Paid ad
Breaking NewsEducationتازہ ترین

"پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے معیار اور گورننس‘‘ بارے ایمرسن یونیورسٹی میں سیمینار

ایمرسن یونیورسٹی ملتان (ڈائریکٹوریٹ آف اورک) کے زیر اہتمام "پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے معیار اور گورننس” کے موضوع پر ایک فکر انگیز مکالمے کا انعقاد کیا گیا، جس میں نامور ماہرین تعلیم، پالیسی سازوں اور تعلیمی رہنماؤں نے شرکت کی۔

اس مکالمے کا مقصد پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو درپیش چیلنجز اور مواقع پر غور و خوض کرنا تھا۔

تقریب کی صدارت وائس چانسلر ایمرسن یونیورسٹی ملتان پروفیسر ڈاکٹر محمد رمضان نے کی، اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین (سابق چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن)، پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب (وائس چانسلر، یونیورسٹی آف کمالیہ)، پروفیسر ڈاکٹر ساجد مبین (وائس چانسلر، یونیورسٹی آف اوکاڑہ) اور پروفیسر ڈاکٹر فیصل باری (ڈین، اسکول آف ایجوکیشن، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز – لمز) ، ڈاکٹر نادر مگسی (ڈائریکٹر اورک ) ، رجسٹرار ڈاکٹر محمد فاروق ، ڈاکٹر عدنان طاہر ، پروفیسر ڈاکٹر آصف رانجھا ، ڈائریکٹر ایڈوانس سٹڈیز اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ، ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر جام سجاد حسین ، ڈاکٹر سجاد نواز (ایچ او ڈی اکائونٹنگ اینڈ فنانس )سمیت دیگر ماہرین تعلیم طلباء و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

مکالمے کی میزبانی کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر محمد رمضان نے پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین سے سوال کیا کہ ایمرسن یونیورسٹی ایسے طلباء کے لیے معیاری تعلیم کو کیسے بہتر بنا سکتی ہے جو دیہی اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جواب میں ڈاکٹر نظام الدین نے مقامی ثقافتی تحقیق اور علاقائی مطالعات کو نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ تعلیم کو زیادہ بامقصد اور مؤثر بنایا جا سکے۔

پروفیسر ڈاکٹر فیصل باری نے تدریسی مسائل کی نشان دہی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اساتذہ کو پہلے طلباء کی تعلیمی مشکلات کو سمجھنا چاہیے اور پھر ان کا حل تلاش کرنا چاہیے۔

پروفیسر ڈاکٹر ساجد مبین نے نصاب میں اصلاحات کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے روایتی تدریسی طریقوں کو نتائج پر مبنی تعلیمی ماڈل میں تبدیل کرنے کی تجویز دی، جیسا کہ چین، روس اور فن لینڈ میں رائج ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب نے عملی تعلیم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں کو ہنر پر مبنی تعلیم کو فروغ دینا چاہیے تاکہ طلباء کو عملی تجربات حاصل ہوں اور ان کا صنعت سے براہ راست رابطہ ہو۔

اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین نے کہا کہ ہر کلاس روم کو عملی تعلیم سیکھنے کا ماحول فراہم کرنا چاہیے، جہاں طلباء تجرباتی اور تحقیقی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔

مباحثے کے دوران پروفیسر ڈاکٹر فیصل باری نے مصنوعی ذہانت (AI) کی تعلیمی صلاحیت پر روشنی ڈالی اور اس کی روزمرہ تدریسی سرگرمیوں میں شمولیت کی حمایت کی۔

ڈاکٹر ساجد مبین نے نتائج پر مبنی تعلیم کے اصولوں اور اس کی عملی افادیت پر گفتگو کرتے ہوئے کارکردگی کے واضح معیارات متعین کرنے کی تجویز دی۔

گورننس کے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر نادر مگسی نے یونیورسٹی کے انتظامی امور میں درپیش چیلنجز پر سوال اٹھایا، جس کے جواب میں پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب نے اداروں کے گورننس ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

اس کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین نے تعلیمی اداروں اور صنعت کے درمیان خلیج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جامعات کو ایسی تعلیمی پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں جو مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ ہوں۔

اس مکالمے میں کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی گئی، اہم تجاویز زیر غور آئیں جس میں نصاب کو عالمی معیار سے ہم آہنگی، جدید تدریسی طریقہ کار جو عملی تعلیم کو فروغ دیں، جامع تعلیمی پالیسیاں تاکہ تمام طبقات کے طلباء کو مساوی تعلیمی کے مواقع میسر آئیں۔

مالیاتی اصلاحات اور ادارہ جاتی خود انحصاری کے لیے مؤثر حکمت عملی۔ اخلاقی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ایسا نصاب متعارف کرانا جو طلبہ میں اخلاقی اقدار کو مضبوط کرے، گورننس کے نظام میں شفافیت اور جواب دہی کو یقینی بنانا شامل ہے۔

اپنے اختتامی کلمات میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد رمضان نے ایمرسن یونیورسٹی کے علمی مباحثوں کے فروغ اور پاکستان کے تعلیمی شعبے میں مثبت تبدیلی کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ تعلیم کے معیار اور گورننس کو بہتر بنانے کے لیے کھلے مکالمے کی اشد ضرورت ہے ۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button