Paid ad
Breaking NewsNationalتازہ ترین

دو ہفتے بعد ہی ایک اور بجٹ ، ٹیکسوں کی بمباری کردی گئی

عوام سے اب 7004 ارب روپے کے بجائے 7470 ارب روپے ٹیکس لیا جائے گا، حکومت نے ٹیکس وصولی کا ہدف تقریباً 396 ارب روپے بڑھا دیا۔

وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے مختلف ٹیکسز کا بھی اعلان کردیا۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ کیلئے 10 فیصد سپر ٹیکس 13 سیکٹرز پر لگے گا ، جب کہ 4 فیصد ٹیکس دیگر تمام سیکٹرز پر لگے گا۔

قومی اسمبلی سے خطاب میں مفتاح نے کہا کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی قیمت ادا کرنی پڑے گی، جیولرز کو ٹیکس نیٹ میں لا رہے ہیں، آئی ٹی کو رعایتیں دے رہے ہیں۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ اس سال وہ خود 20 کروڑ روپے سے زیادہ ٹیکس دیں گے، عمران خان ہر سال ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے ٹیکس دیتے تھے، توشہ خانہ کی وجہ سے پچھلے سال عمران خان نے 98 لاکھ روپے ٹیکس دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس سال پرائمری خسارہ 1600 ارب روپے آیا ہے اگلے سال اسے 153 ارب روپے فاضل کیا جائے گا، مجموعی بجٹ خسارہ بھی کم کیا جائے گا، 15 کروڑ سے زیادہ آمدنی والی کمپنیوں پر ایک فیصد، 20 کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والی کمپنیوں کو 2 فیصد، 25 کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والی کمپنیوں پر 3 فیصد اور 30 کروڑ سے زیادہ آمدنی والی کمپنیوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا۔

مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ ٹیکس اہداف میں اضافہ کردیا گیا ہے، اب 7004 کی بجائے ٹیکسوں کا ہدف 7470 روپے ہوگا، نان ٹیکس ریونیو کو 2 ہزار ارب روپے سے کم کرکے 1935 ارب کردیا گیا ہے، صوبوں کو اب 4373 ارب روپے دیں گے، ان تمام اخراجات کے بعد 4547 ارب روپے کا خسارہ ہوگا۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ 300 مربع فٹ جیولرز کی دکان پر 40 ہزار روپے کا فکس ٹیکس لگایا گیا ہے، جبکہ بڑی دکانوں پر 17 فیصد کی بجائے 3 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد ہوگا، عام شہری سونا بیچنے پر جو 4 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس دیتے تھے اسے کم کرکے ایک فیصد کردیا گیا ہے۔

جمعے کو نئے مالی سال 23 ۔ 2022 کے وفاقی بجٹ پر عام بحث سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبران کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے جو مفید مشورے دیے ہیں اس میں سے بیشتر کو بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے زراعت اور نوجوانوں کیلئے جو تجاویز دی ہیں انہیں بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کپاس اور گندم سمیت زرعی خود کفالت کیلئے کاٹن سیڈ اور بنولا پر ٹیکس ہٹا دیا گیا ہے، کھلی پر بھی ٹیکس ختم کیا گیا ہے، اس سے زیادہ کسان دوست بجٹ گزشتہ 15 ، 20 برسوں میں نہیں آیا، اس کے نتیجے میں زرعی خودکفالت میں بھی مدد ملے گی، ہم خوردنی تیل میں خودکفالت کیلئے بھی اقدامات کریں گے۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ زراعت پر جو پیسہ خرچ کیا جارہا ہے یہ سبسڈی نہیں بلکہ سرمایہ کاری کی نیت سے ہو رہا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2022ء پاکستان کی تاریخ میں معاشی طور پر برا سال سمجھا جائے گا ، اس میں تمام اہداف سے روگردانی کی گئی، 5310 ارب روپے کا خسارہ ہوا، نئے جی ڈی پی کے حساب سے خسارے کی شرح 9.08 فیصد اور پرانی جی ڈی پی کے تناسب سے 8.8 فیصد خسارہ ہوا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اخراجات زیادہ اور وسائل کم تھے اس لیے خرچہ پورا کرنے کیلئے قرضے لینے پڑتے ہیں، یہ کیسی خود مختاری اور کیسی آزادی ہے کہ ملک پر 20، 20 ہزار ارب روپے کاقرضہ چڑھا ہوا ہو، عمران خان ملک کو خودمختاری اور آزادی کی طرف نہیں بلکہ غلامی کی طرف لے کر جارہے تھے۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کا خاتمہ آسان فیصلہ نہیں تھا، میں ارکان پارلیمنٹ ، سیاسی قیادت، میڈیا، تجزیہ نگاروں اور بالخصوص وزیر اعظم پاکستان اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس معاملے پر حکومت کا ساتھ دیا، 40 ارب روپے میں ایک ماہ تک وفاقی حکومت چلتی ہے جبکہ صرف پیٹرول پر سبسڈی کی مد میں دی جانے والی رقم کا حجم 120 ارب روپے تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم حکومت میں آئے تو زرمبادلہ کے ذخائر 10.3 ارب ڈالر تھے ، جبکہ حسابات جاریہ کا خسارہ زیادہ تھا۔
ان حالات میں آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنا ضروری تھا، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں اور آئی ایم ایف نے بھی تسلیم کی ہے کہ ہم نے پیشرفت کی ہے۔

وزیراعظم کے بیٹوں کی کمپنیوں پر زیادہ ٹیکس لگایا ہے، میری اپنی کمپنیوں کو 20 کروڑ روپے سے زیادہ اضافی ٹیکس دینا پڑے گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں جو ٹیکس لگائے گئے ہیں وہ بالواسطہ نہیں ہیں، عام آدمی کی کھپت پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا بلکہ اس کی بجائے امیر اورصاحب ثروت افراد پر ٹیکس لگایا گیا ہے تاکہ بجٹ کا خسارہ کم کیا جاسکے۔

ہم نے وزیراعظم کے بیٹوں کی کمپنیوں پر زیادہ ٹیکس لگایا ہے، میری اپنی کمپنیوں کو 20 کروڑ روپے سے زیادہ اضافی ٹیکس دینا پڑے گا۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ریٹیل میں 90 لاکھ سے زیادہ دکانیں ہیں، ان میں 25 سے لے کر 35 لاکھ کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے ، اور ان سے 3 ہزار سے 10 ہزار روپے تک فکس ٹیکس وصول ہوگا۔

اس سے ان دکانداروں کو بھی آسانی ہوگی۔ ملک میں جیولرز کی 30 ہزار سے زائد دکانیں ہیں جن میں سے صرف 28 رجسٹرڈ ہیں۔

300 مربع فٹ جیولرز کی دکان پر 40 ہزار روپے کا فکس ٹیکس لگایا گیا ہے جبکہ بڑی دکانوں سے 17 فیصد جی ایس ٹی کی بجائے 3 فیصد جنرل سیلز ٹیکس وصول ہوگا، اسی طرح عام شہری سونا بیچنے پر جو 4 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس دیتے تھے، اسے کم کرکے ایک فیصد کردیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانا ہے تو ہمیں ٹیکس دینا ہوگا۔ 15 کروڑ سے زیادہ آمدنی والی کمپنیوں پر ایک فیصد، 20 کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والی کمپنیوں کو دو فیصد، 25 کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والی کمپنیوں پر 3 فیصد اور 30 کروڑ سے زیادہ آمدنی والی کمپنیوں پر 10 فیصد کا سپر ٹیکس عائد ہوگا جو ایک سال کی مدت کیلئے ہے۔

13 ایسے شعبے ہیں جن پر یہ ٹیکس عائد کیا گیا ہے ان میں سیمنٹ، شوگر، ٹیکسٹائل، بینکس، آئل اینڈ گیس، ائیرلائنز اور ایل این جی ٹرمینل شامل ہیں۔

اس سال ہمیں اس کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو استحکام کی پٹری پر ڈالا جاسکے۔

وزیر خزانہ نے بجٹ سیشن کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے اداروں جن میں پارلیمنٹ کے ملازمین، اے پی پی، ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی وژن، سی ڈی اے اور دیگر اداروں کے ملازمین شامل ہیں، کیلئے دو بنیادی تنخواہوں کے برابر اعزازیہ کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں وزارت خزانہ متعلقہ اداروں کے ساتھ تعاون کرے گی، اور اس کیلئے فنڈز فراہم ہوں گے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button