سابق اولمپئنز کی تنقید : موجودہ ہاکی فیڈریشن پر الزامات بلاجواز (اظہار عباسی کے قلم سے)
تحریر :اظہار عباسی

پاکستان ہاکی کا ماضی روشن اور شاندار رہا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان نے تین اولمپکس، چار ورلڈ کپ اور بے شمار چیمپئن شپ جیت کر دنیا میں اپنی شناخت بنائی۔ اس کامیابی میں یقیناً سابق اولمپئنز کا کردار قابلِ فخر ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں کچھ سابق اولمپئنز کی طرف سے پاکستان ہاکی فیڈریشن پر مسلسل تنقید کے سلسلے نے ایک ناپسندیدہ رخ اختیار کر لیا ہے، جو کہ نہ صرف غیر تعمیری ہے بلکہ ہاکی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی بن رہا ہے۔
موجودہ فیڈریشن کی کارکردگی اور اقدامات
موجودہ پاکستان ہاکی فیڈریشن، صدر میر طارق حسین بگٹی کی قیادت میں، ایک نئے ولولے اور عزم کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری، باقاعدہ کیمپس کا انعقاد، نئے کھلاڑیوں کو مواقع فراہم کرنا، اور بین الاقوامی سطح پر نمائندگی کو یقینی بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ فیڈریشن درست سمت میں گامزن ہے۔
2024 میں سب سے زیادہ خوشخبریاں جس کھیل نے دیں وہ ہاکی ہے، تین ٹورنامنٹ میں وکٹری اسٹینڈ پر پاکستان ہاکی ٹیم کا آنا قابل تحسین تھا، اس کے علاوہ تین عشروں بعد جرمنی کی ہاکی ٹیم اور پھر عمان کی ہاکی ٹیم کا پاکستان آنا نیک شگون تھا۔
حالیہ نیشنز کپ میں ٹیم کی شاندار کارکردگی اس بات کا مظہر ہے کہ موجودہ ہاکی فیڈریشن اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہی ہے۔
سابق اولمپئنز کی تنقید کا مقصد؟
بدقسمتی سے کچھ سابق اولمپئنز اپنی ذاتی انا، ماضی کی شہرت یا انتظامی عمل میں عدم شمولیت کی بنیاد پر فیڈریشن کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ افراد ہیں جو خود کسی دور میں ہاکی کی زبوں حالی کے ذمہ دار رہے، ان اولمپئنز کو ہاکی فیڈریشن میں کام کرنے کا موقع ملا لیکن ہاکی کی ترقی کے بجائے اپنی ترقی کے بارے میں سوچا اس وجہ سے ہاکی کمزور اور وہ پھل پھولتے رہے ان اولمپئنز کے وجہ سے ہاکی کو جتنا نقصان ہوا وہ ناقابل بیان ہے لیکن آج جب ایک مثبت تبدیلی کی کوشش ہو رہی ہے تو یہ تنقید برائے تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا رویہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ نوجوان کھلاڑیوں کے حوصلے پست کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔
ضرورت تعمیری رویے کی
قوم کی امیدیں اب ایک نئی نسل سے وابستہ ہیں۔ ان حالات میں سابق اولمپئنز کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی دانش، تجربہ اور رہنمائی سے موجودہ انتظامیہ کا ساتھ دیں، نہ کہ تنقید کے ذریعے مسائل پیدا کریں۔ کھیل صرف جیت یا ہار کا نام نہیں بلکہ اتحاد، نظم، قربانی اور ٹیم ورک کا مظہر ہوتا ہے۔ اگر سابق کھلاڑی واقعی ہاکی سے مخلص ہیں تو انہیں فیڈریشن کو سپورٹ کرنا چاہیے، نہ کہ اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا۔
نتیجہ
موجودہ پاکستان ہاکی فیڈریشن پر سابق اولمپئنز کی تنقید نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ ملکی کھیلوں کے مفاد کے خلاف بھی ہے۔ پاکستان ہاکی کو اس وقت اتفاق، یکجہتی اور تعاون کی ضرورت ہے۔ ہمیں ماضی کے تلخ تجربات سے سیکھ کر مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے ایک مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ تنقید اگر تعمیری ہو تو قبول، لیکن اگر محض ذاتی مفادات یا شہرت کے لیے ہو، تو یہ قوم، کھیل اور کھلاڑیوں کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔




















