Paid ad
Breaking NewsEducationتازہ ترین

ویمن یونیورسٹی کے دو اور پی ایچ ڈی سکالرز کو ڈگری ایوارڈ

دی ویمن یونیورسٹی ملتان کے شعبہ زوالوجی کے دو پی ایچ ڈی سکالرز کو کامیاب مجلسی دفاع کے بعد ڈگری ایوارڈ کردی گئی۔

کنٹرولر امتحانات کے مطابق سکالر آمنہ مشتاق کے ریسرچ مقالے کا عنوان”پولی سسٹک اوورین سنڈروم کے ممکنہ خطرے کے عنصر اور جنوبی پنجاب پاکستان کی خواتین میں ہیوی میٹل/ٹریس عناصر کے اثرات پر مطالعہ” تھا ۔

اس موقع پر سکالر آمنہ مشتاق کا کہنا تھا کہ ‘پولی سسٹک اووری سنٹڈروم’ بنیادی طور پر اووری (بیضہ دانی) کی کوئی بیماری نہیںیہ مسئلہ دراصل میٹابولک یعنی غذا کے جزو بدن نہ بننے کا ہے۔
اس سنڈروم کا شکار خواتین میں بےقاعدہ ماہواری، چہرے اور جسم پر سخت اور غیر ضروری بال نکلنا، جلد پر موٹے دانے اور کیل مہاسے نکلنا، بالوں کا پتلا ہونا یا گرنا، تیزی سے وزن کا بڑھنا اور کم کرنے میں دشواری اور رحم پہ رسولیوں کے باعث بانجھ پن جیسی علامات عام ہیں۔ ‘گردن اور بغل کی جلد کا سیاہ پڑنا بھی پی سی او ایس کی ظاہری علامات میں سے ہے۔’پولی سسٹک اوورین سنڈروم ( پی سی او ایس) ایسی حالت ہے جو عورت کے ہارمون کی سطح کو متاثر کرتی ہے۔

پی سی او ایس والی خواتین نارمل ہارمونز کی معمول سے زیادہ مقدار پیدا کرتی ہیں۔پی سی او ایس چہرے اور جسم پر بالوں کی افزائش اور گنجا پن کا سبب بھی بنتا ہے۔ اور یہ طویل مدتی صحت کے مسائل جیسے ذیابیطس اور دل کی بیماریوں میں حصہ ڈال سکتا ہے۔

پولی سسٹک اووری سنڈروم’ کی دو بڑی وجوہات جینیات اور غیر صحتمندانہ و غیر فعال طرز زندگی ہیں۔دیکھنے میں آیا میں جنوبی پنجاب میں اس مرض کی شکار خواتین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی جس کےلئے شعوری مہم چلانا ضروری ہے ، اس ریسرچ میں ان تمام عوامل کا تذکرہ کیاگیا ہے جس کی وجہ سے یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے ۔

ا س موقع پر ڈاکٹر آسیہ بی بی ( چیئرپرسن شعبہ زوالوجی) نے کہا کہ آمنہ مشتاق نے ایک اہم مسئلہ پر کام کا کیا ہے کیونکہ خواتین کی بڑی تعداد کو اپنی اس بیماری کا بھی پتا نہیں ہوتا وہ اس کو معمول کی بیماری سمجھتے ہیں، جبکہ اس کے اثرات اس کی وجود ، جسمانی اعضا اور نفسیاتی طور پر بہت ہوتے ہیں۔
امید کرتے ہیں ان کی ریسرچ سے خواتین کے مسائل حل ہوں گے۔

علاوہ ازیں پی ایچ ڈی سکالر نازیہ حیدر کا پبلک ڈیفینس بھی متی تل کیمپس میں ہوا، ان کے ریسرچ مقالے کا عنوان”مقامی ہسپتال کی آبادی میں بار بار بے ساختہ اسقاط حمل میں ممکنہ خطرے کا عنصر” تھا۔

اس موقع پر سکالر نے بتایا کہ اچانک اسقاط حمل جیسے مس کیریج بھی کہتے ہیں، ایک سب سے زیادہ بار بار ہونے والی پریشانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو ایک عورت کو ابتدائی حمل کے دوران پیش آتی ہے جو عام طور پر کروموسومل اسامانیتاوں اور ہارمون کے مسائل سے ہوتی ہے، ماں بننے کی خواہشمند خاتون کی جتنی زیادہ عمر بڑھتی جائے گی، اس کے ایگز (بیضہ) پرانے اور کمزور ہوتے جائیں گے اور بیضے میں اس کمزوری اور کمی کے باعث بچہ ضائع ہونے کا امکان بڑھتا جائے گا۔خود بخود اسقاط حمل دنیا بھر کی خواتین میں عام منفی تولیدی نتائج میں سے ایک ہے، جو کہ ماں کی صحت کے فروغ کے لیے درپیش ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

اس موقع پر شرکا نے ان کی کارکردگی کو سراہا، اس موقع پر اساتذہ اور طالبات بھی موجود تھیں۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button