی برانڈ ای وی اسٹور متعارف کرایا ہے ، اب تک چھ برقی ماڈلز لانچ کیے ہیں اور بین الاقوامی کمپنی جیلی آٹو کے ساتھ شراکت داری کی ہے، جو دنیا کے بڑے ای وی سازوں میں شامل ہے۔
نیکس سیلز کے جمشید اقبال نے بیٹری کے معیار پر تشویش کا اظہار کیا ۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں آنے والی زیادہ تر برقی موٹر سائیکلوں میں گرافین لیڈ ایسڈ بیٹریاں استعمال ہو رہی ہیں جن کی عمر صرف 500 سائیکلز یا 16 سے 18ماہ ہے۔ اس سے صارفین میں عدم اطمینان پیدا ہو رہا ہے۔ ہمیں بیٹری کے واضح معیار اور کوالٹی اشورنس کی ضرورت ہے۔
دوسرا پینل: شمولیت، سہولت اور عوامی ٹرانسپورٹدوسرے پینل کی ماڈریٹر سی اے سی کی مائرہ ممتاز تھتھیں۔ اس پینل میں اس بات پر گفتگو ہوئی کہ برقی گاڑیاں خواتین، کم آمدنی والے طبقے اور ملک کے بجلی کے نظام کو کس طرح بہتر بنا سکتی ہیں۔اوکلا پاکستان کے وائس پریزیڈنٹ سیلز محمد سعید اختر نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اوکلا نے گزشتہ سال سے اب تک دنیا بھر میں 30 لاکھ سے زائد دو پہیوں والی برقی گاڑیاں فروخت کی ہیں۔ پاکستان میں اس کی قیمت سب سے بڑا عنصر ہے ایک عام برقی موٹر سائیکل کی قیمت 1.5 سے 2 لاکھ روپے تک ہے، اور ہمیں امید ہے کہ اس سال اس کے 1,16,000 یونٹس فروخت ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ برقی اسکوٹیز خواتین میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں، اور 80 فیصد صارفین خواتین ہی ہیں۔شہزیب احمد نے کہا کہ ای وی مصنوعات کی مقامی تیاری روزگار کے نئے مواقع پیدا کر سکتی ہے، اور حکومت کو چاہیے کہ بیٹریز اور پرزہ جات کی درآمد پر واضح پالیسی بنائے تاکہ غیر معیاری اشیا سے بچا جا سکے۔
اس موقع پرپنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے محمد یاسین نے عوامی ٹرانسپورٹ میں ای وی بسوں کی پیشرفت کا ذکر کیا ان کا کہنا تھا کہ ملتان میں 69 ای وی بسیں پہلے ہی چل رہی ہیں۔ یہ بسیں میٹرو کی طرح وقت کی بچت کے ساتھ ماحول دوست بھی ہیں، تاہم ان کی چارجنگ انفراسٹرکچر کے مسائل فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔
ایس ڈی پی آئی سے تعلق رکھنے والے توانائی کے ماہر ڈاکٹر خالد ولید نے کانفرنس کے اختتام پر کہا کہ پاکستان کے ای وی مستقبل کو‘‘تین ای’’یعنی معیشت (Economy)، توانائی (Energy) اور ماحولیات (Environment) کے توازن کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
ای وی چارجنگ انفراسٹرکچر کو قابلِ تجدید توانائی سے چلنا چاہیے تاکہ ہم وہی ماحولیاتی نقصان نہ کریں جسے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ای وی کو عیاشی نہیں بلکہ ضرورت سمجھنا ہوگا، اور اس کا آغاز عوامی ٹرانسپورٹ سے ہونا چاہیے۔
اختتامی کلماتCAC کے حسین رضوی اور جویریہ فیض نے کانفرنس کی میزبانی کرتے ہوئے کہا کہ ملتان کانفرنس پاکستان میں برقی نقل و حرکت کے فروغ میں ایک اور سنگ میل ہے۔ راستہ کٹھن ضرور ہے، مگر سمت واضح ہے کہمستقبل کی ٹرانسپورٹ برقی ہے۔ باہمی تعاون اور تسلسل سے ہم اس مستقبل کو پائیدار اور جامع بنا سکتے ہیں۔




















