Paid ad
Breaking NewsEducationتازہ ترین

شعبہ اردو زکریا یونیورسٹی میں سیمینار "بیاد ڈاکٹر جمیل جالبی‘‘

شعبہ اردو بہاء الدین زکریایونیورسٹی ملتان کے زیراہتمام’’ سیمینار بیاد ڈاکٹر جمیل جالبی‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر بہاء الدین زکریایونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی نے کہاکہ میں جب بلوچستان یونیورسٹی میں تھا تو وہاں ڈاکٹر جمیل جالبی سمیت بہت سے اہل کراچی سے ملاقاتیں رہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی میں پروفیسر قرار حسین وائس چانسلر تھے تو ان کے توسط سے کراچی کے بہت سے اساتذہ اس ادارے میں تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے ۔
ڈاکٹر جمیل جالبی اردو دنیا کا معتبر ترین حوالہ اور ڈاکٹر محمدخاور جمیل خوش قسمت ہیں کہ ان کے زیرسایہ ان کی پرورش ہوئی اور انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
وفاقی انشورنس محتسب ڈاکٹر محمد خاور جمیل نے کہاکہ میری شخصیت اور تربیت میں میرے والد صاحب کا بہت اثر ہے۔
میرے والد صاحب کی ذاتی لائبریری میں قریبا ایک لاکھ نایاب کتابیں تھیں میں وہ جامعہ کراچی کی لائبریری کو عطیہ کرچکا ہوں۔
میری خواہش ہوگی کہ جامعہ زکریا سے ہونے والے مقالے کو جلد از جلد کتابی صورت میں شائع کیاجائے ۔اس کے علاوہ انہوں نے کہاکہ جمیل جالبی ریسرچ لائبریری کے زیراہتمام شعبہ اردو میں جو بھی طالب علم ٹاپ کرے گا اسے گولڈ میڈل عطا کیاجائے گا۔
ڈاکٹر فرزانہ کوکب نے جمیل جالبی بطور مترجم کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔
انہو ں نے کہاکہ جمیل جالبی ایک عمدہ مترجم تھے۔ ان کا ترجمہ تخلیقی محسوس ہوتا ہے جمیل جالبی کثیر الجہت شخصیت ہیں اور ان کو بطور مترجم کبھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ۔
ایمرسن یونیورسٹی ملتان کے ڈاکٹر ابرار السلام نے کہاکہ میری جمیل جالبی سے بہتر ملاقاتیں رہی ہیں ان کی تحریروں اور ان کی شخصیت میں ٹھہراؤ اور متوازی رویہ نظر آتا ہے ۔ ہمیں جمیل جالبی سے سیکھنا چاہیے کہ تخلیق اور تنقید میں کوئی تفاوت نہیں وہ کل وقتی محقق تھے۔
مقالہ نگار ڈاکٹر سمیرا نجم نے کہاکہ میں نے جالبی صاحب پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا ان کے نواسے سے بہت گفتگو ہوسکتی ہے۔
انہوں نے جس عرق ریزی سے اردو ادب کی تاریخ لکھی اس کی کوئی مثال نہیں ۔ اردو ادب کے طالب علموں کو ان کی کتب سے استفادہ کرنا چاہیے۔
نگران مقالہ ڈاکٹر روبینہ ترین نے کہاکہ جب بہاء الدین زکریایونیورسٹی میں شعبہ اردو قائم ہوا تو تحقیق ، تنقید کے حوالے سے کتابیں لائبریری کے لیے عطیہ کیں انہو ںنے ہماری فکری پرورش کی۔
جالبی صاحب شعبہ اردو میں کئی دفعہ زبانی امتحان لینے آئے۔اس لیے شعبہ اردو کے ساتھ ان کا تعلق بہت گہرا تھا۔ ان کی کتابیں محقیقین کے لیے نہایت اہم ہیں۔ میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میری نگرانی میں جالبی صاحب پر مقالہ لکھا گیا۔
پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر زاہد منیر نے تقریب میں آن لائن شرکت کی اور گفت گو کرتے ہوئے کہاکہ جمیل جالبی ایک تہذیب کے مالک تھے۔
چیئرمین ڈاکٹر ممتاز خان کلیانی نے شرکاء سیمینار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹر جمیل جالبی ہند اسلامی تہذیب کے نمائندے تھے۔ ۔ انہوں نے غیرمعمولی کام کیا ان کے نزدیک ادب حصول مقاصد کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ وہ ادب کو ایک منزل سمجھتے تھے۔
پرنسپل کالج کراچی پروفیسرڈاکٹر نوشابہ صدیقی نے کہاکہ جمیل جالبی صاحب سے بے تکلف گفتگو ہوئی۔
انہوں نے اپنی طویل عمر تحقیق کے لیے صرف کی۔ وہ اردو ادب میں ایک فاتح کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سیمینار میں ڈاکٹر خاور نوازش ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اردو نے نظامت کے فرائض سرانجام دیے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button