طب کی ترقی میں اسلام کا کردار (فطری طریقہء علاج) حصہ دوم، تحریر: کنول شاہد

حدیث
جیسا کہ پہلے بتایا کہ قبل از اسلام عرب میں بت پرستی اور تو ہم پرستی اپنے عروج پر تھی. چنانچہ اسلام نے علاج میں سے بھی اس توہم پرستی کے عنصر کا خاتمہ کر کے علاج کے انتہائی فطری، اسان اور قابل عمل طریقے انسان کو حدیث نبوی کے ذریعے دیئے. کیونکہ عرب لوگ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے اور ان کی اکثریت جنگلی بودوباش رکھتی تھی لہذا سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سب سے پہلے پاک صاف رہنے کی تلقین کی کیونکہ ان کی بعثت کا ایک مقصد بنی نوع انسان کو ظاہری اور باطنی نجاستوں سے پاک کرنا بھی تھا
لَقَدْ مَنَّ اللّـٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِـيْهِـمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِـمْ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِهٖ وَيُزَكِّـيْـهِـمْ وَيُعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَۚ وَاِنْ كَانُـوْا مِنْ قَبْلُ لَفِىْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ (ال عمران 164) "اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا ہے جو ان میں انہیں میں سے رسول بھیجا (وہ) ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور دانش سکھاتا ہے، اگرچہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے۔” لہذا آپ نے ان لوگوں کو طہارت کی تعلیم فرمائی. سنن ابی داؤد میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’اِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَھَبَ الْمَذْھَبَ أَبْعَدَ۔‘‘ (حدیث نمبر1) حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:
’’إِذَا أَرَادَ الْبَرَازَ انْطَلَقَ حَتّٰی لَا یَرَاہُ أَحَدٌ۔ ‘‘(حدیث نمبر2) خلاصہ دونوں روایتوں کا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جاتے تو اتنے دور جاتے کہ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے۔ پیشاب کرتے وقت نرم اور نشیبی جگہ دیکھ کر وہاں کرنے کا حکم ہے، تاکہ پیشاب کی چھینٹیں اُڑ کر کپڑوں اور بدن پر نہ پڑیں۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’إِذَا أَرَادَ أَحَدُکُمُ الْبَوْلَ فَلْیَرْتَدْ لِبَوْلِہٖ مَوْضِعًا۔‘‘(حدیث نمبر3) ’’جب تم میں کوئی پیشاب کرنے کا ارادہ کرے تو اُسے چاہیے کہ پیشاب کے لیے (نرم اور نشیبی) جگہ تلاش کرے۔‘اسی طرح ایک مسلمان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے اور اپنی طبعی ضرورت کے تحت اس کو پانی استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہاتھ دھوئے بغیر پانی کے برتن میں نہ ڈالے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’إِذَا اسْتَیْقَظَ أَحَدُکُمْ مِّنْ نَّوْمِہٖ فَلْیَغْسِلْ یَدَہٗ قَبْلَ أَنْ یَّدْخُلَ فِيْ وَضُوْئِہٖ ؛ فَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَا یَدْرِيْ أَیْنَ بَاتَتْ یَدُہٗ۔‘‘ (حدیث نمبر 162) یعنی ’’جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وضو کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل اپنا ہاتھ دھو لے، اس لیے کہ اسے معلوم نہیں کہ نیند کی حالت میں اس کے ہاتھ نے کہاں رات گزاری ہے۔‘‘اسی طرح آپ نے ان لوگوں پر ہفتے میں کم از کم ایک بار غسل کرنا واجب کیا۔
اس حکم کے متلق حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا میں تمہیں بتاتا ہوں کہ غسل جمعہ کے حکم کی شروعات کیسے ہوئی (واقعہ یوں ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں) مسلمان لوگ غریب اور محنت کش تھے، صوف (یعنی اونٹ، بھیڑ وغیرہ کے بالوں سے بنے ہوئے بہت موٹے کپڑے) پہنتے تھے اور محنت مزدوری میں اپنی پیٹھوں پر بوجھ لادتے تھے اور ان کی مسجد (مسجد نبوی) بھی بہت تنگ تھی اور اس کی چھت بہت نیچی تھی اور ساری مسجد بس ایک چھپر کا سائبان تھا (س کی وجہ سے اس میں انتہائی گرمی اور گھٹن رہتی تھی) پس رسول اللہ ﷺ ایک جمعہ کو جب کہ سخت گرمی کا دن تھا گھر سے مسجد تشریف لائے اور لوگوں کا یہ حال تھا کہ صوف کے موٹے موٹے کپڑوں میں ان کو پسینے چھوٹ رہے تھے اور ان سب چیزوں نے مل ملا کر مسجد کی فضا میں بد بو پیدا کر دی تھی جس سے سب کو تکلیف اور اذیت ہو رہی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے جب یہ بدبو محسوس کی تو فرمایا کہ: يَأَيُّهَا النَّاسُ إِذَا كَانَ هَذَا الْيَوْمَ فَاغْتَسِلُوا، وَلْيَمَسَّ أَحَدُكُمْ أَفْضَلَ مَا يَجِدُ مِنْ دُهْنِهِ وَطِيبِهِ (رواه البخارى ومسلم) "اے لوگو جب جمعہ کا یہ دن ہوا کرے تو تم لوگ غسل کیا کرو اور جو اچھا خوشبودار تیل اور جو بہتر خوشبو جس کو دستیاب ہو وہ لگا لیا کرے۔”
اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ میٹھا اور چکنائی کھانے سے دانت گندے ہو جاتے ہیں اور اگر فوری طور پر انہیں صاف نہ کیا جائے تو کیڑا بھی لگ سکتا ہے. لہذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعے ہمیں منہ کی صفائی کچھ اس طرح سے سکھائی ہے:حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عقيل، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم شرب لبنا، فدعا بماء، فمضمض، وقال: ” إن له دسما ". قال: وفي الباب عن سهل بن سعد الساعدي، وام سلمة. قال ابو عيسى: وهذا حسن صحيح، وقد راى بعض اهل العلم المضمضة من اللبن، وهذا عندنا على الاستحباب، ولم ير بعضهم المضمضة من اللبن.(سین ترمذی حدیث نمبر 89)”عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دودھ پیا تو پانی منگوا کر کلی کی اور فرمایا: ”اس میں چکنائی ہوتی ہے“۔
دوسرا انہیں صحت بخش طریقے سے کھانے کی تربیت کی اور بتایا کہ حیوانوں کی طرح کھانا نقصان دہ ہو سکتا ہے. کیونکہ بھرا ہوا معدہ ہی تمام بیماریوں کی جڑ ہے "حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا إسماعيل بن عياش، حدثني ابو سلمة الحمصي، وحبيب بن صالح , عن يحيى بن جابر الطائي، عن مقدام بن معد يكرب، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ” ما ملا آدمي وعاء شرا من بطن بحسب ابن آدم اكلات يقمن صلبه، فإن كان لا محالة، فثلث لطعامه وثلث لشرابه وثلث لنفسه ".(سنین ترمذی حدیث نمبر 2380) "مقدام بن معدیکرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برا نہیں بھرا، آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے.“
بعد ازاں جب بھی کسی بیمار فرد کا مسئلہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جاتا یا اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کسی مریض کی عیادت کو جاتے تو جڑی بوٹیوں یا غذا پر مشتمل علاج کے انتہائی اسان اور فطری طریقے سے تجویز کرتے تھے اور اپ نے جیسے کسی کو کسی مسئلے یا بیماری کا علاج بتایا صحابہ کرام نے ان سب اقوال کو جمع کیا جو کہ ہمیں صحیح بخاری صحیح مسلم اور بہت سی دوسری احادیث کی کتب ملتے ہیں بعد ازاں امام ابن قیم نے طبی احادیث پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس کا ترجمہ اب تک مختلف زبانوں میں کئی افراد کے ہاتھوں کیا جا چکا ہے.
سب سے اہم طبی مسئلہ جو کہ زمانہ قدیم سے چلا جا رہا ہے اور اب بھی بدرجہ اتم موجود ہے یعنی کہ شریزوفینیا اس پر بھی امام صاحب نے روشنی ڈالی ہے اور اپنے علم کے مطابق اس مسئلے کو دو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے یعنی کہ امام جوزیہ کے مطابق جب کسی پہ اثرات ہوتے ہیں تو یا تو بیماری کی وجہ سے ہوتے ہیں یا شیطانی روحوں کی وجہ سے ہوتے ہیں. لیکن اس مسئلے کی جڑ کو سمجھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے کیونکہ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ مریض کے لواحقین خاص خصوصاً والدین شدید مصیبت کا شکار ہوتے ہیں کبھی علمائے کرام سے رجوع کر لیتے ہیں تو کبھی نفسیات دانوں کی مہنگی فیسیں اور اخراجات اٹھاتے نظر ارہے ہوتے ہیں۔
دوسری طرف اس مسئلے پر علماء بھی اپنی سی کوشش کر لیتے ہیں لیکن مجموعی طور پر کسی بھی طرح اس مسئلے کا مستقل حل نہیں نکل پاتا. لیکن حقیقت یہ ہے کہ عیسائیت اور جدید سائنس اس مسئلے کو کوئی جسمانی بیماری قرار ہی نہیں دیتیں. بائبل کی ریسرچ کے مطابق: "ذہنی بیماری سے وابستہ رویے ذاتی مسائل کا حل ہیں۔ ایک بار جب آپ رویوں کو چیک لسٹ کر لیتے ہیں، تو بس پوچھیں، "ان رویوں سے شخص کو کیا ذاتی فائدہ حاصل ہوتا ہے”۔ شیزوفرینیا کا لیبل ان لوگوں پر لگایا جاتا ہے جو فریب اور بے وقوف بننے کا انتخاب کرتے ہیں۔ فریب، فریب یا جھوٹ کا گناہ ہے اور پاگل پن عام طور پر خالص نرگسیت ہے جو عظمت کے فریب کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ شیزوفرینیا، لہذا، ذاتی مسائل کا ایک گنہگار حل ہے اور ایک فائدہ فراہم کرتا ہے۔” اگرچہ پہلے ہی واضح کیا ہے کہ تمام بیماریوں کی وجہ اروح خبیثہ یا شیطان کی پیروی کرنے والے جن ہوتے ہیں جن کی پیروی انسان غیر شعوری طور پر کر کے اپنے اپ کو بیمار کر بیٹھتا ہے لیکن شیزوفینیا میں مبتلا انسان انتہائی مکار اور چالاک ہوتا ہے اور وہ شیطان کے بہکاوے میں آکر لوگوں کو بے وقوف بناتا ہے تاکہ اپنا مقصد پورا کر سکے. یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی ٹریٹمنٹ فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا لہذا نہ صرف عیسائیت اور جدید سائنس نے پاگل پن کو choice of behaviour قرار دیا ہے بلکہ قران پاک نے بھی اس صورتحال کی وضاحت کم و بیش انہی الفاظ میں کی ہے:هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُﭤ(221)تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍ(222)یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَﭤ(الشعراء 223)”کیا میں تمہیں بتادوں کہ شیاطین کس پر اُترتے ہیں شیطان اُترتے ہیں ہربڑے بہتان والے گناہگار پر وہ (شیطان) اپنی سنی ہوئی اُن پر ڈالتے ہیں اور اُن میں اکثر جھوٹے ہیں.” یہی وجہ تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے مریضوں کے ساتھ دھمکی امیز رویہ اختیار کیا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آسیب زدہ آدمی پر مسلّط جِنّ کو ڈرایادھمکایا اور فرمایا : (( أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْکَ )) (تین مرتبہ ) ” میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔” (( اَلْعَنُکَ بِلَعْنَۃِ اللّٰہِ )) (تین مرتبہ ) ” میں تجھ پر اللہ کی لعنت بھیجتا ہوں ۔” پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جِنّ سے مخاطب ہوکرفرمایا: (( اُخْرُجْ عَدُوَّ اللّٰہِ، أَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ )) ۔ ” اے اللہ کے دشمن ! نکل جا ، میں اللہ کا رسول ہوں ”۔ یہی زجر و توبیخ مناسبِ حال الفاظ میں ہمارے لیٔے بھی ایک مسنون عمل و علاج ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں” رَسُوْلُ اللّٰہِ”کہاتھا،اُس کی جگہ ہم اپنے آپ کو ” عَبْدُ اللّٰہِ ” (اللہ کا بندہ ) کہیں گے ۔ یہی نہیں بلکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے جِنّ کے لیٔے اپنے شاگرد کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ نکل جاؤ، ورنہ لکڑی کے ستّر (۷۰) جوتے کھانے کیلیٔے تیار ہوجاؤ، تو وہ جِنّ صرف پیغام سُن کر ہی نکل گیا ۔
اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کبھی اپنے کسی ساتھی یا شاگرد کو آسیب زدہ آدمی کے پاس بھیج کر جِنّ کو کہلواتے کہ اس سے نکل جاؤ ۔ تمہارا یہ فعل تمہارے لیٔے جائز نہیں، اور کبھی خود جاکر اُسے کہتے اور مریض کو افاقہ ہوجاتا. ( یہ حقائق جاننے کے بعد قارین کو یقینا ان عاملین سے ناراض نہیں ہونا چاہیے جو مریض کو الٹا لٹکا کر پھینٹی لگاتے ہیں اور نہ ہی ان مخلص طبیبوں سے جو کہ مریض کو پاگل خانے بھجنا تجویز کرتے ہیں جن کی دھمکی سے ہی اکثر مریض کے سارے جنات رفوچکر ہوجاتے ہیں).
حضور اکرم صلعم نے علاج کے یہ طریقے بتائے[صحیح بخاری]حدیث نمبر: 5680 کے مطابق ہم سے حسین نے بیان کیا ، کہا ہم سے احمد بن منیع نے بیان کیا ، کہا ہم سے مروان بن شجاع نے بیان کیا ، ان سے سالم افطس نے بیان کیا ، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ شفاء تین چیزوں میں ہے ۔ شہد کے شربت میں ، پچھنا لگوانے میں اور آگ سے داغنے میں لیکن میں امت کو آگ سے داغ کر علاج کرنے سے منع کرتا ہوں ۔ ابن عباس ؓ نے اس حدیث کو مرفوعاً نقل کیا ہے اور القمی نے روایت کیا ، ان سے لیث نے ، ان سے مجاہد نے ، ان سے ابن عباس ؓ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے شہد اور پچھنا لگوانے کے بارے میں بیان کیا.
یاد رہے کہ اج کل پچھنا لگوانے کے لیے حجامہ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور یہ وہ طریقہ ہے جو زمانہ قدیم سے چلا ا رہا ہے کیونکہ بہت سی بزرگ خواتین جو جوڑوں کے درد اور رگوں کی بلاکج وغیرہ کے مسائل میں مبتلا ہوتی تھی وہ یا تو جونکیں (ایک قسم کا کیڑا) لگواتی تھی جو کہ گندا زائد اور فاسد خون چوس لیتی تھیں اور یا پھر کونچیں لگواتی تھیں جن کی وجہ سے دور حاضر میں بڑے ہوئے امراض کی نسبت بہت سے طبی مسائل ان طریقوں سے ختم ہو جاتے تھے۔
روایات کے مطابق جب ایک یہودی خاتون نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیڑ کے گوشت میں زہر ملا کر دے دیا تھا تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اثر ختم کرنے کے لیے بچھنا لگوایا تھا. مسند احمد (3/281) (صحیح)صحيح بخاري (2617) صحيح مسلم (2190) کے مطابق "توفي بعض اصحابه الذين اكلوا من الشاة، واحتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم على كاهله من اجل الذي اكل من الشاة، حجمه ابو هند بالقرن والشفرة، وهو مولى لبني بياضة من الانصار” آپ کے بعض صحابہ جنہوں نے بکری کا گوشت کھایا تھا انتقال کر گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے گوشت کھانے کی وجہ سے اپنے شانوں کے درمیان پچھنے لگوائے، جسے ابوہند نے آپ کو سینگ اور چھری سے لگایا، ابوہند انصار کے قبیلہ بنی بیاضہ کے غلام تھے۔ اسی طرح صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5700 کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھے سر کے درد کے لیے بھی پچھنا لگوایا. حدیث کے الفاظ یہ ہیں "حدثني محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، عن هشام، عن عكرمة، عن ابن عباس، احتجم النبي صلى الله عليه وسلم في راسه وهو محرم من وجع كان به بماء يقال له لحي جمل.” یعنی ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں اپنے سر میں پچھنا لگوایا (یہ پچھنا آپ نے سر کے) درد کی وجہ سے لگوایا تھا جو لحی جمل نامی پانی کے گھاٹ پر آپ کو ہو گیا تھا۔
جہاں تک اگ سے داغ کر علاج کرنے کا تعلق ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض روایات میں ممانعت بھی منقول ہے اور بعض احادیث مبارکہ میں اس کی اجازت اور اس علاج کو اختیار کرنے کا ذکر بھی آتاہے،فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر دیگراسباب کے ذریعہ مرض کا علاج ممکن ہوتو ’’داغنے‘‘سے احتراز کیاجائے اور اگر کسی مرض کا علاج کسی اور ذریعے سے ممکن نہ ہو اور یہ بھی یقین ہو کہ صرف’’داغنے‘‘سے ہی فائدہ ہوسکتاہے اس صورت میں ’’داغنے‘‘کی اجازت ہے ،اس طرح دونوں احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے۔چنانچہ مشکوۃ شریف کی ایک حدیث کے مطابق’’ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ احزاب (کہ جس کو غزوہ خندق بھی کہتے ہیں )کے دن حضرت ابی کی رگ ہفت اندام پر تیر آ کر لگا (جس سے خون جاری ہو گیا ) تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو داغ دیا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم کے منہ کو داغنے کا حکم فرمایا یا خود اپنے دست مبارک سے داغا تاکہ خون بند ہو جائے ‘‘۔ اسی طرح غزوہ احد میں جب اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر میں زخم لگا اور تیزی سے خون بہہ رہا تھا تو پہلے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما نے زخم کو پانی سے دھویا لیکن جب دیکھا کہ خون زیادہ تیزی سے بہہ رہا ہے تو اس کو روکنے کے لیے روایت کے مطابق یہ طریقہ استعمال حدثني سعيد بن عفير، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن القاري، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد الساعدي، قال: لما كسرت على راس رسول الله صلى الله عليه وسلم البيضة وادمي وجهه وكسرت رباعيته وكان علي يختلف بالماء في المجن وجاءت فاطمة تغسل، عن وجهه الدم فلما رات فاطمة عليها السلام الدم يزيد على الماء كثرة عمدت إلى حصير فاحرقتها والصقتها على جرح رسول الله صلى الله عليه وسلم فرقا الدم.(صحیح بخاری حدیث نمبر5722)”مجھ سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا، اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر (احد کے دن) خود ٹوٹ گیا آپ کا مبارک چہرہ خون آلود ہو گیا اور سامنے کے دانت ٹوٹ گئے تو علی رضی اللہ عنہ ڈھال بھر بھر کر پانی لاتے تھے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھو رہی تھیں۔ پھر جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ خون پانی سے بھی زیادہ آ رہا ہے تو انہوں نے ایک بوریا جلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں پر لگایا اور اس سے خون رکا۔”(حصیر، عربوں میں کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی تھی۔
راکھ کھجور کے پتوں کی ہو یا پٹ سن کے بورے کی یا سوتے کپڑے کی، خون بند کر دیتی ہے۔
اس سے خون کی رگیں بند کرنا مقصود تھا، انہیں بند کرنے سے خون خود بخود بند ہو جاتا ہے۔
راکھ کی یہ خصوصیت ہے کہ جب اسے زخم پر چپکا دیا جاتا ہے تو یہ خون بند کر دیتی ہے اور اس کے جاری ہونے کی جگہ کو بھی خشک کر دیتی ہے، چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:
(باب التداوي بالرماد)
”راکھ سے علاج کرنا۔
“ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ پانی کے ساتھ خون کو اس وقت دھویا جائے جب زخم گہرا نہ ہو لیکن جب زخم گہرا ہو تو اس میں پانی پڑ جانے سے نقصان کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔)
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب جیسے گرم علاقے میں شبرم جیسی گرم جڑی بوٹی کی جگہ سنا مکی کو بطور دافع قبض تجویز کیا:حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن بكر، حدثنا عبد الحميد بن جعفر، حدثني عتبة بن عبد الله، عن اسماء بنت عميس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سالها: ” بم تستمشين؟ ” قالت: بالشبرم، قال: ” حار جار ” قالت: ثم استمشيت بالسنا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ” لو ان شيئا كان فيه شفاء من الموت لكان في السنا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، يعني: دواء المشي.(سنین ترمذی حدیث نمبر 2081)
"اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ”اسہال کے لیے تم کیا لیتی ہو؟“ میں نے کہا: «شبرم» آپ نے فرمایا: ”وہ گرم اور بہانے والا ہے“۔ اسماء کہتی ہیں: پھر میں نے «سنا» کا مسہل لیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی چیز میں موت سے شفاء ہوتی تو «سنا» میں ہوتی“۔
اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ جدید طب میں بھی یہ اصول ہے کہ اسہال کو فوری طور پر نہ روکا جائے جب تک کہ پیٹ پوری طرح صاف نہ ہو جائے. سنت رسول میں بھی ہمیں یہی فطری اصول ملتا ہے. صحیح البخاری حدیث نمبر: 5716 کے مطابق؛ حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد، قال:” جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال: إن اخي استطلق بطنه، فقال: اسقه عسلا، فسقاه، فقال: إني سقيته، فلم يزده إلا استطلاقا، فقال: صدق الله وكذب بطن اخيك”، تابعه النضر، عن شعبة. ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوالمتوکل نے اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے بھائی کو دست آ رہے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں شہد پلاؤ۔ انہوں نے پلایا اور پھر واپس آ کر کہا کہ میں نے انہیں شہد پلایا لیکن ان کے دستوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے (آخر شہد ہی سے اسے شفاء ہوئی)۔ محمد بن جعفر کے ساتھ اس حدیث کو نضر بن شمیل نے بھی شعبہ سے روایت کیا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ دور حاضر میں بخار پر قابو پانے کے لیے ٹھنڈی پٹیاں رکھی جاتی ہیں. یہ طریقہ بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا ہےحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا عبد الله بن نمير , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال:” الحمى من فيح جهنم , فابردوها بالماء”.(سنین ابن ماجہ حدیث نمبر 3471) "ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخار جہنم کی بھاپ ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو“
روایات کے مطابق اپ نے دل کے مریض کا علاج عجوہ کھجور سے سنین ابی دائود کی حدیث نمبر: 3875 کے مطابق کچھ اس طرح کیا حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ:” مَرِضْتُ مَرَضًا أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا عَلَى فُؤَادِي، فَقَالَ: إِنَّكَ رَجُلٌ مَفْئُودٌ، ائْتِ الْحَارِثَ بْنَ كَلَدَةَ أَخَا ثَقِيفٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ يَتَطَبَّبُ، فَلْيَأْخُذْ سَبْعَ تَمَرَاتٍ مِنْ عَجْوَةَ الْمَدِينَةِ، فَلْيَجَأْهُنَّ بِنَوَاهُنَّ، ثُمَّ لِيَلُدَّكَ بِهِنَّ”.
"سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے آئے، آپ نے میری دونوں چھاتیوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھا میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے دل میں محسوس کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں دل کی بیماری ہے حارث بن کلدہ کے پاس جاؤ جو قبیلہ ثقیف کے ہیں، وہ دوا علاج کرتے ہیں، ان کو چاہیئے کہ مدینہ کی عجوہ کھجوروں میں سات کھجوریں لیں اور انہیں گٹھلیوں سمیت کوٹ ڈالیں پھر اس کا «لدود» بنا کر تمہارے منہ میں ڈالیں“۔
جدید سائنس و بائی امراض کی صورت میں صحت مند افراد کو مریض سے فاصلہ رکھنا ضروری قرار دیتی ہے. یہی تاکید ہمارے پیارے اقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی کی ہے. صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5707 کے مطابق؛ وقال عفان، حدثنا سليم بن حيان، حدثنا سعيد بن ميناء، قال: سمعت ابا هريرة يقول، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” لا عدوى ولا طيرة، ولا هامة ولا صفر، وفر من المجذوم كما تفر من الاسد” اور عفان بن مسلم (امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ) نے کہا (ان کو ابونعیم نے وصل کیا) ہے کہ ہم سے سلیم بن حیان نے بیان کیا، ان سے سعید بن میناء نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوت لگنا، بدشگونی لینا، الو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں البتہ جذامی شخص سے ایسے بھاگتا رہ جیسے کہ شیر سے بھاگتا ہے۔
اب آتے ہیں دور حاضر کے سب سے سنگین طبی مسئلے کی طرف یعنی کہ امراض اطفال. بچے پھول سے نازک ہوتے ہیں اور موسم کی سردی خاص طور پر ان کی صحت کو متاثر کرتی ہے اج سے کچھ برس پہلے تک گھر کی بزرگ خواتین اپنے روایتی طریقوں یعنی ٹوٹکو اور مالش وغیرہ کے ذریعے ان مسائل پر باسانی قابو پا لیتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے ایلوپیتھی پر ہمارا انحصار بڑھتا گیا ہے ویسے ویسے ہم نے ان روائتی چیزوں پر بھی انحصار کرنا چھوڑ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ نومولودوں کے صحت کے معمولی مسائل بھی سنگین صورتحال اختیار کر کے اکثر موت کا باعث بھی بن جاتے ہیں. ان مسائل میں سب سے زیادہ تناسب سردی سے سینہ جکڑنے کا ہوتا ہے روایتی طور پر ایسی صورت میں ہر جگہ بچوں کی سخت ہاتھوں سے مالش کی جاتی ہے جس سے ان کی طبیعت بہتر ہو جاتی ہے عرب میں بھی کچھ اس طرح کا رجحان تھا۔
ایسے میں ہمارے ہادی برحق جنہیں اللہ تعالی نے تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کے بھیجا، نے نہ صرف بڑوں کا بلکہ نو مولود بچوں کی تکلیف دور کرنے کا انتہائی اسان طریقہ بتا دیا تھا حدثني محمد، اخبرنا عتاب بن بشير، عن إسحاق، عن الزهري، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله، ان ام قيس بنت محصن وكانت من المهاجرات الاول اللاتي بايعن رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي اخت عكاشة بن محصن اخبرته:” انها اتت رسول الله صلى الله عليه وسلم بابن لها قد علقت عليه من العذرة فقال: اتقوا الله على ما تدغرون اولادكم بهذه الاعلاق عليكم بهذا العود الهندي، فإن فيه سبعة اشفية منها: ذات الجنب”، يريد الكست يعني القسط، قال: وهي لغة.(صحیح البخاری حدیث نمبر 5718)”ہم سے محمد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عتاب بن بشیر نے خبر دی، انہیں اسحاق نے، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ ام قیس بنت محصن جو پہلے پہل ہجرت کرنے والی عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی اور وہ عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں، خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بیٹے کو لے کر حاضر ہوئیں۔ انہوں نے اس بچے کا کوا گرنے میں تالو دبا کر علاج کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو کہ تم اپنی اولاد کو اس طرح تالو دبا کر تکلیف پہنچاتی ہو عود ہندی (کوٹ) اس میں استعمال کرو کیونکہ اس میں سات بیماریوں کے لیے شفاء ہے جن میں سے ایک نمونیہ بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عود ہندی سے «كست» تھی جسے «قسط» بھی کہتے ہیں یہ بھی ایک لغت ہے.” یہی مضمون حدیث نمبر5713 میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے” ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے زہری نے، کہا مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی اور انہیں ام قیس رضی اللہ عنہا نے کہ میں اپنے ایک لڑکے کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے اس کی ناک میں بتی ڈالی تھی، اس کا حلق دبایا تھا چونکہ اس کو گلے کی بیماری ہو گئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے بچوں کو انگلی سے حلق دبا کر کیوں تکلیف دیتی ہو یہ عود ہندی لو اس میں سات بیماریوں کی شفاء ہے ان میں ایک ذات الجنب (پسلی کا ورم بھی ہے) اگر حلق کی بیماری ہو تو اس کو ناک میں ڈالو اگر ذات الجنب ہو تو حلق میں ڈالو (لدود کرو) سفیان کہتے ہیں کہ میں نے زہری سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بیماریوں کو تو بیان کیا باقی پانچ بیماریوں کو بیان نہیں فرمایا۔ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا میں نے سفیان سے کہا، معمر تو زہری سے یوں نقل کرتا ہے «أعلقت عنه» انہوں نے کہا کہ معمر نے یاد نہیں رکھا۔ مجھے یاد ہے زہری نے یوں کہا تھا «أعلقت عليه.» اور سفیان نے اس تحنیک کو بیان کیا جو بچہ کو پیدائش کے وقت کی جاتی ہے سفیان نے انگلی حلق میں ڈال کر اپنے کوے کو انگلی سے اٹھایا تو سفیان نے «أعلاق» کا معنی بچے کے حلق میں انگلی ڈال کر تالو کو اٹھایا انہوں نے یہ نہیں کہا «أعلقوا عنه شيئا.» ۔
اسی طرح کچھ احادیث علامہ عبد الرشید ترابی کی تصنیف”طب معصومین” میں بھی آئمہ کرام کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ سلم کی موجود ہیں جن کا حوالہ فی الوقت دستیاب نہیں ہوسکا. لیکن یہ ایسی احادیث ہیں جو نظر انداز نہیں کی جا سکتی کیونکہ ان کی بنیاد پر ائمہ کرام نے ناقابل علاج سمجھی جانے والی بیماریوں کے بھی علاج بتائے.
علاوہ ازیں ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن میں ایسے حقائق کی نشاندہی کی گئی ہے جو دور حاضر میں سائنسی تحقیق ثابت کر رہی ہے. مثلا اس کتاب میں درج ہے کہ "مغرب نے انکشافات عصریہ کے تحت (کروموپیتھی) علم الامراض باللون (رنگوں سے امراض کے علم) کے اصول کی تدوین کی. چنانچہ امریکہ میں بہت سے شفا خانے قائم ہے جو صرف ان امراض کا علاج کرتے ہیں جو رنگ سے پیدا ہوتے ہیں. دماغی امراض کے اطباع خصوصی کا خیال ہے کہ جو بچے سفید رنگ دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں ان کے دماغ ان بچوں سے زیادہ صحیح ہوتے ہیں جو سیاہ اور میرے رنگ دیکھنے کے خوگر ہوتے ہیں. ان کا خیال ہے کہ مجنوں وہی لوگ ہوتے ہیں جو بچپن میں سیاہ رنگ دیکھنے کے عادی تھے(حاذق جنوری1936)۔
اب انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ملاحظہ ہو: سیاہ جوتا نہ پہنو، بینائی کو ضعیف کرتا ہے، قوت باہ کو سست اور رنج و غم زیادہ ہوتا ہے. زر نعلین(جوتے) پہننے سے انکھوں کی روشنی تیز ہوتی ہے.”
ہم جانتے ہیں کہ دور حاضر میں اعلی ترین طبی سہولیات کے باوجود امراض ختم نہیں ہوتے چاہے ساری عمر ہی کیوں نہ دوا استعمال کی جائے اور اس بیماری پر عمر بھر کی پونجی نہ لٹا دی جائے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے سنت کو جاننا اور اس پر عمل کرنا بالکل ترک کر دیا بعض روایات کے مطابق انسانی جسم میں پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انتہائی سادہ اور جامع کلیہ دیا ان الفاظ میں دیا ہے کہ”درد تین ہیں صفرا خون اور بلغم اور ان کے علاج بھی تین ہیں صفرا کا علاج مسہل(جلاب) خون کا علاج حجامت(یعنی فسد وغیرہ) اور بلغم کا علاج حمام ہے.”
اسی طرح اگر دیکھا جائے تو بادی غذا جیسے آلو، بھنڈی، گوبھی، مولی، چنے اور بڑا گوشت وغیرہ کا غذا میں زیادہ تناسب ریح، قبض، بلغم اور جوڑوں کا درد جیسے مسائل کا سبب بنتا ہے. کچھ وقت پہلے تک ہمارے ہر گھر میں بادی غذا کے اثرات کو ختم کرنے اور ہاضمہ آسان بنانے کے لیے کوئی چورن یا سفوف موجود رہتا تھا. لہذا جس کو بھی بد ہضمی پیٹ درد یا قبض وغیرہ کا مسئلہ ہوتا تھا وہ اسی سفوف سے صحیح ہو جاتا تھا. درحقیقت یہ بھی ایک سنت رسول تھی. جو ہمارے بڑوں میں چلی آرہی تھی. کیونکہ کچھ روایات کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم زرنباد، سیاہ دانہ اور ابریشم تینوں دواؤں کو ہم وزن لے کر سفوف بنا لیا کرتے تھے اور ایسی غذا کے بعد جس سے ضرر کا اندیشہ ہوتا تھا یہ سفوف تناول فرما لیتے تھے. کبھی کبھی پسا نمک اس میں ملا کر کھانے سے پہلے بھی نوش فرما لیتے تھے. اور یہ فرماتے تھے کہ "اگر میں نہار منہ اس سفوف کو کھا لوں تو کسی اور چیز کے کھانے کی پرواہ نہیں رہتی. کیونکہ یہ معدے کو قوت دیتا ہے، بلغم کو رفع کرتا ہے اور لقوے سے محفوظ رکھتا ہے.”
اسی طرح آجکل سر درد کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے وقتی طور پر آپ پین کلر کھا لیں تو آرام آ جاتا ہے لیکن رسول اللہ ص نے انتہائی آسان علاج بتایا ہے کہ” سر درد کے لئے روغن کشنیز (دھنیا کا تیل) ناک میں ٹپکائیں،ایک جگہ روغن کنجد (تل کا تیل) بھی لکھا ہے. مگر دھلے ہوئے تل کا تیل ہونا ضروری ہے۔
کمزور بینائی کا علاج نیی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کچھ یوں منقول ہے” کمات (کھنبی) کے پانی کا آنکھوں میں لگانا اور کھانا گئی ہوئی بینائی کو واپس لاتا ہے(یعنی اندھے پن کا علاج ہے) اور درد سے شفا دیتا ہے.”اسی طرح ارشاد فرمایا "دمیلان جو ایک طرح کی گھاس ہے بہشت کی اور اس کا عرق آنکھوں کے درد میں بیحد مفید ہے.”
زکام کا حل ہادی برحق ص نے مرزبخوش (دونامروا) کو سونگھنا بتایا. اسی طرح ذات الجنب کا علاج آپ نے کچھ یوں بتایا” قسط بحری (کٹ) اور زیت (زیتون) سے اس کا علاج کیا جائے.”
اسی طرح اس کتاب میں مفردات کے ساتھ ساتھ مرکبات کے بھی بہت سے نسخے درج ہیں جو آج بھی اپنی افادیت کی وجہ سے طب یونانی میں مستعمل ہیں.
جاری ہے