سر سید احمد خان کے نواسے سید محمود اسد اللہ کی ویمن یونیورسٹی آمد

ویمن یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اسلامیات اور شعبہ عربی کے زیر اہتمام سر سید احمد خان کی سیرت نگاری کے حوالے سے انٹرنیشنل سیمینار منعقد ہوا، جس کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے کی جبکہ مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نواسہ سر سید احمد خان سید محمود اسد اللہ تھے۔
سیمینار کی موڈریٹر ڈاکٹر جویریہ لیکچرر شعبہ عربی اور فوکل پرسن ڈاکٹر مکیہ نبی بخش اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صبیحہ عبد القدوس تھیں ۔
ترجمان کے مطابق سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے کہا کہ سیرت نگاری اب ادب کی ایک صنف ہی نہیں بلکے ہرمسلمان کےلئے عقیدت کا درجہ رکھتی ہے، آپ ﷺکی عادات و سوانح پر لکھنا ہرمسلمان کی خواہش ہوتی ہے مگر یہ اللہ کی دین ہوتی ہے، جس کو وہ توفیق دے وہ آپ کی مداح لکھتا ہے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نے کہا کہ برصغیر میں سر سید کے وقت سیرت نگاری کا پہلا دور ہے جبکہ اس سے قبل اردو زبان وادب میں سیرت النبیؐ کا بیشتر ذخیرہ منظوم ہے کیوں کہ اس زمانہ میں نثر سے زیادہ نظم میں دلچسپی لی جاتی تھی۔
جنوبی ہند میں بالخصوص اور برصغیر ہند و پاک کے دیگر علاقوں میں بالعموم ایسی نظمیں کثرت سے لکھی گئی ہیں جو آنحضرتؐ کی حیات مقدسہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں، اسی وجہ سے سر سید سے قبل سیرت نبوی پر چار طرح کی تصانیف ملتی ہیں جن میں میلاد نامے ، روایتی کتب سیرت اور ان کے تراجم اور مناظرانہ کتب سیرت کی تحریریں شامل ہیں۔
سر سید احمد خان بنیادی طور پر سیرت نگار نہیں تھے لیکن ان کو ابتداء عمر سے ہی رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی سے محبت اور عقیدت تھی جب ان کی عمر محض 26 برس تھی انہوں نے’جلاء القلوب بذکر المحبوب‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تھی، اس مختصر کتاب میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی ولادتِ با سعادت ، معجزات ، دیگر حالات اور وفات وغیرہ سے متعلق معتبر اور مستند روایات شامل کی تھیں۔
اس کا بیش تر مواد شاہ ولی اللہ کی کتاب ”سرورالمحزون“ اور شیخ عبدالحق دہلوی کی کتاب ”مدارج النبوۃ“ سے ماخوذ ہے۔
اس کے علاوہ سیرت پران کی جو کتاب سب سے زیادہ مقبول ہوئی وہ ”خطباتِ احمدیہ “ہے، جسے عالمی شہرت حاصل ہوئی ہے’’جلاء القلوب بذکر المحجوب ‘‘لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ سر سید احمد خاں کے دل میں رسول اللہ ﷺ کا بڑا احترام تھا اور ان کی خواہش تھی کہ پیغمبر اسلام سے متعلق مستند روایات پر مبنی حقائق عوام تک پہنچیں، جب سر ولیم میور کی کتاب لائف آف محمدؐ ‘چار جلدوں میں چھپ کر ہندوستان میں پہنچی تو اس وقت سر سید کی بے چینی کا جو عالم تھا وہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہ جب بھی کام سے فارغ ہو کر بیٹھتے تھے ، اکثر سرولیم کی کتاب کا ذکر کرتے تھے اور نہایت افسوس کے ساتھ کہتے تھے کہ اسلام پر یہ حملے ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کو مطلق خبر نہیں‘‘، سر سید نے ولیم میور کی اس زہر آلود کتاب کا جواب لکھنے کا ارادہ کیا تو اس کے لیے بنیادی کتابیں اور مراجع جمع کرنے میں مصروف ہو گئے۔
سر سید احمد خان ادب برائے ادب کے قائل نہیں تھے بلکہ وہ ادب کو مقصدیت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی تحریریں لوگوں کے دلوں پر کافی اثر انداز ہوتی تھیں اوروہ ایک تحریک بن جاتی تھیں، یہ اور بات ہے کہ ان کے کچھ نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اس کے باوجود سر سید احمد خان کی خدمات سیرت کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا، سیمینار میں اساتذہ اور طالبات نے شرکت کی۔