طب کی ترقی میں اسلام کا کردار (فطری طریقہء علاج) حصہ اول

مسلمان اہل علم کی وجہ سے طب کو باقاعدہ ایک شعبے کی حیثیت دینے میں اہم کردار اسلام کی ان تعلیمات کا ہے، جن میں قدیم تہذیبوں کے علم طب کے برعکس حفظان صحت کی اصولوں اور انسان کی اخلاقی حالت کی بہتری کے ذریعے ایک باقاعدہ طریقہ علاج دیا گیا۔
جبکہ قبل اذاں تمام تہذیبوں کی طبی دستاویزات کو دیکھیں تو تھوڑی بہت جڑی بوٹیوں اور زیادہ جھاڑ پھونک پر زور دیا گیا ہے یعنی کہ بری روحوں کو بیماری کا ذمہ دار قرار دے کر ان سے نجات کے جنتر منتر بتائے گئے ہیں۔یہاں تک کہ عیسائیت جس نے انسان کی اخلاقی پاکیزگی کے ذریعے شفا کو یقینی بنایا میں بھی بیماری کی روحوں کا کافی ذکر ملتا ہے مثلاً میتھیو 8:16-17 کے مطابق "وہ بہت سے لوگوں کو اُس کے پاس لائے جو بدروحوں سے ستائے گئے تھے، اور اُس نے ایک لفظ سے روحوں کو نکالا اور سب بیماروں کو شفا دی۔ یہ اُس بات کو پورا کرنے کے لیے تھا جو یسعیاہ نبی نے کہا تھا: ”اُس نے ہماری بیماریاں لی اور ہماری بیماریاں اُٹھا لیں۔”
اگرچہ بیماری پیدا کرنے والی شیطانی روحوں کا محرک بھی ایک حقیقت ہے لیکن اس تصور کا منفی پہلو یہ ہے کہ انسان ساری توجہ ان روحوں سے نجات پانے پر مرکوز کر لیتا ہے، جس کی وجہ سے ان محرکات یعنی اخلاقی کمزوریوں اور غذا ماحول وغیرہ کو نظر انداز کر دیتا ہے جو ان بیماری کی روحوں کو مسلط کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ نتیجتاً اس مسئلے یا بیماری سے ہمیشہ کے لیے نجات پانا ممکن نہیں ہوتا۔ جیسا کہ ایک سابقہ تحریر میں، میں نے شمنوں کے طریقہ علاج کی وضاحت کی تھی کہ وہ ڈھول بجا کر اور جڑی بوٹیوں کے ذریعے بیماری پیدا کرنے والی روح کو جسم سے نکال لیتے ہیں۔ لیکن اس تصور سے ایک طرف توہم پرستی کی ترویج ہوتی تھی اور دوسری طرف مریض کو آسیب زدہ مان کر اس سے دور رہا جاتا تھا۔ حالانکہ پہلے بقراط اور پھر عیسائیت میں مریض سے ہمدردی اور محبت کی خاص ترغیب دی گئی ہے لیکن پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام سے پہلے دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں عیسائیت کے دور عروج میں evil spirits کے تصور کی وجہ سے ایک طرف تو علاج کے کافی اذیت ناک طریقے رائج رہے اور دوسری طرف علاج صرف کلیسا سے ہی منسوب رہا۔ یہاں تک کہ عربوں کا طریقہ علاج بھی جھاڑ پھونک اور فال نکالنے شگون لینے جیسے توہم پرستانہ طریقوں تک محدود تھا۔
یہی وجہ تھی کہ اسلام نے علاج کا ایک بالکل مختلف تصور پیش کیا۔
جیسا کہ پچھلی قسط میں میں نے وضاحت کی ہے کہ کس طرح قران اور حدیث کے علم کے ذریعے سب سے پہلے ان انسانی اعضاء اور نظام کی وضاحت کی ہے جن کا مشاہدہ انسان کے لیے ناممکن تھا اور دوسری طرف یہ وضاحت کی ہے کہ انسان کے چار طبائع یعنی اختلاط اگر متوازن رہیں تو صحت صحیح رہتی ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک کی کمی یا زیادتی ہو جائے اور دوسری طرف انسان اپنے ملان طبیعت کے مطابق کسی بھی برائی یا زیادتی کا ارتکاب کرے تو فطرت کا اصول ہے کہ اس کے مطابق اس کو بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔
اسلام کے دیے گئے اس بیماری اور شفا کے عمل کی وضاحت علل شرائع میں موجود امام جعفر الصادق کے حوالے سے اس حدیث سے ہوتی ہے؛ اور کبھی نفس بحالت حرارت اس میں عمل کرتا ہے اور کبھی کبھی بحالت برودت(خالی ٹھنڈک) اس میں عمل کرتا ہے۔
پس اگر حرارت ہے تو تکبیر، اکڑ، چستی، قتل، چوری، سرور، خوشی، فسق و فجور، زنا، خوشی سے جھومنا اور شان بگھارنا، یہ سب کچھ ہو گا۔ اور اگر برودت ہے تو پھر غم، حزن، عاجزی، پژمردگی، نسیان اور مایوسی ہے اور یہی وہ عوارض ہیں جو مختلفہ بیماریوں کو راستہ دیتے ہیں اور یہ بیماریاں اور اور اس طرح شروع ہوتی ہیں جب انسان کسی کام میں غلطی یا زیادتی کرتا ہے اور اس غلطی میں اس کے مطابق کھا پی لیتا ہے اور ایسے وقت کھا پی لیتا ہے جو اس کے لئے نامناسب ہوتا ہے( مثلا سردی میں اوپر تلے ٹھنڈک اور کھٹی چیزیں کھا لینا یا گرمی میں گرم اور مرغن غذا کھا لینا) چناچہ اس سے بہت سے امراض و اقسام پیدا ہوتے ہیں۔
پھر فرمایا کہ انسان کے تمام اعضاء جوارح اور رگیں یہ سب اللہ کی فوج ہیں جو انسان پر تعینات ہیں۔ جب اللہ کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس مرض میں انسان کو مبتلا کرے تو اس کو اس پر مسلط کر دیتا ہے اور اللہ چہاں چاہتا ہے یہ فوج اس جگہ سقم پیدا کر دیتی ہے۔”
اسے یوں سمجھ لیں کہ ایک مومن مسلمان جو قران اور حدیث کا علم رکھتا ہے اس کو اپنی بیماری کو جاننے اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے طبیب سے بھی رابطے کی ضرورت نہیں۔ اسے خود پتہ ہوتا ہے کہ کس طرح کی غذائیت کی مجھ میں کمی یا زیادتی ہو چکی ہے اور میں کون سی اخلاقی بیماری یا نقص میں مبتلا ہوں جو مجھ میں جسمانی بیماری کا باعث بن رہی ہے۔
لہذا ایک طرف اسلام نے یہ کہہ کر کہ وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ(الشعراء 80) (اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شِفا دیتا ہے ) ہر مرض کو قابل علاج قرار دیا اور دوسری طرف بیمار کو بد نصیب یا اسیب زدہ کی جگہ بخشا ہوا اور اللہ کا مقرب قرار دیا۔
حدیث نمبر: 1671
-” ما يزال البلاء بالمؤمن والمؤمنة في نفسه وولده وماله حتى يلقى الله وما عليه خطيئة”.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن اپنی جان، اولاد اور مال کے معاملے میں ہمیشہ آزمائش میں رہتا ہے، یہاں تک جب اللہ تعالیٰ سے اس کی ملاقات ہوتی ہے تو (ان آزمائشوں کی وجہ سے) اس کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔
حدیث نمبر: 1672
” ما ابتلى الله عبدا ببلاء وهو على طريقة يكرهها، إلا جعل الله ذلك البلاء له كفارة وطهورا، ما لم ينزل ما اصابه من البلاء بغير الله، او يدعو غير الله في كشفه”.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ام عبداللہ بنت ابو ذباب کو تکلیف تھی، میں تیمارداری کرنے کے لیے ان کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا: اے ابو ہریرہ! ایک دفعہ میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا، جو کہ بیمار تھیں، کی تیمارداری کرنے کے لیے ان کے پاس گئی۔ انہوں نے میرے ہاتھ پر نکلا ہوا پھوڑا دیکھا تو کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جب اللہ تعالیٰ بندے کو آزماتا ہے اور وہ اپنی حالت و کیفیت کی بنا پر اسے ناپسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس تکلیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ اور اسے پاک کرنے کا سبب بنا دیتا ہے، جب تک وہ لاحق ہونے والی بیماری (سے شفا حاصل کرنے کے لیے) اسے غیر اللہ کے در پر پیش نہیں کرتا یا اسے دور کرنے کے لیے غیر اللہ کو نہیں پکارتا۔“
لہذا اج یہاں پر ہم ان فطری، عام فہم اور آسان طریقوں کی وضاحت کریں گے جو کہ اسلام نے انسان کی صحت کی بحالی کے لیے دیے ہیں۔
قران
کہ مسلمان کو شفا کے لیے سب سے پہلے اپنی الہامی کتاب قران کی طرف رجوع کرنے کا حکم ہے حدیث کے مطابق”(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد بن عتبة بن عبد الرحمن الكندي , حدثنا علي بن ثابت , حدثنا سعاد بن سليمان , عن ابي إسحاق , عن الحارث , عن علي رضي الله عنه , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” خير الدواء القرآن”.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین دوا قرآن ہے“۔
جیسا کہ میں نے پہلے وضاحت کی کہ اگرچہ بیماری پیدا کرنے والی روحیں انسان کو بیمار کرنے کا باعث بنتی ہیں تاہم قران میں اس محرک پر زیادہ زور نہیں دیا بس کچھ مقامات پر یہ ذکر ملتا ہے۔
سورہ زخرف میں؛
وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْـمٰنِ نُقَيِّضْ لَـهٝ شَيْطَانًا فَهُوَ لَـهٝ قَرِيْنٌ (36) اور جو اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان متعین کرتے ہیں پھر وہ اس کا ساتھی رہتا ہے۔
سورۃ فصلت میں ارشاد باری تعالی ہے؛
وَقَيَّضْنَا لَـهُـمْ قُرَنَـآءَ فَزَيَّنُـوْا لَـهُـمْ مَّا بَيْنَ اَيْدِيْهِـمْ وَمَا خَلْفَهُـمْ وَحَقَّ عَلَيْـهِـمُ الْقَوْلُ فِىٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِـمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۖ اِنَّـهُـمْ كَانُـوْا خَاسِرِيْنَ (25) اور ہم نے ان کے لیے کچھ ہمنشین مقرر کر دیے پس انہوں نے ان کو وہ (برے کام) اچھے کر دکھائے جو پہلے کر چکے تھے اور جو پیچھے کریں گے اور ان پر حکم الٰہی ثابت ہو چکا تھا پہلی امتوں کے ضمن میں جو ان سے پہلے جنوں اور انسانوں میں سے گزر چکی تھیں، بے شک وہ نقصان اٹھانے والے تھے۔
اسی طرح سورۃ الشعراء کے اخر میں اللہ تعالی نے اس انسان کی نشانی یوں بتائی ہے جس پر بری روحیں مسلط ہوتی ہیں؛
هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِيْنُ (221) کیا میں تمہیں بتاؤں شیطان کس پر اترتے ہیں۔
تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْـمٍ (222) ہر جھوٹے گناہگار پر اترتے ہیں۔
يُلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَكْثَرُهُـمْ كَاذِبُـوْنَ (223) وہ سنی ہوئی باتیں پہنچاتے ہیں اور اکثر ان میں سے جھوٹے ہوتے ہیں۔
یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالی نے اپنے اخری کلام میں بری روحوں شیطان یا جن کی بجائے زیادہ زور سزاؤں کی صورت میں فطری قوانین بتانے پر دیا ہے اور ہر منفی عمل کی الگ الگ سزا بتائی ہے۔ لیکن چونکہ ہم اس کے پیارے نبی کی امت ہیں اس لیے ہمیں اخرت کی سنگین ترین سزا سے بچانے کے لیے دنیا میں ہی ہمیں اس نوعیت کی سزا کا سترواں حصہ دے دیتا ہے۔ یعنی کہ اپنے غلط عمل کی صورت میں ہم جو بیماری کی صورت میں سزا بھگتتے ہیں وہ اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہے اگر یہ نہ ہو تو ان بیماریوں سے 70 گنا زیادہ سزا ہمیں اخروی عذاب کی صورت میں بھگتنا پڑے۔
کیونکہ روحانی دنیا میں ہر چیز کا ایک الگ مطلب ہوتا ہے اور دوسری طرف ہمارے ہر اچھے اور برے عمل کا رد عمل یا نتیجہ ظاہر ہوتا ہے لہذا بہت سے مغربی محققین نے مختلف بیماریوں اور مسائل کی روحانی وجوہات پر تحقیق کی ہے۔
پچھلے کافی عرصے سے چیدہ چیدہ جسمانی بیماریوں کی روحانی اور جسمانی وجوہات پر قائرین کی اگاہی کے لیے تحاریر کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا تھا جس میں پہلے محقق بلغاریہ کینڈن کے مختلف بیماریوں پر ارٹیکلز کا ترجمہ دیا جاتا تھا اور پھر قرانی ایات کے حوالے دیے جاتے تھے جو کہ اس سائنسی تحقیق کے عین مطابق تھے اور تصدیق کے لیے کافی تھے۔
مثال کے طور پر سورۃ العنکبوت میں اللہ تعالی نے تباہ شدہ قوموں کی مثال دینے کے بعد دنیا کی رنگینیوں کی حقیقت کو مکڑی کے جالے سے تشبیہ دی ہے جو کہ انتہائی کمزور ہونے کے باوجود اپنے اندر جکڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے؛
مَثَلُ الَّـذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ اَوْلِيَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَـبُوْتِۚ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَـبُوْتِ ۘ لَوْ كَانُـوْا يَعْلَمُوْنَ (41) ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا حمایتی بنا رکھے ہیں مکڑی کی سی مثال ہے، جس نے گھر بنایا، اور بے شک سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا ہے، کاش وہ جانتے۔
جدید تحقیق کینسر کے مریض کے بارے میں بتاتی ہے کہ وہ دنیا کی رنگینیوں اور سہاروں میں جب خوش رہ رہا ہوتا ہے تو ایسے میں جب اچانک ہی اس سے وہ سہارا چھوٹ جاتا ہے تو اس بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
مسٹر کینڈن کی تحقیق کے مطابق” کینسر کا روحانی معنی (عام طور پر)کینسر ایک ایسی زندگی کی نمائندگی کرتا ہے جس پر نظم و ضبط نہیں ہوتا ہے اور جسم کے خلیوں کے درمیان بے ترتیبی کا نتیجہ ہوتا ہے۔
جب کسی شخص کو کینسر ہوتا ہے، تو انفرادی خلیہ جسم کی تنظیم کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ اس کے بجائے، یہ اپنی خود مختار زندگی تیار کرتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس کا جسم پر کیا اثر پڑتا ہے۔
جرمن ماہر نفسیات تھوروالڈ ڈیتھلیفسن کینسر کی پیتھالوجی کا ہماری جدید دنیا کی پیتھالوجی سے موازنہ کرتے ہیں، جس کی خصوصیت ایک بے رحمانہ توسیع اور مرکزی مفادات کے حصول کی طرف ہے۔
لہٰذا، معیشت، سیاست، مذہب یا نجی زندگی کے شعبوں میں، زیادہ تر افراد اپنے مفادات کی پیروی کرتے ہیں، اپنے خود غرض مقاصد کے حصول کے لیے زندگی میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس سارے عمل کے دوران، وہ دوسرے لوگوں اور فطرت کا استحصال کرتے ہیں اور دنیا کو ایک بہت بڑا مہمان ادارہ سمجھتے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ پروفیسر میکالا ایجبلاد کی فروری 2024 کی کینسر کے متعلق تحقیق کے الفاظ سورۃ عنکبوت کی ایت کے بالکل متماٹل ہیں وہ لکھتے ہیں "ٹیم نے پایا کہ گلوکوکورٹیکوائڈز نامی تناؤ کے ہارمونز نیوٹروفیلز پر کام کرتے ہیں۔ یہ "دباؤ والے” نیوٹروفیلس نے مکڑی کے جالے نما ڈھانچے بنائے جنہیں NETs (نیوٹروفیل ایکسٹرا سیلولر ٹریپس) کہتے ہیں ۔ NETs اس وقت بنتے ہیں جب نیوٹروفیل ڈی این اے کو نکال دیتے ہیں۔ عام طور پر، وہ حملہ آور مائکروجنزموں کے خلاف ہمارا دفاع کر سکتے ہیں۔
تاہم، کینسر میں، NETs میٹاسٹیسیس دوستانہ ماحول پیدا کرتے ہیں۔”
اسی طرح قران پاک کی سورۃ الجاثیہ میں ایک گروہ کا ذکر ہے جو اخرت میں گھٹنوں کے بل حاضر ہوگا ایسے لوگوں کی خصوصیات یوں بیان کی گئی ہیں؛
وَيْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْـمٍ (7)
ہر سخت جھوٹے گناہگار کے لیے تباہی ہے۔
يَسْـمَعُ اٰيَاتِ اللّـٰهِ تُـتْلٰى عَلَيْهِ ثُـمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِـرًا كَاَنْ لَّمْ يَسْـمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِيْـمٍ (8)
جو آیات الٰہی سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر ناحق تکبر کی وجہ سے اصرار کرتا ہے گویا کہ اس نے سنا ہی نہیں، پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔
وَاِذَا عَلِمَ مِنْ اٰيَاتِنَا شَيْئًا ِۨ اتَّخَذَهَا هُزُوًا ۚ اُولٰٓئِكَ لَـهُـمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ (9)
اور جب ہماری آیتوں میں سے کسی کو سن لیتا ہے تو اس کی ہنسی اڑاتا ہے، ایسوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔
ماہرین گھنٹیا یعنی arthritis کی وجہ مستقل طور پر لڑائی یا لڑائی کا مقابلہ کرنے کے موڈ کو قرار دیتے ہیں، جس کی وجہ سے پٹھوں میں سختی آ جاتی ہے یا یوں کہہ لیںش اپ کے مزاج کی سختی اپ کے جوڑوں میں اتر اتی ہے، مسٹر کینڈن کے مطابق”گھنٹیا آپ کو روکنے پر مجبور کرتا ہے، جسمانی سطح پر ضرورت سے زیادہ سرگرمی کی تلافی کرتا ہے، جس کی وجہ سے آپ اندر سے سخت، "سخت سر” اور ضدی ہو گئے ہیں۔ شاید آپ بہت خوش اخلاق اور پرہیزگار ہیں جو شخص OA کا شکار ہو تصورات اور آراء میں زیادہ سخت ہوتا ہے، آخر کار "زنگ آلود” ہو جاتا ہے۔
اسی طرح قران پاک کی ایک سورت سورۃ المطففین میں لین دین میں کسی بھی قسم کی بد عنوانی یعنی عطف کرنے والے کا ذکر ہے جس کی سزا اللہ تعالی نے یہ بتائی ہے کہ اس کے دل پر زنگ لگ جائے گا؛
كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِـهِـمْ مَّا كَانُـوْا يَكْسِبُوْنَ (14)
ہرگز نہیں بلکہ ان کے (برے) کاموں سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے۔
سُورۃ کے اخری حصے میں ان مطففین کے طرز عمل کی وضاحت کی گئی ہے. آیات نمبر 29 تا33 کےمطابق دنیا کی زندگی میں ایک اچھا لائف سٹائل ہی ان کا مقصد ہوتا ہے اور جو لوگ ایمانداری اور شرافت سے زندگی گزارتے ان کو بے وقوف سمجھتے ہیں اور تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں.
اب اگر غور کریں تو جب کلاٹ بنتا ہے تو اس طرح دکھائی دیتا ہے جیسے کسی چیز پر زنگ لگ گیا ہو لہذا جدید تحقیق مالی صدمے کو ہارٹ اٹیک کی ایک وجہ بتاتی ہے؛
ییل کی زیر قیادت مطالعہ 22 فروری 2022 کو JAMA انٹرنل میڈیسن میں شائع ہوا ۔
"ہم نے پایا کہ شدید مالی تناؤ اموات کے بڑھتے ہوئے خطرے سے وابستہ تھا۔ یہ طبی دنیا کے لیے ایک کال ہے کہ ہمیں مریضوں کی مالی حالت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،” مطالعہ کی شریک مصنفہ الیگزینڈرا ہجدوک ، پی ایچ ڈی، ایم پی ایچ، شعبہ داخلی طب کے شعبہ جراثیم میں ایسوسی ایٹ ریسرچ سائنسدان نے کہا۔
اس بات کے وسیع ثبوت موجود ہیں کہ حالیہ معاشی بدحالی کے بعد کم آمدنی کے مواقع اور مالی نقصانات کی وجہ سے بہت سے بوڑھے افراد مالی تناؤ کے خطرے میں ہیں.( تفصیل کے لیے سابقہ کچھ مہینوں کے مختلف بیماریوں پر تفصیلی تحاریر ملاحظہ کریں)
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قران نے تو خود یہ دعوی کیا ہے کہ "وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ-وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا(بنی اسرائیل 82) یعنی اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور اس سے ظالموں کو نقصان ہی بڑھتا ہے” تو ایسے میں ان سزاؤں کی صورت میں تو کسی منفی عمل کا نتیجہ بتایا گیا ہے پھر قران سے شفا کس طرح ممکن ہے؟
اس کا ایک پہلو تو قران پاک میں بتائے گئے عوامر اور نواہی ہیں جن میں انسان کو ان چیزوں کی تاکید کی گئی ہے جو مجموعی طور پر اس کے اپنے اور دوسروں کے لیے فلاح کا باعث ہیں اور ان چیزوں اور اعمال سے اس کو روکا گیا ہے جو اس کی اپنی ذات اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں مثال کے طور پر مسلمانوں کو مے نوشی سے یہ کہہ کر نہیں منع کیا گیا کہ یہ مکمل طور پر نقصان دہ ہے بلکہ اگاہ کیا گیا ہے کہ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ-قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ٘-وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَاؕ- (البقرۃ 219)”آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔ تم فرمادو: ان دونوں میں کبیرہ گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ دنیوی منافع بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑا ہے۔”
لہذا ہم سب جانتے ہیں کہ دور حاضر کے مغربی طبیب تقریبا تمام امراض کی صورت میں اپنے مریضوں کو سب سے مے نوشی سے ہی منع کرتے ہیں. اسی طرح اس حقیقت سے بھی ہم سب واقف ہیں ہم جو خوراک ہم استعمال کرتے ہیں اس کا ہماری فطرت اور صحت پر اثر پڑتا ہے. لہذا انسان کو چونکہ اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس کے لیے تمام کائنات کو مسخر کر دیا ہے لہذا اس نے یہ گوارا نہیں کیا کہ وہ اشرف المخلوق بری خصلتوں والے حیوانات کا گوشت کھا کر اپنے اندر ان جیسے خصائل اور دور حاضر جیسے لاعلاج صحت کے مسائل پیدا کر لے.
لہٰذا اسے تاکید کی گئی ہے کہ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(البقرۃ 168)”اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔” پھر اسے بتایا کہ حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ- وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِؕ-ذٰلِكُمْ فِسْقٌؕ-(المائدہ 3)”تم پر حرام کردیا گیا ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس کے ذبح کے وقت غیرُاللہ کا نام پکارا گیا ہو اور وہ جو گلا گھونٹنے سے مرے اور وہ جو بغیر دھاری دار چیز (کی چوٹ) سے مارا جائے اور جو بلندی سے گر کر مرا ہو اور جو کسی جانور کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور وہ جسے کسی درندے نے کھا لیا ہو مگر (درندوں کا شکار کیا ہوا) وہ جانور جنہیں تم نے (زندہ پاکر) ذبح کرلیا ہو اور جو کسی بت کے آستانے پر ذبح کیا گیا ہو اور (حرام ہے ) کہ پانسے ڈال کر قسمت معلوم کرو یہ گناہ کا کا م ہے۔”
لیکن اج کل یورپ میں غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے سور کا گوشت بکثرت استعمال ہو رہا ہے لہذا اس کی زیلی پروڈکٹس مثلا چربی اور کھال وغیرہ بھی وہاں کی صنعتی پیداوار مثلاً پریزوڈ فوڈ اور کاسمیٹکس وغیرہ میں بے دھڑک استعمال ہوتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ہمیں جو بیماریاں اور مسائل درپیش ہیں وہ ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ اعلی کوالٹی کی امپورٹڈ پراڈکٹس اور ریسیپیز کی صورت میں اس حرام جانور کا کجھ حصہ ہمارا بھی جزو بدن بن رہا ہے کیونکہ ڈاکٹر حکیم سید قدرت اللہ قادری سابق پرنسپل نظامیہ میڈیکل کالج حیدر آباد اپنی وقیع تصنیف ’’اسلام اور جدید میڈیکل سائنس‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جدید تحقیقات (پریونٹو اینڈ سوشل میڈیسن) نے ثابت کردیا کہ اس (خنزیر) کے اندر بے حد نقصانات ہیں۔ اس کے خون مین عام خون کی طرح یورک ایسڈ ہے جو ہر جاندار کے خون میں ہوتا ہے، اور ذبیحہ کی صورت میں خون سے خارج ہوجاتا ہے، مگر سور کے اندر اس کے خون سے اس کا اخراج نہیں ہو پاتا، اس لیے کہ سور کے عضلات اور ان کی ساختیں کچھ اس قسم کی واقع ہوئیں اس کے خون سے اس کا اخراج نہیں ہو پاتا، اس لیے کہ سور کے عضلات اور ان کی ساختیں کچھ اس قسم کی واقع ہوئیں کہ اس کے خون سے یورک ایسڈ دو فی صد خارج ہوتا ہے اور باقی حصہ اس کے جسم کا جزو بنا رہتا ہے، چنانچہ سور خود بھی ہمیشہ جوڑوں کے درد میں مبتلا رہتا ہے (اور اس کا گوشت کھانے والے بھی شدید جوڑوں کے درد میں مبتلا رہتے ہیں) اور اس کا گوشت کھانے والے بھی شدید وجعِ مفاصل (Arthritis) اور زہریلی پیچش اور دیگر بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں۔
ہم مختصرا ً لکھتے ہیں، اسی کے چند مشہور امراض کی فہرست درج ذیل ہے: جراثیمی پیچش، آنتوں کی دق، اعصابی کمزوری، مرگی، مالیخولیا، طویل بخار، جوڑوں میں دردِ شدید، ورم، خون کی شدید کمی، وغیرہ۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’اس کی چربی کے استعمال سے خو ن میں کولیسٹرول بڑھتے ہیں جس سے شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں۔ شریانوں کی اندرونی نالیوں میں رکاوٹ سے دورانِ خون میں کمی واقع ہونے اور دماغ میں مطلوبہ مقدار خون میں کمی واقع ہونے اور دماغ میں مطلوبہ مقدارِ خون کے نہ پہنچنے سے دماغی فالج Paralysis یا Ischemic Heart Diseases میتوتۃ القلب، دل کو خون سپلائی کرنے والی شریانیں coronary arteries تنگ ہوکر مکمل یا نامکمل طور پر قلب کو نسبتاً کم خون کی سپلائی کرتی ہیں جس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
قرآنِ حکیم کے علاوہ انجیلِ مقدس میں بھی سور کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ اہلِ مغرب اس کے دل دادہ ہو چکے ہیں،اور ان کی نقل اُتارنے میں اہلِ مشرق بھی مائل نظر آتے ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ خنزیر کا گوشت کھانے والی قوم اور افراد، اس بے حیا جانور کی طرح شرم و حیا سے عاری ہوتے ہیں۔
طبِ قدیم میں صاحبِ مخزن نے اسے امراضِ سوداویہ کا موجب قرار دیا ہے۔‘‘ (اسلام اور جدید میڈیکل سائنس، از ڈاکٹر حکیم سید قدرت اللہ قادری، دار المطالعہ، حاصل پور)
خنزیر کے گوشت میں کولیسٹرول کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ کولیسٹرول جسم میں چکنائی کو بڑھاتا ہے جس کی وجہ سے دل کی بیماریو ں کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح اس نجس گوشت کے کھانے سے پیٹ کی بیماریاں بھی وجود پاتی ہیں۔ مغرب میں اگرچہ اس گوشت کو اچھی طرح پکا کر کھانے پر زور دیا جاتا ہے، تاکہ اس کی آنتوں میں موجود بیکٹیریا کو ختم کیا جا سکے، تاہم پھر بھی اس کے مضر اثرات کو بالکل ختم کرنا ممکن نہیں۔
شریعت نے اس جانور کو نجس العین (مکمل نجس) قرار دیا۔ قرآنِ کریم کے مطابق بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو اللہ تعالیٰ نے نافرمانی کی سزا دیتے ہوئے بندر اور خنزیر بنادیا تھا۔ یہ لوگ تین دن اس طرح رہے، پھر مرگئے۔ جن جانوروں کی صورت میں بطور عذاب بدلا گیا، ان جانوروں کو حلال سمجھ کر کھانا عقلِ سلیم کے خلاف ہے۔”
اسی طرح اس پر کچھ حدود لگائی کئیں تاکہ وہ صحت کے سنگین مسائل سے بچ سکے جیسے
وَیَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِیْضِؕ-قُلْ هُوَ اَذًىۙ-فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْمَحِیْضِۙ-وَ لَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰى یَطْهُرْنَۚ-(البقرۃ 222)اور تم سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں تم فرماؤ: وہ ناپاکی ہے تو حیض کے دنوں میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ جب تک پاک نہ ہوجائیں.”
اسی طرح حمل اور رضاعت کی مدت کا بھی اپنی کتاب میں اللہ تعالی نے تعین کیا ہےوَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًاؕ. (الاحکاف 15)”اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے.”
مزید براں قران پاک میں اللہ تعالی نے صفائی اور پاکیزگی کو یہ کہہ کر خصوصی اہمیت دی ہے کہ
اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(البقرۃ222)”
بیشک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔”
مزید اگے چل کے سورۃ الانفال میں جنگ بدر کے مجاہدین کی مثال کچھ اس طرح دے کر یہ حقیقت بتائی ہے کہ غسل کرنے اور نیند لینے سے انسان تر و تازہ اور تازہ دم ہو جاتا ہے اور اسے منفی سوچ اور مایوسی سے نجات مل جاتی ہے إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ (الانفال11) "جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں) راحت و سکون (فراہم کرنے) کے لئے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری و باطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں) کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو (قوتِ یقین) سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم (خوب) جما دے.”
دوسرا قرآن پاک وہ کلام ہے جس کی طاقت کے متعلق اللہ خود فرماتا ہے کہ لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-(الحشر21)”اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تم اسے جھکا ہوا، اللہ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے.”یہی وجہ ہے کہ اس کی ایات کی تلاوت اور جھاڑ پھونک میں بذات خود بھی شفا ہے.
علماء کرام نے تمام بیماریوں کے لیے علیحدہ علیحدہ تسبیحات اور ورد متعین کیے ہیں لیکن دور حاضر میں جتنی موثر قاری عبد الباسط کی تلاوت میں سورۃ رحمن کی تلاوت پائی گئی ہے اتنی کوئی دوسری کلام نہیں پائی گئی۔
ناروے کے پرائم ٹی وی سے سورہ رحمن کے فوائد پر مشتمل پروگرام پوری دنیا میں لائیو دکھایا گیا جس میں بتایا گیا کہ کس طرح سورہ رحمن کی تلاوت سننے کے ساتھ ساتھ انسان اپنے جسم میں حرارت محسوس کرتا ہے اور تلاوت سن لینے کے بعد آدھا گلاس پانی پینے سے اس کو ایسا ہی سکون ملتا ہے گویا کسی نے جلتے انگاروں پر پانی ڈال دیا ہو۔
سورہ کے مضمون پر اگر تھوڑا سا غور کریں تو اس کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے. یعنی کہ بنیادی طور پر اس میں اللہ تعالی نے اپنی دو مخلوقات یعنی انسان اور جن کو مخاطب کیا ہے. سب سے پہلے اللہ تعالی نے انسان کو اپنی دی ہوئی نعمتوں کا حوالہ دیا ہے کہ کس طرح مخلوق کو رزق دیا جا رہا ہے. پھر انسان اور جن کی خلقت میں فرق کچھ اس طرح بتایا ہے کہ "خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ (14) اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ (15) اور اس نے جنوں کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔”
یعنی کہ دونوں کی خلقت بالکل ایک دوسرے کے متضاد ہے پھر اگلی ایات میں اللہ تعالی نے اپنی قدرت کی نشانیاں واضح کی ہیں کہ کس طرح میٹھا اور نمکین پانی یا مختلف رنگوں کے دو سمندر ایک ساتھ بہتے ہوئے بھی ایک دوسرے میں نہیں ملتے اور اپنی اپنی حد میں رہتے ہیں یعنی کہ اس سے یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ انسان اور جن جو کہ ایک دوسرے سے متضاد خلقت رکھتے ہیں ایک ہی کائنات میں ساتھ ساتھ رہتے کوئے بھی ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں اور یہ اس کی قدرت کی نشانی ہے. پھر اس کے بعد اللہ تعالی نے واضح کیا ہے کہ کوئی کتنی بھی بڑی اور طاقتور مخلوق ہو سب اسی سے مانگتی ہے اور کائنات کی ہر چیز نے بالاخر فنا ہو جانا ہے صرف اسی کی ذات باقی رہے گی جس کے سامنے بروز حشر سب حاضر ہوں گے اور اپنے اعمال کا حساب کتاب دیں گے اگلی ایت میں اللہ تعالی نے انسانوں اور جنوں کو تنبیہ کی ہے کہ”سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّهَ الثَّقَلَانِ (31) اے جن و انس ہم تمہارے لیے جلد ہی فارغ ہو جائیں گے۔” یعنی کہ دونوں مخلوقات کو اپنے اعمال کا حساب دینا پڑے گا پھر اگلی ایات میں اپنی دونوں مخلوقات کو کہا گیا ہے کہ”يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُـمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۚ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطَانٍ (33) اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ، تم بغیر زور کے نہ نکل سکو گے (اور وہ ہے نہیں)۔فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (34) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔يُـرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ وَّنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَانِ (35) تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم بچ نہ سکو گے۔”
ان ایات میں ہم سب کے لیے بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے وہ یہ کہ اگرچہ انسانوں کو عقل کے لحاظ سے اور جنوں کو جسمانی صلاحیت کے لحاظ سے اللہ تعالی نے بہت سی صلاحیتیں دے رکھی ہیں لیکن اس کی دی ہوئی صلاحیتوں کی بنا پر اس کی حدود سے تجاوز کوئی نہیں کر سکتا. پھر اگے روز حشر اور یوم حساب کا حوالہ کچھ یوں دیا گیا ہےکہ "فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ (37) پھر جب آسمان پھٹ جائے گا اور پھٹ کر گلابی تیل کی طرح سرخ ہو جائے گا۔فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (38) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُسْاَلُ عَنْ ذَنْبِهٓ ٖ اِنْـسٌ وَّلَا جَآنٌّ (39) پس اس دن اپنے گناہ کی بات نہ کوئی انسان اور نہ کوئی جن پوچھا جائے گا۔ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (40) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔يُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِيْمَاهُـمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِىْ وَالْاَقْدَامِ (41) مجرم اپنے چہرے کے نشان سے پہچانے جائیں گے پس پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑے جائیں گے۔” اگلی ایات میں جہنم کی سختی کا ذکر کچھ یوں کیا گیا ہے کہ” هٰذِهٖ جَهَنَّـمُ الَّتِىْ يُكَذِّبُ بِـهَا الْمُجْرِمُوْنَ (43) یہی وہ دوزخ ہے جسے مجرم جھٹلاتے تھے۔يَطُوْفُوْنَ بَيْنَـهَا وَبَيْنَ حَـمِيْـمٍ اٰنٍ (44) گناہ گار جہنم میں اور کھولتے ہوئے پانی میں تڑپتے پھریں گے۔” پھر اگے کی تمام ایات میں انسانوں اور جنوں میں سے ان اشخاص” وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ(46)اور اس کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے۔” کے لیے دو الگ الگ جنتوں چشموں اور دونوں جگہ الگ الگ مقامات پر حوروں کا وعدہ ہے. مفسرین نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق دو جنتوں کے مختلف مطلب نکا لے ہیں لیکن ان میں یہی حکمت دکھائی دیتی ہے کہ انسانوں اور جنوں کے لیے اللہ تعالی نے الگ الگ جنتیں بنائی ہیں.
یعنی کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورۃ الرحمن کی صورت میں اللہ تعالی نے ہمیں بیماری کی روحوں سے نجات کے لیے قدیم مصریوں یا بابلیوں وغیرہ کے منتروں سے کہیں بہتر کلام عطا کیا ہے۔
مزید یہ کہ قاری عبدالبحاسط چونکہ مصری ہیں اس لیے ان کی مادری زبان اور لہجہ قران پاک کا ہی ہے لہذا جب وہ بالکل صحیح تجوید سے تلاوت کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی مذکورہ دونوں مخلوقات یعنی انسانوں اور جنوں سے مخاطب ہیں.
لہذا یہی وجہ ہے کہ سائنس بھی تسلیم کرتی ہے کہ اس کی اٹھ دن صبح دوپہر شام تلاوت سننے سے شدید ترین مرض میں مبتلا مریض بھی صحت یاب ہونے لگ جاتے ہیں.
مزید برآں احادیث کی کتب میں متعدد ایسے واقعات درج ہیں جن میں آنحضور صلعم اور صحابہ کرام نے آیات قرآنی اور اسمائے حسنہ کے دم پھونک سے شدید ترین امراض اور تکالیف کا انتہائی آسانی سے علاج کیا مثلاً حدیث مبارکہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورہ فاتحہ ہر بیماری کے لئے شفاء ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک موقع پر ایک صحابیؓ نے ایک سانپ ڈسے شخص پر اس سورہ سے دم جھاڑا کیا تھا تو اسے شفا ہوگئی تھی۔
سنن ابن ماجہ ومسند احمد ومستدرک حاکم میں حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ حضرت میرے بیٹے کو تکلیف ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا کہ اسے آسیب ہے۔ آپﷺ نے فرمایا، اسے میرے پاس لے آو چنانچہ وہ لے آیا تو آپﷺ نے اسے اپنے سامنے بٹھایا اور اس پر سورہ فاتحہ اور دیگر آیات سے دم کیا تو وہ لڑکا اٹھ کھڑا ہوا گویا کہ اسے کوئی بھی تکلیف نہ تھی۔
اس طرح بسم اللہ سے علاج بھی کئی روایات سے ثابت ہے مثلاً حضرت عثمان ابن عاص (رض) حضور سے نقل فرماتے ہیں کہ (بدن کے) جس حصہ میں درد ہو، اس جگہ ہاتھ رکھ کر تین بار بسم اللہ پڑھو اور سات بار یہ دعا پڑھو : ” اَعُوذ باللہ وقدرتہ من شر ما اجد واحاذرُ "۔ انھوں نے اس پر عمل کیا تو بدن کا وہ درد ہمیشہ کے لیے زائل ہو گیا۔
تفسیری روایات کے مطابق معوذتین یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس اس وقت نازل ہوئیں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی نے جادو کر دیا تھا اور اپ کی طبیعت گری گری رہنے لگی تھی، لہذا ان سورتوں کی تلاوت سے اس سحر کا اثر اپ پر سے زائل ہو گیا.
صرف سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ہی نہیں بلکہ قل سے شروع ہونے والی قران پاک میں کل پانچ سورتیں یعنی کہ سورۃ جن، سورۃ الکافرون، سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس سب کی سب ہر تو ہم پرستی اور شرک کی نفی پر دلالت کرتی ہیں اور ان کا ایک ہی مدعا ہے کہ نہ ہی جن کوئی سپر پاور ہیں اور نہ ہی اللہ کی بنائی ہوئی کوئی دوسری مخلوق اس سے زیادہ اختیار کی مالک ہے، لہذا ان سب چیزوں سے پناہ دینے والی صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ کی ذات ہی ہے جیسا کہ سورۃ الجن میں اللہ تعالی نے ایک جن کی زبانی ہمیں یہ بتایا ہے کہ کس طرح قبل از اسلام جنات سے پناہ مانگی جاتی تھی؛
وَاَنَّهٝ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِـرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْهُـمْ رَهَقًا (6) اور کچھ آدمی جنوں کے مردوں سے پناہ لیا کرتے تھے سو انہوں نے ان کی سرکشی اور بڑھا دی۔
یہی وجہ ہے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ لکھتے ہیں کہ : ’’ قرآنی آیات کا تعویذ جائز ہے، جبکہ غلط مقاصد کے لیے نہ کیاگیا ہو ، حدیث میں جن ٹونوں، ٹوٹکوں کو شرک فرمایا گیا ہے، ان سے زمانۂ جاہلیت میں رائج شدہ ٹونے اور ٹوٹکے مراد ہیں، جن میں مشرکانہ الفاظ پائے جاتے تھے، اور جنات وغیرہ سے استعانت حاصل کی جاتی تھی، قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ سے ثابت ہے اور بزرگانِ دین کے معمولات میں شامل ہے۔‘‘
(جاری ہے)