Paid ad
Breaking NewsNationalتازہ ترین

اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس: پیپلزپارٹی کی فل کورٹ بنانےکی استدعا مستر، دوسرے فریق کوسننا ضروری ہے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے اسپیکر کی رولنگ پر ازخود نوٹس کیس میں پیپلزپارٹی کی فل کورٹ بنانےکی استدعا مسترد کردی ، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے آج ہی فیصلہ دینا ممکن نہیں، دوسرے فریق کوسننا ضروری ہے۔

سپریم کورٹ میں تحریک عدم اعتماد پر اسپیکر کی رولنگ سےمتعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے سماعت کی۔

ڈاکٹر بابر اعوان روسٹرم پر آئے اور کہا میں تحریک انصاف کی وکالت کر رہا ہوں اور 21 مارچ 2022 کا حکم نامہ عدالت میں پڑھنا چاہتا ہوں۔جس پر چیف جسٹس نے کہا آج ہم کوئی مناسب حکم جاری کریں گے، ہم قومی اسمبلی کی کارروائی کو ہی صرف دیکھیں گے، آج ہم کوئی دوسرا معاملہ نہیں سن رہے آپ ریلیکس کریں۔

بابر اعوان نے کہا عمران خان نے ہدایت دی عدالت کو کہوں پی ٹی آئی الیکشن میں جانےکوتیارہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ یہ سیاسی بیان دے رہے ہیں، ہم یہاں صرف آئینی معاملہ دیکھ رہے ہیں۔

جسٹس عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے صرف 2درخواستیں اورازخود نوٹس ہے،چیف جسٹسدیگر کسی کیس کو آج نہیں سن رہے۔

دوران سماعت وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے وکیل فارق ایچ نائیک نےدلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کردی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ عدالت کے سامنے آئینی سوالات لائیں ، عدالت بہتر سمجھے گی توفل کورٹ بنانے دیں گے ، فل کورٹ تشکیل دینے سے دیگر کام متاثر ہوں گے۔

چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ آپ کو اس بینچ پر مکمل اعتماد نہیں توبتائیں، جس پر پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ بینچ پر مکمل اعتماد ہے۔جسٹس عطا بندیال نے کہ تو پھر آپ دلائل شروع کریں یہ بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے، قومی اسمبلی میں جو ہوا اس کی آئینی، قانونی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پرکوئی اعتراض اٹھایا نہیں جا سکتا، جس پر چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے سوال کیا کہ آپ کو اس بینچ پر مکمل اعتماد نہیں توبتائیں ہم اٹھ جاتے ہیں تو فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بینچ پر مکمل اعتماد ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ 8 مارچ کوعدم اعتماد کیساتھ اجلاس کی ریکوزیشن بھی جمع کرائی گئی، اسپیکراجلاس بلانے کے 14 دن کے اندر اجلاس بلانے کا پابندتھا۔جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے وجہ ہمیں معلوم ہے ، غلط یا درست لیکن وجہ تو معلوم ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ کا کیس یہ نہیں ہے جو آپ بیان کر رہے ہیں ، آپ اپنے کیس پر بات کریں۔

وکیل پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے 22 مارچ کو اجلاس بلانا تھا جس پر عملدرآمد نہیں ہوا، 21 مارچ کو بلایا جانیوالا قومی اسمبلی کا اجلاس25 کو بلایا گیا اور 25مارچ کو اجلاس بلا کر اسے 28 تاریخ تک ملتوی کیا گیا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ جب قرارداد ایوان میں پیش ہو جائےتب ہی وقت شروع ہوتا ہے ، تین دن کے بعد اور سات روز سے قبل ووٹنگ ہونی ہے۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اکثریت عدم اعتمادقراردادکی مخالفت کردے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ ختم ہوجائے گی؟ کیا آرڈر آف دی ڈےتب جاری ہوتےہیں جب اسمبلی اجلاس چل رہاہو، کیا اسپیکر کو اسمبلی اجلاس بلانا ہوتا ہے ؟

جسٹس منیب اختر نے مزید استفسار کیا کیا 10 مارچ آرڈرز آف دی ڈے جاری کرنے کا نہیں، کیا 10 مارچ آرڈرز سرکولیٹ کرنے کا دن تھا ؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اس کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ کا کیس اجلاس بروقت بلانےکا نہیں ہے۔

جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ اسپیکر نے اجلاس تاخیر سے بلانےکی وجوہات بھی دی تھیں، وجوہات درست تھیں یانہیں اس پر آپ مؤقف دے سکتے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے 25 مارچ کو اجلاس بلایا، تین اپریل کو ووٹنگ ہونی تھی ، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا 3اپریل ووٹنگ کیلئے رکھ لیا گیا بغیر قرارداد پر بحث کرائے ؟جسٹس منیب نےکہا کہ عدم اعتماد تحریک پیش ہونےکی اجازت پر 7 دن کی معیاد ہوتی ہے ، ممبران کی اکثریت کہتی ہے تحریک پیش نہ ہو تو کیا ، تحریک کی وقعت نہیں،؟ اکثریت 100ممبران کی ہے اور 50 کہتے ہیں تحریک پیش ہو، 50ممبران کہتے ہیں تحریک پیش نہ ہو تو کیا تحریک پیش ہوگئی، اگر اسپیکر عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت نہ دیں پھر کیا ہوگا۔

فاروق نائیک نے بتایا کہ اسپیکر نے قرار داد کی اجازت دیکر معاملےپر 3 اپریل تک اجلاس ملتوی کیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معذرت چاہتا ہوں، چھوڑیں یہ سب، مقدمے کے حقائق پر آئیں۔

فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ اسپیکر ہاؤس میں قرار داد پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے، ہاؤس میں قرار داد پیش ہونے کے بعد ہاؤس اجازت دیتا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی نے نہ بحث کرائی اور نہ ہی ووٹنگ کرائی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ووٹنگ نہیں ہوئی یہ توہمیں معلوم ہے، ووٹنگ سے پہلے عدم اعتماد پر بحث ہوتی ہے، جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ عدم اعتماد پر بحث کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیابحث کی تاریخ مختص نہ کرنے پر اعتراض کیا تو فاروق نائیک نے کہا ہم تو صرف بٹن دبا سکتے ہیں، اجلاس شروع ہوا تو فواد چوہدری نے آرٹیکل 5 کے تحت خط پرسوال کیا، فوادچوہدری نےپوائنٹ آف آرڈرپرڈپٹی اسپیکرنےرولنگ جاری کردی۔

عدالت نے استفسار کیا کیا تحریک عدم اعتمادپیش کرنےکی اجازت اسپیکر دیتا ہے کہ ایوان، اسپیکر کا اختیار ہے کہ وہ تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے ؟اگر اسپیکر تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے تو پھر کیا ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا 3 اپریل کا دن اجلاس تحریک پر بحث کا موقع دینے کے بجائے مقرر کیا گیا ،؟ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لئے کونسا دن دیا ، تحریک عدم اعتماد پر براہ راست ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے۔

جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دی ، 31مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی ، 30مارچ کو اجلاس 3اپریل تک ملتوی کردیا گیا، 27 مارچ کو عمران خان نے جلسےمیں غیر ملکی خط لہرایا ، عمران خان نے الزام لگایا اپوزیشن غیرملکی سازش کاحصہ ہے، 31مارچ کو نیشنل سیکورٹی کونسل اور کابینہ کا اجلاس ہوا۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیا آپ نے اسپیکر سے تحریک پر بحث کرانے کی درخواست کی تو فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہاسپیکر نے اختیارات سے تجاوز کر کے آئینی بحران میں دھکیل دیا۔

چیف جسٹس نے ایک بار پھر کہا کہ عدالت کو حقائق سے آگاہ کریں تو فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ گزشتہ روز فواد چوہدری نے بیرون ملک سے موصول خط پر تقریر کی ، 31مارچ کو رولنگ میں بھی تحریک پر بحث کا نہیں کہاگیا ، عمران خان نے 27 مارچ کو عوامی جلسے میں ایک کی سازش سے آگاہ کیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا 7دن کی میعاد کب ختم ہوئی؟ فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ یہ ہی وجہ تھی 3اپریل کا انتخاب کیا گیا، 3اپریل کا بھی پورا دن موجود تھا لیکن اسے استعمال نہیں کیا گیا۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ کس رول کے تحت دی ہے ؟ چیف جسٹس نے کہا اجلاس میں 31 مارچ کو بحث ہونا تھی، فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ 7دن میں ووٹنگ ہونا تھا، 4 اپریل آخری دن بنتا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 3مارچ کو بحث ہوتی تو 4 اپریل کو بھی ووٹنگ ہو سکتی تھی، جس پرفاروق نائیک نے بتایا کہ 3 اپریل کو ووٹنگ کیلئے اجلاس بلایا گیا تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل95میں بحث نہیں صرف ووٹنگ کا ذکرہے تو فاروق نائیک نے کہا فواد چوہدری کے پوائنٹ آف آرڈر پر بحث بھی ہوسکتی تھی، اسپیکر کو معلوم تھا غیر قانونی قدم ہے اس لئے وہ موجودنہیں تھے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ رول 28 کے تحت اسپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے، اسپیکر رولنگ ایوان میں یا اپنے آفس میں فائل پر دے سکتا ہے، کیا اسپیکر اپنی رولنگ واپس لے سکتا ہے؟فاروق نائیک نے کہا کہ رولنگ واپس لینے کے حوالے سے اسمبلی رولز خاموش ہیں، ایوان میں اگر کوئی سوال اٹھتا ہے تو اس پر ایوان میں بحث لازمی ہے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کےسوال پر بحث نہ کرانا پروسیجرل غلطی ہوسکتی ہے، وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نہیں یہ پروسیجرل ایشونہیں ہے۔

جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیا ڈپٹی اسپیکر کو رولز کےمطابق ایسی رولنگ دینے کا اختیار ہے، میرا ذاتی خیال ہے رولنگ کا اختیار صرف اسپیکر کا ہے کسی اور کا نہیں، ڈپٹی اسپیکررولز کے مطابق اسپیکر کی عدم موجودگی میں اجلاس کو چلاتا ہے، میرے خیال میں ڈپٹی اسپیکر کو ایسی رولنگ دینے کا اختیار نہیں تھا۔

فاروق نائیک نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر صرف اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، قائمقام اسپیکر کیلئے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوتا ہے، جس خط کا ذکر ہوا وہ اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا ، ڈپٹی اسپیکرنے رولنگ کے ذریعے اپوزیشن اراکین کوغدار ڈکلیئر کردیا۔

فاروق نائیک نے مزید بتایا کہ اپوزیشن کے198 ارکان پر غیر ملکی سازش کا الزام لگایا گیا، 175اپوزیشن جبکہ باقی پی ٹی آئی کے منحرف اراکین تھے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کون کس پارٹی سےتھا اس پر کیوں وقت ضائع کر رہے ہیں؟ تو فاروق نائیک نے کہا تمام اراکین کو ملک دشمن قرار دیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا ووٹنگ کیلئے اجلاس بلا کر عدم اعتماد پررولنگ دی جا سکتی ہے؟ تحریک عدم اعتماد پر فیصلہ ووٹنگ سےہی ہونا ہوتا ہے، جس پر فاروق نائیک نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد 3منٹ سے بھی کم وقت میں مسترد کر دی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا قانونی نقطے پر بات کریں یہ جذباتی گفتگو ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کس طرح غیرآئینی ہے یہ بتائیں۔

وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اسپیکراورڈپٹی سپیکر کو عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں، تحریک عدم اعتماد پرووٹنگ کےدن اسکی حیثیت پرفیصلہ نہیں ہو سکتا، تحریک کے قانونی ہونے کا فیصلہ ووٹنگ کیلئے مقرر ہونے سے پہلے ہوسکتا ہے، ڈپٹی اسپیکرتحریک عدم اعتمادپررولنگ دینے کیلئے اختیارنہیں تھے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ رولنگ قواعد کیخلاف تھی توبھی کیا اسے آئینی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا؟ چیف جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ آپکا نقطہ ہےعدم اعتماد پرووٹنگ فکس تھی، آپ کا کہنا ہے ووٹنگ پرفکس ہونے کے بعد عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی، میں یہ پوائنٹ نوٹ کرنے دیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیا پروسیجرل غلطی آرٹیکل 69 میں کور نہیں ہو گی، پارلیمان کی کارروائی کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے، چیف جسٹس نے بھی استفسار کیا کہ وہ کون سے اسٹیج ہیں جہاں اسپیکر قرارداد کی ویلیڈیٹی دیکھ سکتا ہے؟جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کیا رولنگ آئینی بے ضابطگی ہے یا قواعد کی؟ فاروق نائیک نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پر رولنگ آئین کیخلاف ہے، قرارداد کو آرٹیکل 95 اے کی خلاف ورزی پر ہی چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یعنی آپکےمطابق اسپیکر کے پاس گراؤنڈ نہیں تھا کہ وہ قرارداد ختم کر سکے، یعنی آپ کے مطابق اسپیکر کا یہ عمل بدنیتی پر مبنی ہے، اسپیکر نے رولنگ میں آرٹیکل 5 کا سہارا لیا، وکیل پی پی نے کہا آرٹیکل 5 کے سہارے بھی عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی، تحریک عدم اعتماد منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ایوان کا ہے،چیف جسٹس نے استفسار کیا آرٹیکل 69 کا دائرہ اختیار کیا ہوگا ؟ غیر قانونی،غیر آئینی اقدام ، بد نیتی سےمتعلق عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیں۔

فاروق نائیک نے آرٹیکل 69 کے دائرہ اختیار سے متعلق 4 عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا، اعظم نذیر نے کہا 177اراکین ایوان میں تھے،پی ٹی آئی کے منحرف اراکین شامل نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا اب میرا خیال ہے مخدوم علی خان کو سن لیتے ہیں، دو گھنٹے تو شاید نائیک صاحب کو سن چکے ہیں، آرٹیکل 69 سے متعلق عدالتی سوال واضح ہے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ میں اپوزیشن کو دعوت تھی لیکن شرکت نہ کی، پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں سارا معاملہ رکھا گیا تھا،اس سوال کا جواب تمام اپوزیشن جماعتوں کی وکلا نے دینا ہے۔

فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ رولنگ دینے سے پہلے اپوزیشن کا موقف نہیں سنا گیا، تمام اپوزیشن ارکان کو غداری کا ملزم بنا دیا گیا، محب وطن ہونے اور مذہب کے کارڈز سے جمہوریت باہر نہیں نکل سکی، جس پر جسٹس منیب اختر نے سوال کیا پارٹی سے انحراف کرنے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت عجلت میں فیصلہ نہیں کر سکتی ، معاملہ انتہائی اہم اور آئینی معاملے کا ہے، جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ کیس میں 2 اہم ایشوہیں ایک عدم اعتماد، دوسرا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا، عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل قومی اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی تھی، نگران وزیراعظم آنے تک صدر نے وزیراعظم کو کام جاری رکھنے کا کہہ دیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ رضاربانی اور مخدوم علی خان کتنا وقت لیں گے؟ جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ دونوں کوملا کر ایک گھنٹہ لگ جائے گا تو فاروق نائیک نے کہا تمام نظریں عدالت پرہیں آج ہی سماعت مکمل کریں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اہم آئینی نقطہ ہےجس پرفیصلے کے دوررس نتائج ہونگے، دوسرے فریق کوسننا ضروری ہے تاکہ فیصلہ ہوجائے، آج ہی سن کر فیصلہ دینا ممکن نہیں۔

سپریم کورٹ میں اسپیکرکی رولنگ سےمتعلق ازخودنوٹس پر سماعت کل 12 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button