ایمرسن یونیورسٹی میں بڑا سیمینار

ایمرسن یونیورسٹی ملتان کے شعبہ حیاتیاتی و ماحولیاتی علوم بائیولوجیکل اینڈ انوائرمنٹل سائنسز کے زیر اہتمام "پانی بچائیں، زندگی محفوظ بنائیں: پاکستان میں پانی کی قلت” کے عنوان سے ایک آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار میں ماحولیاتی ماہرین، اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی اور ملک میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت اور اس کے حل پر تفصیلی گفتگو کی۔
ایمرسن یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد رمضان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے طلبہ اور اساتذہ کی کاوشوں کو سراہا اور ماحولیاتی آگاہی کے فروغ میں یونیورسٹی کے کردار کو اجاگر کیا۔
انہوں نے پانی کی حفاظت کو ایک قومی اور مذہبی فریضہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پانی کا تحفظ نہ صرف ماحولیاتی ضرورت ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک ذمہ داری ہے۔ انہوں نے جنگلات کے تحفظ اور پائیدار پانی کے انتظام کی ضرورت پر زور دیا تاکہ مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔
محکمہ تحفظ ماحولیات (ای پی اے) پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور ایمرسن یونیورسٹی کے سابق طالبعلم، علی عمران ملک نے سیمینار میں پاکستان میں پانی کی سنگین صورتحال پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ایمرسن یونیورسٹی کی ترقی اور ماحولیات کے مسائل پر اس کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پانی کی قلت پاکستان کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے، اور ملک دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو انتہائی شدید پانی کی قلت کے خطرے سے دو چار ہیں۔
علی عمران نے مزید کہا کہ پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے بھارت کے مقابلے میں ایک زیریں دریاوی ملک ہے، جس کی وجہ سے پانی کی قلت کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پانی کی شدید قلت کے باوجود پاکستان اپنی دستیاب پانی کا تقریباً دو تہائی حصہ ہر سال سمندر میں گرا دیتا ہے، جس کی بنیادی وجہ پانی کی سٹوریج، ڈیمز کی کمی اور پانی استعمال کے ناقص انتظامات ہیں۔
مزید برآں پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دنیا کا ساتواں سب سے زیادہ خطرے سے دو چار ملک ہے، جس کی وجہ سے بے ترتیب بارشیں، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور شدید خشک سالی جیسے مسائل مزید سنگین ہو رہے ہیں۔
انہوں نے پانی کی قلت کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، پانی کی طلب میں اضافے، ڈیموں اور ذخائر کی کمی، موسمیاتی تبدیلیاں، غیر موثر آبپاشی نظام، پانی کی آلودگی اور ناقص پالیسی سازی جیسے عوامل پانی کے بحران کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔
پانی کے تحفظ کے ممکنہ حل پر گفتگو کرتے ہوئے، علی عمران نے کہا کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے فوری پالیسی اصلاحات اور مؤثر طرز حکمرانی ناگزیر ہیں۔
انہوں نے اہم اقدامات کی نشاندہی کی جن میں سیاسی عزم کے ساتھ طویل مدتی حکمت عملی، صنعتی و زرعی استعمال کے لیے پانی کی ری سائیکلنگ، جدید آبپاشی تکنیکوں کے ذریعے زرعی استعداد کار میں اضافہ، پانی کے استعمال کو منظم کرنے کے لیے مانیٹرنگ سسٹم کا نفاذ اور عوام میں آگاہی مہمات شامل ہیں۔
سیمینار کے اختتام پر ماہرین اور طلبہ نے اس بات پر زور دیا کہ اگر فوری اور مستقل اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو شدید معاشی، زرعی اور انسانی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مقررین نے پانی کے پائیدار انتظام کے لیے موثر پالیسیوں کی ضرورت پر زور دیا اور طلبہ و محققین پر زور دیا کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
اس موقع پر یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر محمد فاروق، فیکلٹی اراکین ڈاکٹر احمد وقاص، ڈاکٹر وردہ، ڈاکٹر سحرش، ڈاکٹر مزمل، ڈاکٹر ریحانہ، ڈاکٹر قرات، اور سیمینار کی منتظم ڈاکٹر رابعہ سمیت بڑی تعداد میں طلباء موجود تھے۔
شرکاء نے پانی کے تحفظ کی اہمیت پر اظہار خیال کیا اور ملک میں پانی کے بحران کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اور آبادی میں تیز رفتار اضافے کے باعث پانی کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ مؤثر حکمت عملی، بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری، اور پانی کے ذمہ دارانہ استعمال کو فروغ دیا جائے تاکہ مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔