دنیا کی پہلی خاتون ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو گئیں
اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے بعد دنیا کی پہلی خاتون ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو گئی ہیں۔
محققین کی جانب سے اسٹیم سیل کا نیا طریقہ استعمال کرنے کے بعد ایک خاتون ایچ آئی وی سے صحت یاب ہونے والی تیسری شخصیت بن گئی۔
محققین نے منگل کو رپورٹ کیا کہ مخلوط نسل کی درمیانی عمر کی امریکی خاتون، جو لیوکیمیا (خون کے کینسر) میں مبتلا تھیں، کو ایک ڈونر سے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ ملنے کے بعد، ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو گئی ہیں، وہ دنیا کی پہلی خاتون اور اب تک کی تیسری شخصیت ہیں، جنھیں ایچ آئی وی سے نجات مل گئی ہے۔
اسٹیم سیل عطیہ کرنے والے ڈونر کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کے اندر قدرتی طور پر ایڈز کا سبب بننے والے وائرس کے خلاف قوت مدافعت موجود تھی۔
خاتون میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص 2013 میں ہوئی تھی، اس سے قبل ٹموتھی رے براؤن اور ایڈم کاسٹیلیجو نامی دو مرد بھی بون میرو یا بالغ اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے ذریعے ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔
خاتون کو خون کے سرطان کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی، اور انھیں کینسر کے علاج میں مدد کے لیے آنول نال کا خون بھی دیا گیا تھا۔
بچ آنول نال کا خون ایک ایسے ڈونر کا تھا جس کا خون جزوی طور پر ہی میچ ہو رہا تھا، اس خاتون کو ایک رشتہ دار کا بھی خون چڑھایا گیا تھا، تاکہ ان کے جسم کو ٹرانسپلانٹ کے عمل کے دوران "عارضی مدافعتی دفاع” حاص۔ل
ہو۔خاتون کو جب سے شدید مائیولائیڈ لیوکیمیا (ہڈی کے گودے میں خون بنانے والے خلیات میں بننے والا کینسر) کے علاج کے لیے آنول نال کا خون دیا گیا تھا،
تب سے (14 ماہ) وہ ایچ آئی وی وائرس سے نجات پا چکی ہیں، اور انھیں اینٹی ریٹرو وائرل علاج کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔دوسری طرف دونوں مرد، جو ایچ آئی وی سے ٹھیک ہونے والے پہلے دو مریض تھے، وائرس کے علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ سے گزارے گئے تھے، جب کہ خاتون کا کیس ایچ آئی وی کے خلاف جنگ میں ایک نئے طریقے کی نشان دہی کرتا ہے۔
براؤن اور کاسٹیلیجو دونوں نے ایسے ڈونرز سے بون میرو ٹرانسپلانٹ حاصل کیے تھے، جن کے گودے میں ایچ آئی وی کو روکنے والی میوٹیشن موجود تھی، اس قسم کی میوٹیشن نایاب ہے اور اکثر شمالی یورپی نسل کے ڈونرز ہی میں پائی جاتی ہے۔اگرچہ بون میرو ٹرانسپلانٹ دونوں کیسز میں کامیاب ثابت ہوا تھا، لیکن اس کے مضمرات بھی ہوتے ہیں، جیسا کہ براؤن تقریباً اس طریقہ کار کے بعد موت کے منہ میں پہنچ گیا تھا، اور کاسٹیلیجو کا وزن شدید طور پر کم ہو گیا تھا۔
سماعت میں کمی پیدا ہوئی اور انفیکشنز کا سامنا کرنا پڑا۔جب کہ اسٹیم سیلز کے ذریعے ٹھیک ہونے والی خاتون 17 دن بعد ہی اسپتال سے ڈسچارج ہو گئی تھیں، خاتون کے اندر اُس قسم کی بیماری بھی ظاہر نہیں ہوئی جسے graft versus host disease (GvHD) کہا جاتا ہے، اس میں عطیہ شدہ خلیات جسم کو غیر سمجھ کر حملہ آور ہوتے ہیں اور تباہی مچاتے ہیں، دونوں مرد اس کا شکار ہوئے تھے۔
گردشرپورٹ کے مطابق خاتون نے 2017 میں اپنا ٹرانسپلانٹ کروایا تھا، اور 3 سال بعد ایچ آئی وی کی دوا لینا چھوڑ دی۔
واضح رہے کہ یہ خاتون امریکا میں ایچ آئی وی کے 25 مثبت مریضوں میں سے ایک تھیں، جن کا ٹرانسپلانٹ ہو چکا ہے اور جن کی نگرانی کی جا رہی ہے۔یہ پچیس افراد وہ ہیں جنھیں ایچ آئی وی وائرس کے ساتھ ساتھ کینسر اور اسی طرح کی دیگر سنگین بیماریاں لاحق ہیں، جن کے علاج کے لیے انھیں آنول نال کے خون سے لیے گئے اسٹیم سیلز ٹرانسپلانٹ کیے گئے ہیں۔
یہ مریض علاج کے لیے سب سے پہلے کیموتھراپی سے گزرتے ہیں تاکہ کینسرزدہ مدافعتی خلیات کو ختم کیا جا سکے، اس کے بعد ڈاکٹر ان میں ایک مخصوص جینیاتی تغیر کے حامل افراد سے اسٹیم سیلز لے کر پیوند کاری کرتے ہیں، اس جینیاتی تغیر (جینیٹک میوٹیشن) کی وجہ سے ان ڈونرز میں اُن ریسپٹرز کی کمی ہوتی ہے، جنھیں وائرس خلیات کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ٹرانسپلانٹ کے بعد یہ افراد پھر ایچ آئی وی کے خلاف مدافعتی نظام تیار کرتے ہیں۔
خاتون کا کیس یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ڈاکٹر یوون برائسن اور جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیبورا پرساؤڈ کی سربراہی میں ہونے والی بڑی تحقیق کا ایک حصہ ہے۔