Paid ad
Breaking NewsNationalتازہ ترین

ای سی ایل سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب

سپریم کورٹ نے تحقیقاتی اداروں میں مبینہ مداخلت اور ایگزٹ کنٹرو لسٹ سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب کر لیں ہیں۔

تحقیقاتی اداروں میں حکومت کی مبینہ مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ رولز کے مطابق کرپشن، دہشتگردی، ٹیکس نادہندہ اور لون ڈیفالٹر ملک سے باہر نہیں جا سکتے، لیکن کابینہ نے کس کے کہنے پر کرپشن اور ٹیکس نادہندگان والے رول میں ترمیم کی؟

کیا وفاقی کابینہ نے رولز کی منظوری دی ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کابینہ کی منظوری کے منٹس پیش کردوں گا،جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کہ کیا ایک سو بیس دن بعد ازخود نام ای سی ایل سے نکل جائے گا؟ ،

جس پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بتایا کہ ایک سو بیس دن کا اطلاق نام ای سی ایل میں شامل ہونے کے دن سے ہوگا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کابینہ کے ارکان خود اس ترمیم سے مستفید ہوئے ،کابینہ ارکان اپنے ذاتی فائدے کیلئے ترمیم کیسے کر سکتے؟

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ کوئی ضابطہ اخلاق ہے کہ وزیر ملزم ہو تو متعلقہ فائل اس کے پاس نہ جائے؟

چیف جسٹس نے کہاکہ نیب کے مطابق ہماری بغیر مشاورت کے ایک سو چوہتر افراد کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا اس کا مطلب ہے، اعظم نذ یر تارڑ جس کے وکیل تھے اسی کو فائدہ پہنچایا۔

عدالت عظمیٰ میں وزیر اعظم اور وزیراعلی پنجاب کے کیس میں ایف آئی اے افسران کے تبادلے سے متعلق ایف آئی رپورٹ پر بحث ہوئی، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے رپورٹ سے تاثر ملا کہ بہت سے معاملات کو غیر سنجیدہ اقدامات کے ذریعے کور کیا گیا۔

وزارت قانون نے تیرہ مئی کو سکندر ذوالقرنین سمیت ایف آئی اے پراسکیوٹرز کو معطل کیا، بظاہر ایف آئی اے پراسکیوٹرز کو کیس کی دو سماعتوں میں پیش نا ہونے کی بنیاد پر معطل کیا گیا ہے، کیا آپ نے پراسکیوٹرز کو یہ کہا کہ آپ پیش ہو نا ہوں آپ فارغ ہیں؟

پراسکیوٹرز کو تبدیل کرنے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، انویسٹیگیشن آفیسر کو بھی بیماری کی وجہ سے تبدیل کیا گیا، حالانکہ وہ تبدیل ہونے کے ایک مہینہ بعد بیمار ہوا۔

جسٹس منیب اختر نے بھی کہا کہ کیا جن سماعتوں پر پیش نہ ہونے پر پراسکیوٹرزکو معطل کیا گیا وہ نئی حکومت کے قیام کے بعد کی تھیں؟،چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے پراسکیوشن ٹیم بظاہر مقدمہ کی کارروائی رکوانے کیلئے تبدیل کی گئی، آرٹیکل 248 وزراء کو فوجداری کارروائی سے استثنی نہیں دیتا، وفاقی وزراء کیخلاف فوجداری کارروائی چلتی رہنی چاہیے، فوجداری نظام سب کیلئے یکساں ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر لاء آپریشنز ایف آئی اے عثمان گوندل کو ریکارڈ سمیت طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button