ویمن یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر کا ڈرامہ بے نقاب

ویمن یونیورسٹی کے ملازمین اور اساتذہ کی تنخواہیں روکنے کا ڈرامہ بے نقاب، پرو وائس چانسلر نے ٹی اے ڈی اے بلز پاس نہ ہونے وائس چانسلر اور آڈیٹرز میں جھگڑے کی کہانی پھیلادی، ویمن یونیورسٹی میں پرو وائس چانسلر کے ڈرامے نے انتظامی معاملات کے بعد معاشی بحران کو اور بھی گہرا کردیا، جس کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ ملازمین اور اساتذہ کی تنخواہیں تاخیر کا شکار ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وائس چانسلر ڈاکٹر فرخندہ اس وقت شدید علیل ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹی کے معاملات پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ دیکھ رہی ہیں، انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ریذیڈنٹ آڈیٹر اور وائس چانسلر ڈاکٹر فرخندہ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور تنخواہوں کابل پاس نہ ہونے کی وجہ سے تنخواہیں روک لی گئیں ہیں جبکہ حقیقت برعکس آر اے آفس نے 29 اپریل کثوتنخواہوں کا بل کلیئر کرکے خزانہ دار آفس میں جمع کروادیا اور ان کو چیک بنا کر بینک میں جمع کرانے کا کہنا کہ تاکہ بروقت تنخواہیں چل سکیں مگر پرو وائس چانسلر نے خزانہ دار کو تنخواہوں کا چیک جاری کرنے سے منع کردیا تاکہ تنخواہیں تاخیر کا شکار ہوں اور وائس چانسلر اور آڈیٹر پر دباؤ آجائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آڈیٹر نے پہلے بھی ڈاکٹر کلثوم کے کئی لاکھ کے ٹی اے ڈی اے کے بل خلاف قانون ہونے کی وجہ سے روک لئے تھے، اس بار بھی انہوں نے پرو وائس چانسلر کی طرف سے بھجوائے گئے بل روک لئے جن کو کلیئر کرانے کےلئے تنخواہیں روکنے کا ڈرامہ رچایا گیا جبکہ اس بابت وائس چانسلر کو بھی آگاہ نہیں کیا گیا۔
اس بابت پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کا کہنا ہے کہ تنخواہیں وائس چانسلر نے روکی ہیں جبکہ قانون کے مطابق تنخواہوں کے بل پر وائس چانسلر کے دستخط نہیں ہوتے، ان کی منظوری ضروری نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ تنخواہیں روک سکتیں ہیں۔
اس بارے میں ریذیڈنٹ آڈیٹر کاشف رضا نے دنیا کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے تنخواہیں کا بل کلیئر کردیا تھا قانون کے مطابق ملازمین کی تنخواہیں اور ضروری اخراجات کابل روکا ہی نہیں جاسکتا ، حتیٰ کہ وائس چانسلر بھی تنخواہیں روکنے کا استحقاق نہیں رکھتیں، کیس خزانہ دار آفس میں موجود ہے، تنخواہوں کا چیک کیوں جمع نہیں ہوا،اس کا جواب انتظامیہ دے سکتی ہے ۔
انہوں نے تصدیق کی کہ پرو وائس چانسلر کی غیر قانونی ٹی اے ڈی اے بلز پہلے بھی روکے تھے اور اب بھی روکے ہوئے ہیں، فنانس ڈیپارٹمنٹ کا مراسلہ ہے ہم یہ بلز پاس نہیں کرسکتے ، وائس چانسلر کے دستخط کے حوالے سے مراسلے کو غلط رنگ دیا جارہا ہے تاکہ اپنے مقاصد حاصل کئے جاسکیں، مگر کوئی غیر قانونی بلز پاس نہیں ہوگا۔