طب کی ترقی میں اسلام کا کردار (فطری طریقہء علاج) [حصہ سوم] تحریر وتحقیق : کنول شاہد

طب الائمہ کرام
اسلام کا سورج اپنی پوری اب و تاب سے چمک رہا ہے. اس کی تعلیمات صحرائے عرب سے نکل کر تمام دنیا کے خطوں میں پہنچ چکی ہیں. جن میں موجودہ عراق، ایران، مصر اور یورپ کے بہت سے علاقے مسلمانوں کے زیر نگین اگئے ہیں. جو زمانہ قدیم سے علم کے علمبردار مانے جاتے ہیں. لہذا اگرچہ اہل بیت پر دنیا کی زمین تنگ کر دی گئی ہے، واقعہ کربلا بھی ہو چکا ہے جس میں امام زین العابدین علیہ السلام(کو بیمار جان کر) کو چھوڑ کر امام حسین علیہ السلام کے سارے بیٹوں شہید کر دیا گیا ہے اور بعد ازاں بھی ائمہ کرام کی وہ نسل جو امام زین العابدین سے چلی کے تمام ائمہ کرام کو شہید کر دیا گیا. اس کی سب سے بڑی وجہ اہل بیت کے علم سے خوف تھا. مختلف ادوار کے حاکمان وقت کو یہی خوف تھا کہ علم و فضل اور تقوی میں اہل بیت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور دوسرا ان کے مقابلے میں امت مسلمہ کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کا حقدار بھی کوئی نہیں ہے. لہذا اگر انہیں زندہ چھوڑ دیا گیا تو ان کا اقتدار ختم ہو جائے گا اور کوئی بھی انہیں حاکم تسلیم نہیں کرے گا. مگر ان سب نامساعد حالات کے باوجود آنے والے تمام ائمہ کرام نے اپنی علمی جدوجہد جاری رکھی. دوسرا چونکہ عباسی خلفاء کو عوام میں اپنا اعتماد بحال رکھنا تھا لہذا وہ علم دوستی کا ڈرامہ رجاتے رہے جس سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ ان اہل علم ان کو جدید کتب خانے، رسد گاہیں اور تحقیق کے لیے مزید سہولیات میسر اتی رہیں جس سے ان کو اپنی تحقیق کو وسعت دینے اور معلومات کا تبادلہ کرنے کے مواقع بھی ملتے رہے. لہذا مصر، بغداد، شام، ایران اور سپین جیسے علاقوں سے طالبان علم ان کہ حلقہ دروس میں شامل ہونے کے لیے اتے رہے. یہ لوگ چونکہ عربوں کی طرح علم سے نابلد نہ تھے بلکہ قدیم علوم ان میں سینہ بسینہ منتقل ہو رہے تھے لہذا ائمہ کرام کے حلقہ درس میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے اپنے پہلے سے موجود علم کی بنیاد پر سائنسی تحقیق شروع کی. نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی اور یہودی بھی ائمہ کرام کے علم لدنی سے بہراور ہوتے رہے. پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے سلسلہ نے ہمیں جابر بن حیان، بو علی سینا، ابن الحشم، عمر خیام، الرازی، الزاہروی، جرجانی جیسے سائنس دان دیے جن کے علوم کو اہل یورپ نے فرانسیسی اور اٹالین زبانوں میں ترجمہ کر کے بعد ازاں صرف ٹرمنالجی دے کر اس سائنسی دور کی بنیاد رکھی جس کے ثمرات سے دنیا مستفید ہو رہی ہے. یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے ان ائمہ کرام کی تصنیفات کو کبھی دیکھا بھی نہ ہو لیکن اہل یورپ امام جعفر صادق علیہ السلام کو سپر برین اف اسلام قرار دے کر ان کہ کارناموں پر کتب لکھنے پر مجبور ہو گئے.
یہی وجہ ہے کہ جب ہم ان ہستیوں کے کارہائے نمایاں اور سوانح عمری کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک عجیب صورتحال سامنے اتی ہے ایک طرف تو منصور اپنے دربار میں امام جعفر صادق کو عزت دے کر علمی مباحث منعقد کرواتا ہے اور دوسری طرف مستقل ان کہ قتل کی سازشوں اور فیصلوں میں لگا ہوتا ہے اور اخر کار انہیں زہریلے انگور کھلا کر شہید کروا کر دم لیتا ہے. امام جعفر صادق علیہ السلام کے بیٹے امام موسی کاظم علیہ السلام کو بھی ہارون رشید کے حکم پر زندان میں زہر دے کر شہید کر دیا گیا. پھر خلیفہ مامون نے پہلے تو امام موسی کاظم کے بیٹے امام رضا علیہ السلام کو اپنا ولی اس نیت سے مقرر کیا کہ لوگوں کی نظر میں آپ کی نظر قدر و منزلت کم ہو جائے گی لیکن اس کے برعکس وہ بڑھتی چلی گئی اور اخر میں اس نے بھی زہریلے انگور کھلا کر امام رضا علیہ السلام کو شہید کر دیا.
لیکن چونکہ نبی اخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اہم مقصد یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ(البقرۃ151)”(وہ نبی) کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں تھا۔” لہذا ان کی اولاد نے بھی اس مقصد کو ہر صورت میں جاری رکھنا تھا. شیخ صدوق "علل الشرائے” میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے حوالے سے ایک طویل روایت کچھ یوں نقل کرتے ہیں:”میرے والد رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ بیان کیا مجھ سے عبداللہ بن جعفر حمیری نے روایت کرتے ہوئے ابولقاسم ہاشمی سے اور انہوں نے عبید بن ہاشم انصاری سے انہوں نے کہا کہ بیان کیا مجھ سے حسن بن سما نے اور انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی اپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ ہ وسلم کی خدمت میں اسمان سے ایک صحیفہ لے کر نازل ہوئے. اس سے پہلے اللہ نے اپ کے پاس نہ کوئی صحیفہ بھیجا نہ اس کے بعد بھیجا. اس صحیفے میں سونے کی مہریں تھیں اور جبرائیل علیہ السلام نے اپ سے کہا کہ یہ اپ کا وصیت نامہ جو اپ کے اہل میں سب سے زیادہ نجیب و شریف ہو یہ اس کے لیے ہے. انحضرت نے کہا اے جبرائیل میرے اہل میں سب سے زیادہ نجیب کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ علی ابن ابی طالب ہیں. اپ ان سے کہیں کہ جب اپ وفات پا جائیں تو ان میں سے ایک کو توڑیں اور جو کچھ اس میں تحریر ہے اس پر عمل کریں. چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو حضرت علی نے اس صحیفہ کی ایک مہر توڑی اور جو اس پر تحریر تھا اس پر عمل کیا اور وقت وفات یہ صحیفہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا. انہوں نے ایک مہر توڑی اور اس پر جو مرقوم تھا اس پر عمل کیا اور وقت وفات امام حسین علیہ السلام کے حوالے کیا. انہوں نے مہر توڑی تو یہ تحریک پایا کہ اپنے ساتھ ایک ایسے گروہ کو لے کر نکلو جو تمہارے ساتھ شہادت کے لیے تیار ہو اور تم اپنی جان اللہ کے لیے قربان کر دو اور انہوں نے اس میں جو کچھ تھا اس پر عمل کیا. پھر صحیفہ اپنے بعد ایک مرد کے حوالے کیا انہوں نے جب مہر توڑی تو یہ لکھا ہوا پایا کہ خاموشی اختیار کرو چپ رہو اپنے گھر میں بیٹھو اور تا دم مرگ اللہ کی عبادت کرتے رہو. پھر انہوں نے اپنے بعد یہ صحیفہ ایک مرد کے حوالے کیا انہوں نے مہر توڑی تو یہ تحریر پایا کہ لوگوں سے حدیثیں بیان کرو فتوے دو اور اپنے اباؤ اجداد کے علم کی نشر و اشاعت کرو. انہوں نے جو کچھ اس پہ تحریر تھا اس پر عمل کیا اور اپنے بعد وہ صحیفہ ایک مرد کو دیا انہوں نے مہر توڑی تو یہ تحریر پائی یہ تم لوگوں سے حدیث بیان کرو انہیں فتوے دو اور تمہارے اباؤ اجداد نے جو کچھ کہا اس کی تصدیق کرو اور سوائے خدا کے کسی سے نہ ڈرو کیونکہ تم اللہ کی حفظ و امان میں ہو. پھر وہ صحیفہ اپنے بعد ایک اور مرد کے حوالے کریں گے اور اپنے بعد یہ صحیفہ ایک اور مرد کے حوالے کریں گے. اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا.”یہی وجہ تھی کہ آل رسول نے اللہ کا دیا ہوا مقصد ہر صورت میں پورا کیا چاہے انہیں اس کے لیے تقیہ کرنا پڑا یا”اخوان الصفا” کی صورت میں علم کو پھیلانے کی خفیہ مہم چلانی پڑی.
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس دور کی ترقی پر جو بھی ہم آرٹیکلز یا تاریخی کتب پڑھتے ہیں ان میں آپ نے اکثر نوٹ کیا ہو گا کہ سب سے پہلے تو بقراط کو بابائے طب کہا جاتا ہے پھر اس کے بعد جالینوس کی تحقیقات کو کریڈٹ دینے کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ الرازی اور اس کے تقریباً ایک صدی بعد بو علی سینا نے ان اصحاب کی تحقیقات کی بنیاد پر علم طب کی بنیاد رکھی(چونکہ ان دونوں اصحاب کا تعلق ایران سے تھا اس لئے کبھی کبھار انتہائی فراخدلی سے ایران کے قدیم علوم کو بھی کریڈٹ دے دیا جاتا ہے) یعنی کہ وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ موجودہ سائنسی ترقی اہل ہند یا اہل یونان و روم کی وجہ سے ممکن ہوئی بالفاظ دیگر اسلام کے کردار کو عمداً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
لہذا قائرین نے سابقہ تحریر میں نہ صرف توحید مفضل میں درج امام جعفر صادق علیہ السلام کی بیان کردہ نظام دوران خون کی وضاحت مطالعہ کی بلکہ امام صاحب اور جابر بن حیان کے مکالمے کا بھی مطالعہ کیا جس میں امام عالی مقام نے بیماری پیدا کرنے والے انتہائی باریک جانداروں کی وضاحت کی ہے (بیکٹیریا اور وائرس کی اصطلاح بعد میں متعارف کروائی گئی)۔
نیز ہم نے دیکھا کہ طبیب ہندی اور طبیب نصرانی نے خود امام جعفر صادق کے علم سے استفادہ کیا اگر ان کا علم مزید سائنسی تحقیق کے لیے کافی ہوتا تو انہیں امام عالی مقام سے پوچھنے کی حاجت نہ ہوتی۔
دوسرا بقراط کا عرصہ حیات 460 تا 370 ق م کا ہے جبکہ جکیم جالینوس کا زمانہ129 تا 200 عیسویں کا ہے لہذا سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس طب کی ترقی کے دور کو hipocratic اور gelanic میڈیسن کا دور لکھا جاتا ہے اگر واقعی خالصتاان دو شخصیات کی وجہ سے ہوتا تو اسلام کے پھیلنے سے پہلے یعنی کہ اٹھویں نویں صدی سے پہلے کسی ایرانی نے الرازی اور بو علی سینا کی طرح ان دونوں مذکورہ شخصیات کے علم کی بنیاد پر طب کے باقاعدہ علم کا اغاز کیوں نہ کیا اور امامین کے دور یعنی کہ چھٹی صدی عیسوی کے نصف سے پہلے کلیسا کے علاج کے اتنے تکلیف دہ طریقے کیوں رائج تھے؟ کیا تب تک Hippocratic Oath یعنی بقراط کا دیا ہوا مریضوں سے ہمدردی کا حلف نامہ موجود نہ تھا؟ یا جالینوس کے بیان کردہ طبی حقائق کا دنیا کو علم نہ تھا؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس ایلوپیتھک طب کو مغربی تاریخ دانوں اور محققین کی پیروی میں ہم بھی hepocratic medicine اور طب یونانی جسے gelanic medicine کہتے ہیں درحقیقت طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے. اور اپ کی اولاد اور ان کے پیروکاروں نے حکیم جالینوس کی تحقیقات سے ایک حد تک استفادہ اس لیے کہ وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے سچے پیروکاروں میں سے تھا. چونکہ قران میں جہاں مختلف علوم کو مختلف انبیاء کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے وہاں شفا کو حضرت عیسی علیہ السلام کا معجزہ بتایا گیا ہے. اسی طرح وہ علوم جو سکندریہ کی درسگاہ سے وابستہ تھے اور یونانی حکماء جیسے بطیموس، بقراط، سقراط، عرشمیدس اور ارسطو وغیرہ سے منسوب ہیں، وہ یونان جیسی بت پرست قوم کے عقائد نہیں تھے بلکہ stolen legency کی تحقیق بتاتی ہے کہ وہ سب علوم قدیم مصری راہبوں کے سکھائے ہوئے تھے جو انہوں نے فراخ دلی سے انہیں بتائے تھے اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سب بھی مصر میں حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام جیسے اللہ کے برگزیدہ نبیوں کا دیا ہوا علم تھا۔
لیکن اج کی جنریشن جس اسلام کو جانتی ہے وہ صرف پانچ ٹائم نماز,بغیر مطلب جانے قران کی تلاوت, کمیونٹی کے مدرسے کے مولوی صاحب جو کہ لوگوں کے نکاح اور جنازے پڑھاتا ہے اور فوت شدہ بزرگوں کے ایصال ثواب کے لیے اپنے طالب علموں کو لے کر مقررہ اجرت کے بدلے قران پاک کے ختم کر دیتا ہے، پر مشتمل ہے. اسلام یا قران کی تعلیم دراصل کائنات کے تمام علوم سے باہم متصل تھی. یعنی کہ اس زمانے میں جو قران پڑھتا تھا وہ اس کے علوم سے بھی واقف تھا. جیسا کہ شمسی اور قمری مہینے اور ان کی تواریخ کے اثرات، زکوۃ ترکہ وغیرہ کی تقسیم اور نصاب پر مشتمل بنیادی ریاضی اسی طرح بنیادی طب کے اصول جو کہ احادیث اور اہل بیت کی کتب میں مرقوم ہیں،ان سے بھی واقف ہوتا تھا. اس نظام تعلیم کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نوابادی نظام میں ختم کیا گیا. مسلمانوں کی تحقیق اور ترقی کا دور ان کے تمام تر زوال کے باوجود خلافت عثمانیہ تک جاری رہا جسے پہلی جنگ عظیم کے بعد ختم کر کے ایک دہریے جنرل مصطفی کمال اتاترک کو حکومت دے دی گئی جس نے روشن خیالی کے نام پر اسلامی اقدار کا ملک سے خاتمہ کر دیا. اسی طرح بر صغیر پاک و ہند میں ایک طرف تو بڑے بڑے جید اور معزز علماء کو ملا کہہ کر اور ان کی ٹوپیوں اور داڑھیوں کی تضحیک کر کے انہیں صرف اذان دینے نماز پڑھانے اور طالب علموں کو قران(بغیر ترجمے کے) پڑھانے تک محدود کر دیا گیا اور ساتھ ہی دینی تعلیم یافتہ افراد کو جاہل اور انگریزی تعلیم حاصل کرنے والوں کو تعلیم یافتہ اور مہذب قرار دے کر مسلمانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا اور دوسری طرف بر صغیر پاک و ہند میں صدیوں سے جو باہمی برداشت اور تحمل کا ماحول چلا آرہا تھا یعنی ہندو مسلم اور مختلف فرقوں کے مسلمان اپس میں بغیر کسی جھگڑے فساد کے سکون سے رہتے تھے، اسےفرقہ یرستی کے ذریعے تباہ کر دیا. گیا اس کے لیے یہ کیا گیا کہ شیعہ سنی کے اختلافات کو ہوا دی گئی. صرف یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے فقہی مسائل میں جو بھی فطری اختلاف جہاں بھی سامنے ایا اسے باقاعدہ پروموٹ کر کے الگ فرقہ بنا دیا گیا اور ہر فرقے کی کچھ اس طرح کی سورتحال ہو گئی مِنَ الَّـذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَـهُـمْ وَكَانُـوْا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَـدَيْهِـمْ فَرِحُوْنَ (روم 32) "جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔”صرف اس پر ہی نہیں بس کی بلکہ مرتدین کے فرقے کی بھی باقاعدہ سرپرستی کی گئی اور انہیں انگریز حکومت کی طرف سے جائیدادیں اور فیکٹریاں دی گئی اور ساتھ ہی عوام الناس کے لیے یہ پیش کرتی کہ اگر وہ اس فرقے میں شامل ہوں گے تو انہیں مالی طور پر خوشحال اور مستحکم کر دیا جائے گا. قصہ مختصر کہ مسلمانوں کو اپس کے اختلاف میں بری طرح الجھا دیا گیا اور ہر فرقہ اس اختلاف میں پڑا ہوا تھا کہ یہ نماز کا یہ طریقہ نہیں بلکہ یوں ہے یعنی کہ ہم ہی سچے مسلمان ہیں اور دوسرے فرقوں کے لوگ کافر ہیں ایسے میں کہاں کا علم اور کون سا علم. اس منظم لائحہ عمل کے نتیجے میں مسلمانوں کی اگلی نسل شدید احساس کمتری اور تعصب کا شکار ہو گئی. جب کہ وہ علم جو انبیاء کی میراث تھا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ال کے ذریعے ہم تک پہنچا تھا فرنگی نے صرف وضاحت کر کے اپنے نام کر لیا اور اج کا مسلمان یہ یقین نہیں رکھتا کہ وہ اللہ جو تمام عالمین کا خالق ہے اس نے اپنے آجری کلام یعنی قران میں تمام کائنات کے علم کو سمو دیا ہے بلکہ اگر اسکے علم میں کوئی ایسی آیت اتی ہے جس میں کوئی سائنسی یا کائناتی حقیقت کابیان موجود ہو تو وہ شدید حیران ہوتا ہے کہ اج سے 1400 سال پہلے سائنسی تحقیق نہ ہونے کے باوجود یہ سب حقائق قران و حدیث میں کس طرح موجود ہیں لہذا وہ ان حقائق کے بیان کو قران کا معجزہ قرار دیتا ہے اور طب اور دوسرے شعبوں کی تحقیق کے لیے اہل یورپ کی طرف دیکھتا ہے.
صرف ایلوپیتھی اور طب یونانی ہی نہیں بلکہ اس مضمون کی تیاری کے لیے تحقیق کے دوران مجھ پر بھی ایک نیا انکشاف ہوا کہ ہم جس خطے میں رہتے ہیں وہاں کا روایتی سپیشلائزڈ طیب جو کہ مختلف شعبوں میں بٹا ہوا ہے یعنی کہ ایک شعبے کا ماہر جس کو علم اپنی وراثت میں ملا ہے وہ صرف وہی کام کرتا ہے مثلا ہڈی جوڑ، جراح اور دندان ساز وغیرہ کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ یہ اس خطے کہ قدیم اور روایتی علوم ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ طبی علوم بھی آل رسول کے عطا کردہ ہیں. وہ اس طرح کہ برصغیر پاک و ہند میں آل رسول میں سے بہت سے اصحاب وقتا فوقتا ہجرت کر کے اتے رہے ہیں جنہیں مقامی لوگوں میں اولیاء اللہ جانا جاتا ہے. اس خطے میں اسلام کو پھیلانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا. چونکہ برصغیر پاک و ہند میں ہر طرح کی قومیں اباد تھی ان میں سے کچھ تو بطور مسلمان فاتحین یہاں بس گئی تھیں اور جو مقامی لوگ تھے وہ ہندو ہی تھے.
لہذا اس مقامی ابادی میں سے جو لوگ مسلمان ہوئے وہ انہی بزرگوں کے ہاتھ پہ بیعت کر کے مسلمان ہوئے بعد ازاں انہوں نے ان اولیاء اللہ سے روحانی فیض حاصل کرنے کے علاوہ تعلیم بھی حاصل کی. یہی وجہ ہے کہ جب ہم ان اولیاء کرام کا سلسلہ نصب دیکھتے ہیں تو وہ ال رسول سے ہی ملتا ہے. مثلا ہمارے علاقے کہ مشہور بزرگ سید جمال الدین یوسف الگردیزی کا سلسلہ نسب نویں یا دسویں پشت سے امام جعفر صادق سے ملتا ہے. اسی طرح شاہ شمس تبریز کا سلسلہ نصب پندرہویں پشت پر امام جعفر صادق سے ملتا ہے. اسی طرح مشہور صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کا سلسلہ نصب پانچویں پشت سے امام حسن سے ملتا ہے. لال شہباز قلندر نامی بزرگ کا سلسلہ نسب بھی تیرہ واسطوں سے امام جعفر الصادق سے ملتا ہے ہمارے علاقے کے عظیم بزرگ سید عطاء اللہ شاہ بخاری جنہوں نے عام معصوم مسلمانوں کے برعکس فرنگی کے مکر و فریب اور سازشوں کو اپنے زمانے میں ہی پہچان کر بے نقاب کیا اور قادیانیت کے خلاف جدوجہد کر کے 15 سال قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، ان کا سلسلہ نسب بھی چھتیسویں پشت سے امام حسین علیہ السلام سے ملتا ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی ان اولیاء کرام کے حسن سلوک کے باعث ان کے بہت عقیدت مند تھے لہذا جس طرح وہ اپنے مندروں میں رسومات کرتے تھے رفتہ رفتہ وہی رسومات اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے ان اولیاء کرام کے مزاروں پر کرنے لگے جس سے ایک طرف تو غیر شرعی رسومات اور دوسری طرف ان بزرگ ہستیوں کے نااہل اور بے عمل گدی نشینوں کے باعث نظام خانگاہی بدعت کے فروغ کے باعث تنقید اور زبوں حالی کا شکار ہوتا گیا. اس سب کے باوجود بھی بہت سے اللہ کے ولی ان کے سائے میں تربیت پاک کر نکلتے ہیں۔
شاید یہ امر اپ لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہو کہ اجمیر شریف کے مشہور سلسلہ چشتیہ میں بیعت ہونے کے لیے کسی نہ کسی طب کے شعبے سے وابستہ ہونے کی شرط ہوتی ہے. یہی وجہ ہے کہ جب ہم ان آئمہ کرام کی کتب جیسے "طب الصادقین” یا "طب معصومین” اور خصوصا رسالہ ذہبیہ جو کہ خلیفہ مامون نے امام رضا علیہ السلام سے طب کے متعلق لکھوایا تھا کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بہت سی وہ ٹپس نظر اتی ہیں جو ہمارے نانا دادا وغیرہ ہمیں درد یا تکلیف یا صحت بخش کھانے کے لیے دیا کرتے تھے. وجہ یہی تھی کہ یہ بزرگ خود ہی ان آئمہ کرام کی نسل یعنی اولیاء کرام کے ہاتھوں مسلمان ہوئے تھے اور انہی سے تربیت پائی تھی جیسے "طب الصادقین” میں کچھ ٹپس درج ہیں جو کم از کم ہماری پرانی جنریشن کے لیے نئی نہیں ہیں مثلاً :درد سر:۔ ایک خراسانی، امام کی خدمت میں بیٹھا دینی مسائل دریافت کررہا تھا کہ سر میں شدت کا درد ہوا۔امام نے فرمایا اُٹھو اور حمام میں جا کر سات(۷) چُلو گرم پانی سر پر ڈالو، اور ہر مرتبہ قبل پانی ڈالنے کے ایک بار بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہو۔ شخصِ مذکور نے اس پر عمل کیا اور فوراً دردِ سر جاتا رہا کہ پھر نہ ہوا۔
زہریلے بُخارات (گیس):۔ جابر صوفی کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق اے کہا، یابن رسول اللہ! میں سر سے پیر تک باد یعنی بُخارات میں مبتلا ہوں آپنے فرمایا۔ عنیر اور زنبق پیس کر کھاوٴ خداوند عالم شفا دے گا۔
باری کا بُخار(ملیریا):۔ اِبراہیم جعفی کہتے ہیں کہ میں امام کی خدمت میں گیا، دیکھ کر آپنے فرمایا، رنگ متغیر کیوں ہے؟ جعفی نے کہا تپ دنوبہ سے۔ امام نے فرمایا، مفید شربت کیوں نہیں اِستعمال کرتے۔ شکر کو کوٹ کر پانی میں ملا کر پانی میں حل کر لو اور نہار منہ اور وقتِ تشنگی اِستعمال کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا اور بہتر ہو گیا( ہمارے ہاں گرم علاقوں میں گرمی سے پیدا ہونے والے مسائل جیسے جگر اور معدے کی گرمی کے لیے شکر کے شربت کا استعمال تا حال عام ہے) ۔
اسہال و شکم درد: ایک شخص نے امام سے اپنی لڑکی کے متعلق ”دستوں“ کی شکایت کی، آپ نے چاول اور گوشت پکانے کا طریقہ بتایا۔ لڑکی صحت یاب ہو گئی۔ خالد بن بہیج کہتا ہے کہ میں نے امام کی خدمت میں دردِ شکم کی شکایت کی، آپ نے فرمایا، قدرے چاول کوٹ کر ہر غذا کے ساتھ تھوڑے سے کھا لو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور پیٹ کے درد سے نجات پائی۔ کسی نے آپ سے کہا کہ بَسا اوقات میرے پیٹ میں ایک آواز پیدا ہو کر درد ہونے لگتا ہے۔ امام نے فرمایا اِس درد کے دَفیعہ کے لئے سیاہ دانہ اور عسل یعنی شہد بتلایا۔ جس سے اُسے آرام ہو گیا۔
ضُعفِ بدن:۔ کسی نے امام سے ضُعفِ بدن کی شکایت کی کہ میں روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہوں آپ نے فرمایا ،دودھ پیا کرو کہ گوشت کو پیدا کرتا ہے اور ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے۔ کمزوری دور کرتا ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ میں نے دودھ پیا تھا مگر کمزوری بڑھ گئی۔ آپ نے فرمایا، دودھ کی وجہ سے نہیں، بلکہ اُس چیز کی وجہ سے جو تو دودھ کے ساتھ کھاتا ہے۔
برص:۔ آپ سے کسی نے ”برص“ کی شکایت کی، آپ نے فرمایا، حِناّ(مہندی) نورہ(چونا اور ہرتال کا مرکب) ملا کر داغ پر لگاوٴ۔ داغ جاتا رہے گا۔
ضُعفِ چشم:۔کسی نے امام سے ضُعفِ چشم کی شکایت کی، آپ نے فرمایا۔ انگوم۔ صِبر یعنی ایک نہایت تلخ دَوا۔ کافور سب کو ہموزن کر کے سُرمہ بناکر آنکھوں میں لگاوٴ۔ فوراً فائدہ ہوگا۔ ایک شخص کی آنکھ میں سفیدی پیدا ہوگئی تھی۔ آپ نے اُسکو یہ نسخہ تجویز فرمایا۔
فلفلِ سفید۔ دارفلفل ہر ایک۲۔۲دِرم۔ نَوشادر صاف کردہ یَک دِرم کو خوب باریک سُرمہ بناوٴ۔ اور اس کی سوزش کے لئے تحمل کر سکو تو ہر روز تین مرتبہ سلائی سے لگاوٴ۔ اِنشاء اللہ سفیدی جاتی رہے گی۔ ہر مرتبہ آنکھ کو آبِ صافی سے پاک کیا جائے اور بعد میں معمولی سُرمہ لگایا جائے۔
زُکام:۔ کسی نے آپ سے زکام کی شکایت کی، آپ نے فرمایا یہ لطفِ خدا ہے اگر تو دوا چاہتا ہے تو چھ درم، سیاہ دانہ۔ نیم دانگ۔ کندس کو خوب کوٹ کر ۔ سانس کے ذریعہ ناک میں پہونچاوٴ( اگر یاد کریں ہمارے بزرگوں کے پاس اس طرح کا پاؤڈر ہمہ وقت موجود رہتا تھا جو وہ سانس کے ذریعے ناک میں لیتے تھے) اِس سے زکام جاتا رہتا ہے مگر علاج نہ کیا جائے تو بہتر ہے اسلئے کہ زکام کے بیشمار فوائد ہیں۔
شِدت بول(پیشاب بکثرت آنا):۔ ایک شخص نے آپ سے شدت بول کی شکایت کی، آپ نے آخر شب میں سیاہ دانہ کھانے کو فرمایا۔ چند ہی روز کھانے سے آرام ہو گیا۔
قِلتِ نسل:۔ عمر ابنِ حسنہ جمال نے اولاد نہ ہونے کی شکایت کی، آپ نے فرمایا، اِستغفار کر اور تخم مُرغ اور پیاز اِستعمال کر، جب تک اولاد نہ ہو۔
ضُعفِ باہ:۔ کسی نے ضُعفِ باہ کی شکایت کی، آپ نے سفید پیاز کو رُوغن زیتون میں تل کر بیضہء مُرغ(انڈا) ڈال کر خوب پکائیں اور کھانے میں اِستعمال کریں، قوتِ باہ کے لئے نہایت مفید ہو گا( پیاز والا انڈا ہمارے گھروں میں اکثر پکایا جاتا تھا اور اسے صحت کے لیے مفید مانا جاتا تھا).
دور جدید میں بیماریوں کے پھیلنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ ذائقے اور برینڈ کی وجہ سے یا یوں کہہ لیں کہ فیشن کے طور پر ایسی چیزیں استعمال کرتے ہیں جو موسم اور اب و ہوا کے حساب سے مناسب نہیں ہوتیں. جیسے ہر چیز میں چاکلیٹ کا استعمال ایک فیشن بن گیا ہے. لیکن ہم ایک گرم خطے میں رہتے ہیں. چاکلیٹ فائدہ مند ہے لیکن سرد علاقوں کے باسیوں کے لیے یا سرد موسم کے لیے اسی طرح ذائقے کے لیے ہم لوگ سردی میں بھی کولڈ ڈرنکس استعمال کر لیتے ہیں جو کہ بذات خود نقصان دہ فارمولے سے بنائی جاتی ہیں لیکن سرد موسم میں ان کا نقصان کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور بسا اوقات ان کے استعمال سے سینہ تک جکڑا جاتا ہے اور شدید انفیکشن کے کیسز سامنے آنے لگتے ہیں. یہی وجہ تھی کہ ہمارے بزرگ کھانے پکانے میں اور غذا میں موسموں کا لحاظ ضرور رکھتے تھے ، جیسے سردی میں حلوہ جات جن میں کثیر مقدار میں خشک میوہ جات استعمال ہوتے تھے جو کہ انتہائی رغبت سے بنائے اور کھائے جاتے تھے. جبکہ گرمیوں میں خشک میوہ جات کے استعمال سے گریز کیا جاتا تھا ان کی جگہ ٹھنڈے پھل مشروبات اور ہلکی پھلکی غذا کو ترجیح دی جاتی تھی لہذا اج کل کی طرح سنگین نوعیت کی بیماریاں اتنی عام نہیں ہوتی تھیں. موسم کے لحاظ سے کھانے پینے اور دیگر معمولات کی تفصیل صراحت کے ساتھ امام رضا کی کتاب رسالہ زیبیہ میں ملتی ہی
ں.
اسی طرح اطباء تلقین کرتے ہیں جیسا کہ طب نبوی میں بھی یہ ہدایت موجود ہے کہ معدے کو زیادہ نہ بھرا جائے. ہمارے بعض بزرگوں کا بھی یہی خیال تھا کہ زیادہ کھانے سے کند ذہنی بڑھتی ہے. لہذا امام رضا نے بھی فرمایا کہ "اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص اندازے سے زیادہ کھاتا ہے اس سے اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور جو اندازے سے غذا کھاتا ہے نہ زیادہ نہ کم اس سے فائدہ ہی فائدہ پہنچتا ہے. بعینہ یہی حالت پانی کی ہے. مناسب یہی ہے کہ ضرورت کے مطابق کھانا کھایا جائے اور کچھ اشتہا باقی رہنے پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ بادشاہ کے معدے اور جسم کے لیے یہ معمول سب سے بہتر ہوگا کہ اس سے اس کی عقل زیادہ صحیح رہے گی اور جسم ہلکا پھلکا اور تندرست رہے گا.”
اکثر لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے سے وہاں کا پانی سوٹ نہیں کرتا اور اور انہیں نظام انہضام کے مسائل شروع ہو جاتے ہیں اس کا حل امام رضا علیہ السلام نے کچھ یوں بتایا ہے: "مسافر کے لیے تکلیف سے بچاؤ کے لیے بہتر تدبیر یہ ہے کہ کسی نئی منزل کا پانی وہ اس وقت تک نہ پیے جب تک کہ اس سے پہلی منزل کا ایک پیاس پانی اس منزل کے پانی سے نہ ملائے. گو ہوائیں مختلف ہوں تاہم پانی کے بدل لینے سے ان کا نقصان بھی رفع ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے ہوا کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے اور اس سے بھی بہتر طریقہ مسافر کے لیے یہ ہے کہ جس سر زمین میں یہ پیدا ہوا ہے اور جہاں اس نے نشوونما پائی ہے وہاں کی تھوڑی سی مٹی اپنے ساتھ رکھے اور جس منزل پر وارد ہو وہاں کے ایک برتن میں وہ مٹی ڈال کر اور پانی ڈال کر خوب گھول دیا کرے اور جب پانی خوب صاف ہو جائے تو اسے نتھار کر پی لیا کرے.”
مزید امام عالی مقام نے بہت سی ہیلتھ ٹپس دی ہیں جو کہ ہمارے بزرگ ہمیں وقتاً فووقتاً دیتے رہتے تھے مثلاً
_ بچوں کے لیے ماں کے دودھ سے بہتر کوئی دودھ نہیں.
_ کھانا ٹھنڈا کر کے کھانا چاہیے.
_ کھانا پیالے کے کنارے سے کھانا چاہیے.
_ کھانے کی ابتدا نمک سے کرنی چاہیے. کیونکہ اس سے 70 بیماریوں سے حفاظت ہوتی ہے جن میں جزام بھی ہے.
_ حدیث معتبر میں منقول ہے کہ امام رضا کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد بھنے ہوئے چنے تناول فرماتے تھے.
_ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تم کچھ کھاؤ تو چت لیٹ جاؤ اور دایاں پاؤں بائیں پاؤں کے پر رکھ لو.
_ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب کھانے کے بعد ہاتھ دھوتے تو کلیاں بھی ساتھ کرتے تھے.
_ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ موسم سرما میں تیل کی مالش سے ریاحی مرض یعنی (گیس کی بیماری) دفع ہوتی ہے.
_امام عالی مقام نے فرمایا کہ جس کی بینائی ضعیف ہو گئی ہو اسے چاہیے کہ رات کو سونے سے پہلے چار سلائیاں دائیں انکھ میں اور تین سلائیاں بائیں انکھ میں سرمہ لگا کے سوئے.
_امام رضا نے فرمایا کہ اس جوش دیے ہوئے پانی سے جسے سات دفعہ جوش دیا گیا ہو اور ہر مرتبہ برتن بدل گیا ہو، کو پینے سے بخار جاتا رہتا ہے اور پاؤں اور پنڈلیوں میں قوت آ جاتی ہے.
_حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ نہار منہ خربوزہ کھانے سے فالج پیدا ہوتا ہے اور حضرت رسول خدا کو خربوزے کے ساتھ چھوہارے کھانے پسند تھے اور کبھی کبھی شکر و قند بھی کھا لیا کرتے تھے.
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس کو منظور ہو کہ اس کا کوا نہ لٹکے اور کان نہ بہیں اس پر لازم ہے کہ جب کبھی میٹھی چیز کھائے تو سرکے سے غرارے کرے.
امام رضا علیہ سلام نے دانتوں کی حفاظت اور مظبوطی کے لئے بھی کچھ ٹپس دی ہیں جیسے”جو شخص چاہیے کہ اس کے دانت خراب نہ ہوں اس کو چاہیئے کہ میٹھی چیز کھانے سے پہلے روٹی کا سوکھا ٹکڑا کھا لیا کرے.” پھر فرمایا کہ "جو شخص اپنا منہ صاف اور خوشبودار رکھنا چاہے، مسوڑوں کی مظبوطی کا خواہشمند ہو اور دانت کے کیڑوں سے بچنا چاہے اسے چاہیئے کہ مسواک کرے اور اس کے لئے درخت جال(پیلو) کی شاخ عمدہ چیز ہے لیکن اس میں بھی اعتدال شرط ہے کیونکہ اس کا زیادہ استعمال دانتوں کو پتلا اور جڑوں کو بودا کر کے دانتوں کو ہلا دیتا ہے.”اور فرمایا کہ”ایک وقت میں معدے کے اندر انڈے اور مچھلیاں اکٹھے نہ ہونے پائیں کہ اس سے نقرس قولنج بواسیر اور داڑھ کا درد پیدا ہوتے ہیں.” اور یہ بھی فرمایا کہ "گرم اور میٹھی چیز کے بعد ٹھنڈا پانی پینے کی عادت سے دانت جلدی گر جاتے ہیں.”
مزید تفصیل کے لیے ڈاکٹر سید حیدر مہدی کی تصنیف طب امام رضا کا مطالعہ کریں جو کہ پی ڈی ایف کی صورت میں باسانی دستیاب ہو جاتی ہے.
یہ چیز اپ نے بھی نوٹ کی ہوگی کہ اہل بیت یہ بتائے ہوئے حفظان صحت کے اصولوں کا علم اور ان پر عمل زیادہ تر یا تو سادات گھرانوں میں ہوتا ہے اور یا پھر یہاں کے مقامی لوگ جو ان اولیاء اللہ کے ہاتھوں مسلمان ہوئے تھے اور ان سے علم اور تربیت حاصل کی. گہرائی سے سوچا جائے تو اسی چیز نے انگریز کے لگائے ہوئے فرقہ واریت کہ بیج کو تناور درخت بنا دیا ہے کہ ایک تو یہاں کے مقامی لوگوں کی اولیاء کرام کے لیے عقیدت حد سے بڑھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ ان رسومات میں بھی پڑ چکے ہیں جو ہنود کی رائج کردہ ہیں جیسے مزاروں پہ چادریں چڑھانا، دیے جلانا اور نظر نیازیں دینا. کیونکہ علم جہاں مریدین میں سے اٹھ چکا ہے وہاں ان پاک باز ہستیوں کے گدی نشین بھی علم و عمل سے نابلد ہیں اور صرف اپنے پرکھوں کے نام کا فائدہ اٹھا رہے ہیں. لہذا چونکہ ان کے مریدین کی حد سے بڑی ہوئی اندھی عقیدت میں ان کا بھی مالی مفاد پوشیدہ ہے اس لیے یہ گدی نشین بھی ان مشرکانہ رسوم و رواج کو ختم کرنے کی بجائے باقاعدہ جاری رکھے ہوئے ہیں. پنجاب اور سندھ کے لوگ فطری طور پر بہت پیر پرست واقع ہوئے ہیں خصوصا سندھ میں تو ایسے واقعات بھی عام دیکھنے کو ملتے ہیں کہ کوئی بھی مجرم وہاں جا کے جنگل میں رہائش اختیار کر لیتا ہے جس سے اس کی داڑھی وغیرہ بڑھ جاتی ہے تو عام لوگ اسے پیر کا درجہ دے دیتے ہیں۔
دوسری جانب وہ لوگ جو پہلے سے مسلمان تھے اور ہجرت کر کے برصغیر ائے تھے جیسے پٹھان اور بلوچ وغیرہ ان کا نظریہ یہ ہے کہ اسلام صرف قران و حدیث پر ہی مشتمل ہے جس میں پیری مریدی کی کوئی گنجائش نہیں یعنی کہ وہ لوگ جو اس چکر میں پڑھتے ہیں وہ گمراہ ترین ہوتے ہیں بالفاظ دیگر وہ یہاں کے مقامی لوگوں کے عقیدت کے معیار کو اور ذہنوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے. اور نہ ہی انہیں ان پاکیزہ ہستیوں کہ دیے ہوئے علم و ہدایت کا ادراک ہے جس میں سر فہرست طب بھی ہے لہذا وہ اس روایتی طب کی افادیت کو بھی ماننے سے انکاری ہیں اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ بہت سے نمبر ٹو اور فراڈیے بھی اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں لیکن ان اولیاء اللہ کا دیا ہوا طب کا علم جو یہاں کے لوگوں کے خاندانوں میں نسلوں سے چلا ا رہا ہے بعض اوقات اکسیر ثابت ہوتا ہے. اپ نے خود دیکھا ہوگا کہ بعض اوقات بہت سے بزرگ ہڈی ٹوٹنے کی صورت میں اپریشن افورڈ نہیں کر سکتے تو ہڈی جوڑ سے رابطہ کیا جاتا ہے اور وہ ہڈی کو فکس کر کے چابکدستی سے جوڑ دیتا ہے۔
اسی طرح بعض خطرناک قسم کے پھوڑے پھنسیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں ڈاکٹر بھی معذوری کا اظہار کر دیتے ہیں تو ایسے میں کسی خاندانی جراح کا علاج کارگر ثابت ہو جاتا ہے یہ حقیقت مجھ پہ اس طرح منکشف ہوئی کہ کچھ سال پہلے تک ایک جراح صاحب مریض کو چارپائی کی پائنتی میں بٹھا کر کسی چیز کی دھونی دے کر بواسیر کے موکے جلا دیا کرتے تھے. یہ علاج طب معصومین میں کچھ اس طرح درج ہے” امام باقر علیہ السلام نے جریری سے بواسیر کا یہ نسخہ ارشاد فرمایا. شمع (موم) دہن زنبق (روغن چمبیلی) لینہ عسل، سماق، سرد کتان ،ان سب دواؤں کو دیگچی میں ڈال کر اگ پر چڑھا دیں جب وہ اپس میں مل کر مرہم کی مانند ہو جائیں تو اس کو بقدر ضرورت لے کر لگائیں. اس کے بعد یہ بھی کہا کہ سعیب ابن اسحاق کا مرض تجھ سے جدا نہ تھا. تو اس کو کہہ دے کہ بلادر لے کر اس کے تین ٹکڑے کرے پھر ایک گڑھا کھود کر اس میں تھوڑی سی اگ روشن کرے اور اس میں یکے بعد دیگرے ایک ایک ٹکڑا ڈالے اور اس کے بعد اس کے اوپر کوئی بھی ٹھیکرا یا انگیٹھی رکھ کر اس طرح بیٹھ جاوے کے دھواں مقد پہ لگے یعنی دھونی پہنچے اگر پانچ سے سات مسوں تک بھی ہوں گے تو وہ گر جائیں گے. بس اس کے بعد اوپر کا نسخہ بطور مرہم استعمال کیا جائے.”
ہم لوگ جو صرف ایلوپیتھی علاج پر یقین رکھتے ہیں ان کے لیے کینسر کا علاج انتہائی تکلیف دہ تھراپیز پر مشتمل ہوتا ہے لیکن اس روایتی طب میں کینسر اور ناسور جیسے مسائل سے بھی بسا اوقات انتہائی مہارت سے نمٹ لیا جاتا ہے. جیسے طب معصومین میں درج ہے کہ "متوکل عباسی کے جسم میں ایک پھوڑا نکل ایا تھا جس سے اس کے مر جانے کا اندیشہ تھا اور طبیب خوف کے مارے اس کو چیرنے کی ہمت نہیں کرتے تھے.
فتح ابن خاقان وزیر متوکل نے کسی کو امام علی نقی کی خدمت میں بھیج کر متوکل کی یہ حالت عرض کی. حضرت نے فرمایا کہ بھیڑوں کی مینگنیاں جو ان کے اپنے پیروں سے کچلی جا کر گوندا ہو گئی ہوں گلاب میں ملا کر اس پھوڑے پر لیپ کر دو. اطبا کو جب حضرت کے ارشاد کردہ اس علاج کی خبر ہوئی تو وہ بہت حیران ہوئے اور تعجب کیا کہ اس معمولی علاج سے کیا فائدہ ہوگا؟ وزیر نے کہا کہ وہ حضرت مخلوق میں سب سے زیادہ دانا ہیں اس لیے ان کے فرمانے کے مطابق عمل کرنا چاہیے چنانچہ حسب ہدایت عمل کیا گیا اور صرف لیپ ہی کر دینے سے خلیفہ متوکل کو درد سے کراہنے سے نجات حاصل ہو گئی اڑی ہوئی نیند واپس اگئی اور تھوڑی دیر بعد اس لیپ کے اثر سے پھوڑا خود بخود پھوٹ گیا اور اس میں سے بہت سارا گندا مواد خارج ہوا جس سے مریض کو ارام ہو گیا.
اسی طرح امام باقر علیہ السلام نے ایک شخص کے زخم کے لیے فرمایا کہ "تھوڑی سی رال اور اتنی ہی بکری کی چربی لے کر ایک کوری ٹھیکری پر رکھ کر ملائے پھر ظہر کے وقت سے عصر تک ہلکی انچ پر گرم ہونے دے اس کے بعد پرانی کتان کا ایک کپڑا لے کر اس تیار شدہ مرہم کو اس پر پھیلا کر مثل پھاوے کے زخم پر لگائے اگر اس زخم ناسور میں سوراخ بھی ہو تو کتان کی ایک بتی بنا کر اس بتی پر مرہم لگا کر ناسور کے اندر پہلے سے رکھ دینا چاہیے اور اس کے بعد پٹی لگانی چاہیے.”
ہم میں سے اکثر لوگوں کو دانتوں کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے لیے انتہائی تکلیف دہ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے اور علاج بھی انتہائی طویل اور مہنگا ہوتا ہے. لہذا آل رسول نے دانتوں میں کیڑا لگنے سے ہونے والے درد کا علاج طب معصومین میں امام موسیٰ کاظم کی حدیث میں کچھ اس طرح بتایا ہے "دانت کے درد کے لیے ایک دانہ حنظل( جسے مقامی زبان میں کوڑتمہ کہا جاتا ہے) لے کر چھیل لیں پھر اس کا تیل نکالیں. اگر کسی کے دانتوں کو کیڑے نے کھوکھلا کر دیا ہو تو متواتر تین راتیں اس روغن کے چند قطرے دانتوں میں ٹپکا کر تھوڑی سی روئی اس روغن میں تر کر کہ ان دانتوں میں رکھ لے جن میں درد ہے اور پھر چت سو جائے اور اگر کسی کی دانتوں کے جڑوں میں درد ہو تو جس رخ کے دانتوں میں درد ہو تو اس طرف کے کان میں دو دو تین تین قطرے اس روغن کے ٹپکانے سے چند روز میں ارام ہو جائے گا.” نہ صرف یہ بلکہ نئے دانت اگانا جسے ہم عام طور پر ناممکن سمجھتے ہیں کا طریقہ بھی اس کتاب میں کچھ اس طرح درج ہے معتبر حدیث میں ابراہیم بن نظام سے منقول ہے کہ مجھے راستہ میں چوروں نے گرفتار کر لیا اور گرم گرم فالودہ میرے منہ میں ٹھونس دیا پھر میرے منہ میں برف رکھ دی جس سے میرے سارے دانت گر گئے خواب میں امام رضا علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی امام صاحب نے فرمایا کہ سعد (ناگر موتھا) اپنے منہ میں رکھا کر تیرے دانت پھر اگ آئیں گے اس خواب کو دیکھے کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ امام صاحب ہماری بستی میں وارد ہوئے خراسان کا ارادہ تھا میں حضرت کی خدمت میں دوڑا گیا اور اپنی کیفیت عرض کی اپ نے وہی ارشاد فرمایا جو خواب میں فرما چکے تھے. حسب ارشاد تعمیل کرنے سے میرے دانت از سر نو نکل آئے.
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر شہری لوگ دانتوں کے مسائل کا زیادہ شکار ہوتے ہیں اور ڈینٹسٹ کے پاس انہیں چکر لگانے پڑتے ہیں جب کہ لوکل اور دیہاتی لوگ ان اولیاء اللہ کے دیے ہوئے علم کے باعث اس مصیبت سے ابھی تک بچے ہوئے ہیں. لہذا وہ اکثر آپ کو پیلو سے مسواک کرتے ہوئے نظر ائیں گے یہاں تک کہ بہت سی فیملیز میں گھر کے بڑے بزرگ دھواں دے کر مخصوص طریقے سے دانتوں کا کیڑا زندہ بھی نکال لیتے ہیں.
اسی طرح دور حاضر میں ہم جو غیر صحت بخش غذا استعمال کر رہے ہیں اس کی وجہ سے نزلہ زکام اور کھانسی جیسے معمولی مسائل سنگین بیماریوں کے کا سبب بن جاتے ہیں لہذا امامین نے اپنے جد امجد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں انتہائی سادہ اور اسان علاج تجویز کیے ہیں جیسے ایک روایت میں ہے کہ سوتے وقت زکام کے لیے روغن بنفشہ میں روئی تر کر کے اپنی جائے پاخانہ میں رکھے یہ عمل زکام کو دفع کرتا ہے. اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث درج ہے کہ مرض نجوش (دونامروا) کا سونگھنا دافع زکام ہے
.
اسی طرح کلینی نے حدیث حسن روایت کی ہے کہ کسی شخص نے امام جعفر صادق سے کھانسی کی شکایت کی اپ نے فرمایا کہ "تھوڑی سی انجدان رومی درخت ہین کے بیج اور اس کے برابر مصری کا سفوف بنا لیں اور ایک دو دن کھائے” اس کا بیان ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا ایک ہی دن میں کھانسی جاتی رہی.(تمام بیماریوں کہ علاج کے لیے "طب معصومین”، "طب صادق” اور "طب امام رضا” کا مطالعہ کریں)۔
الغرض اسلامی احکام پر عمل جہاں اخروی کامیابی کا ضامن ہے وہاں دنیاوی صحت اور سکون کا بھی باعث ہے اور پھر بھی اگر صحت کے مسائل درپیش ہوں تو اللہ کی کتاب نبی کی سنت اور آل رسول اور تابعین نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے فطری اور اسان طریقے ہمیں دیے ہیں. لہذا پھر بھی اگر ہم اپنے دین کے احکام اور ان طریقوں سے روگردانی کر کے صرف مغربی ریسرچ پر انحصار کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم میڈیسن کمپنیوں کے جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور مستقل مالی اور جانی نقصان اٹھا رہے ہیں۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف پروفیشنلز قران و سنت اور آل رسول کے دیے ہوئے علم کے موتی چنیں اور اپنی اور اپنی قوم کی زندگی نہ صرف اسان بنائیں بلکہ اہل مغرب کو بھی ان بیماریوں اور مسائل کا حل دیں جو ان کے نزدیک تا حال ناقابل حل ہیں. اللہ ہم سب کو اپنی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.