Paid ad
Breaking NewsEducationتازہ ترین

شعبہ اردو جامعہ زکریا میں”عکاس“ ادبی فورم کے زیرِ اہتمام ، رفعت عباس کے ناول ” نمک کا جیون گھر“ کی تقریبِ پذیرائی

شعبہ اردو بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ”عکاس “ادبی فوم کے زیر اہتمام رفعت عباس کے ناول ” نمک کا جیون گھر“کی تقریب پزیرائی کا انعقادکیا گیا۔

تقریب میں صدر شعبہ اردو پروفیسر ڈاکٹر ممتاز خان کلیانی کے علاوہ طلباءکی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

اس کے علاوہ ناول پر جن مقررین نے اظہار خیال کیا ان میں ناول نگار رفعت عباس کے علاوہ ڈاکٹر سجاد نعیم اور ناول کے مترجم منور آکاش شامل تھے۔

جبکہ ڈاکٹر خاور نوازش نے نقابت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ناول کے متعدد پہلوؤں کو اجاگر کیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ ناول کا مقصد نئی کہانی کو بیان کرنا ہے۔

کیونکہ جب بھی کوئی ناول شائع ہوتا ہے تو پڑھنے والا ہمیشہ نئے پہلوؤں کی تلاش میں ہوتا ہے۔”نمک کا جیون گھر“کو پڑھنے کے بعد ایک سوال ضرور جنم لیتا ہے کہ نمک کو مٹی پر کیوںفوکیت دی گئی؟ناول کی کہانی ایک ایسے شہر کو بیان کرتی ہے جہاں خدا ، دھرم اور جنگ کا تصور موجود نہیں ہے۔

رفعت عباس نے اس ناول میں استعمار کا جو چہرہ پیش کیا ہے، وہ صرف انگریزوں تک محدود نہیں ہے بلکہ انہوں اس شہر کو تعمیر کیا ہے جہاں محمد بن قاسم اپنا جھنڈا لہراتا ہے مگر وہ شہر چھ ہزار سال تک اپنی حفاظت کرتا ہے۔

رفعت عباس کے ہاں استعماری قوت نے آریاؤں کی آمد کے ساتھ جنم لے لیا تھا ۔

ناول کے مترجم منور آکاش نے ترجمے کے سفر کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب میں دنیا اخبار میں ملازمت کرتا تھا تو مجھے ان سے انٹرویو کرنے کا موقع ملا، مگر جب یہ مکالمہ طوالت اختیار کرگیا تو مجھے اس کو کتابی صورت میں ”مقامی آدمی کا موقف“ کے نام سے شائع کرنا پڑا ۔

اس طرح میری رفعت عباس سے تواتر کے ساتھ ملا قاتیں ہونے لگیں اور میں ان کا بیشتر کام ترجمہ کت ڈالا جس میں نظمیں ، حکایات اور یہ ناول شامل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ناول کو ترجمہ کرتے وقت بیشتر الفاظ ایسے تھے کہ اگر مجھے رفعت عباس کی معاونت حاصل نہ ہوتی تو میں یہ ترجمہ نہ کرپاتا ۔

مجھے خوشی ہے کہ میرے اس ترجمے کو رفعت عباس نے پسند کیا ہے اور میں اسے اپنا کامیاب ترجمہ سمجھتا ہوں ۔

آخر میں انہوں نے ناول میں موجود اپنے مضمون سے چند سطریں بھی سنائیں جنہیں حاضرین نے خوب سراہا۔

ڈاکٹر سجاد نعیم نے کہا کہ اگرچہ میں سرائیکی زبان کا قاری نہیں مگر جب یہ ناول سرائیکی میں شائع ہوا تھا تو میں نے اسے پہلی فرصت میں پڑھا اور مجھے کہیں بھی ابلاغ کا مسئلہ نہیں ہوا ۔
اس ناول کہ کہانی اور تکنیک مختلف نوعیت کی ہے۔ناول کی تعریف ایک جملے میں نہیں کی جاسکتی بلکہ ہر نیا ناول طے شدہ تصورات کو توڑتا ہے اور وہ اپنی تعریف خود لے کر آتا ہے۔

رفعت عباس کا اصل حوالہ شاعری ہے۔مگر انہوں نے جو تجربہ اس ناول میں کیا ہے اسے آسانی سے گرفت میں نہیں لیا جاسکتا ۔ناول میں موجود ٹائم سپیس اسے ایک نئی جہت عطا کرتا ہے ۔

مترجم نے اس ناول کو ”ہسٹوریکل فینٹسی“کہا ہے، جبکہ یہ دونوں الفاظ مختلف نوعیت کے ہیں اور ناول کے رواےتی تصور سے انحراف کرتے ہیں۔

انہوں نے سال ، مہینوں اور وقت کی قید کو استعماری قوت کا استعارہ قرار دیا ہے جب کہ جو شہر ناول نگار بسانا چاہتا ہے وہ ان تمام پابندیوں سے آزاد ہے۔ ناول میں حکایاتی انداز اپنایا گیا ہے اور یہ انسان کے اصل وجود کو دریافت کرنے کی کوشش ہے۔اگر آپ اس خطے کی تہذیب کو سمجھنا چاہتے ہیں تو رفعت عباس کی تخلیقات کو پڑھے بغیر ممکن نہیں۔

رفعت عباس نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے عکاس ادبی فورم کا شکریہ اداد کیا اور کہا کہ میں اس شہر کا بھی تہہ دل سے ممنون ہوں جس نے مجھ ایسے شاعر کو عزت بخشی ۔

قدیم تہذیب سے مکالمہ کرنا ایک مختلف تجربہ تھا ۔ ہر خطہ اپنے اظہار کے لیے بیٹے یا بیٹیاں چنتا ہے۔میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ اس خطے نے میرا بھی انتخاب کیا ۔ناول صرف کہانی یا رومانس بیان کرنے کا نام نہیں بلکہ ہر تہذیب کو خود پر فخر ہوتاہے اور ناول اسی کو بیان کرتا ہے۔

میں نے بطور تخلیق کار استعماروں کو ہمیشہ پھول پیش کیے ہیں ، جن انگریزوں کی قبریں ملتان میں موجود ہیں ہم ان کے رکھوالے ہیں ۔ وہ اپنے قریبی لوگوں سے بچھڑ گئے مگر ہم نے ان کا ہر طرح خیال رکھا ہے، ایک شاعر اس سے بڑھ کر اور کیا کرسکتاہے؟ہم سایہ دار درخت اور پانی کے گھڑوںکی بات کرتے ہیں۔ناول کہانی نہیں سناتا بلکہ کہانی کو پلٹتا ہے۔وہ تمام رویے جو ہماری زندگیوں میں مستحکم ہوچکے ہوتے ہیں ناول ان پر ضرب لگاتا ہے۔کیا ہم ایسا شہر بسا سکتے ہیں جو ناول میں موجود ہے۔

ایک سندھی نقاد نے اس ناول کو امن کا معاہدہ کہا ہے۔ناول نگار کی ناولٹی یہ ہے کہ اس نے ایسا شہر بسایا ہے جو چھ ہزار سال تک اپنی حفاظت کرتا ہے۔اس میں رہنا یا کوچ کرنا آپ کا اپنا فیصلہ ہے۔

میرے خیال میں نمک خالص اور تسلسل کا استعارہ ہے ۔ یہ ہمیشگی اور پاکیزگی کوظاہر کرتا ہے۔

تقریب کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ممتاز خان کلیانی نے کہا کہ میں عکاس ادبی فورم کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس تقریب کا انعقاد کیا۔

رفعت عباس اور تمام مقررین کے علاوہ طلباءکا بھی ممنون ہوں جنہوں تقریب میں شرکت کی۔رفعت عباس اس دھرتی کے آدمی ہیں۔

انہوں نے کچھ عرصہ قبل ایک ایوارڈ لینے سے انکار کیا اس لیے وسیب کی دھرتی انہیں اپنے قریب سمجھتی ہے۔ ناول کسی بھی سماج کے لیے قدرت کی عطا ہوتا ہے۔
مگر اس ناول میں رفعت نے جس طرح زبان کو برتا ہے وہ حیران کن ہے۔یہ اپنی زبان کی وجہ سے ایک بڑ ا ناول ہے۔ ہم نے اس ناول کو اپنے نصاب کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button