این ایف سی کے وائس چانسلر کے ریسرچ پیپرز پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا
این ایف سی انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان میں غیر قانونی کاموں کی بھرمار جاری ہے، اس کی بنیادی وجہ این ایف سی سینڈیکیٹ کا پاکستان کی تمام تر یونیورسٹیوں سے منفرد ہونا ہے۔
گزشتہ ہفتے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی سینڈیکیٹ کا اجلاس ہوا، جس میں عدالت عالیہ سے تعلق رکھنے والے معزز جج صاحب بھی موجود تھے، پبلک کا نمایندہ بھی موجود تھا، ریٹائرڈ جج صاحب بھی موجود تھے، ایچ ای سی کا نمایندہ بھی موجود تھا۔ الیکشن کے ذریعے آنے والے معزز پروفیسر حضرات بھی موجود تھے۔
مگر حیران کن طور پر این ایف سی یونیورسٹی ملتان کی سینڈیکیٹ ان افراد پر مشتمل ہے جن کی سالانہ رپورٹ خود وی سی کے ہاتھ میں ہے۔
چنانچہ یونیورسٹی کے تمام غیر قانونی کاموں کی منظورہ لینا غیر قانونی واءس چانسلر اختر کالرو کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماسوائے کنسٹرکشن کے وائس چانسلر اختر کالرو نے کوالٹی کی طرف توجہ ہی نہ دی۔ کیونکہ ان کا تعلق ریسرچ سے بہت کم ہے۔ ناجائز وائس چانسلر اختر کالرو اکثر اپنی رپورٹ میں اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ کہ جب انہوں نے یونیورسٹی جوائن کی تو اس وقت 4 ڈیپارٹمنٹ تھے جو کہ انہوں نے 34 کر دیے، مگر اس بات کا ذکر کہیں نہیں کیا جاتا کہ جو ڈیپارٹمنٹ بند ہوگئے وہ کتنے ہیں۔
گزشتہ سالوں میں بند ہونے والے ڈیپارٹمنٹس میں بی ایس سی انوائرمنٹل انجینئرنگ ، بی ایس سی انوائرمنٹل سائنسز، بی ایس سی انرجی انجینئرنگ ، بی ایس میتھ، مکینیکل ٹیکنالوجی ، الیکٹریکل ٹیکنالوجی ، کیمیکل ٹیکنالوجی ، سول ٹیکنالوجی شامل ہیں۔
2023 میں باقی ڈیپارٹمنٹس میں ایڈمیشن کی تعداد کچھ یوں ہے۔ الیکٹریکل انجینیرنگ ڈیپارٹمنٹ میں 120 سیٹوں میں سے صرف 80 ایڈمیشن ہوئے ، کیمیکل میں 120 سیٹوں پر 60 ایڈمیشن ، پیٹرولیم اینڈ گیس انجینئرنگ میں 40 میں سے صرف 14 ایڈمیشن ، فزکس میں 40 سیٹوں میں 22 ایڈمیشن ، کیمسٹری میں 40 سیٹوں میں 18 ایڈمیشن ہوئے ۔
یہ کارکردگی کسی بھی نا اہل اور ناجائز وائس چانسلر کی قابلیت کو ظاہر کرتی ہے۔ کسی بھی رئیس جامعہ کے لیے تعلیمی، ریسرچ، انتظامی امور کا تجربہ نہایت ضروری ہوتا ہے۔ مگر سفارش پر بھرتی ہونے والے وائس چانسلر جو کہ غیر قانونی ہیں کرسی چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہیں ۔ وائس چانسلر اختر کالرو کی ریسرچ قابلیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
گوگل سکالر کے مطابق این ایف سی یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر اختر کالرو جو کہ سول انجینئر ہیں کی تصدیق شدہ آئی ڈی کے مطابق ان کا پہلا پیپر 1981 میں پبلش ہوا جو کہ ذراعت سے متعلق تھا۔
دوسرا پیپر 1984 میں پبلش ہوا وہ بھی زراعت سے متعلق تھا اور ان کا نام پیپر کے مصنف میں چھٹے نمبر پر ہے۔
پھر 1999 میں لاہور کے 2 رسالوں میں 4 پیپر پبلش کیے جو کہ ایچ ای سی کیٹیگری میں ہی نہیں آتے۔
اس کے بعد 2000 میں پھر ایک پیپر یو ای ٹی ٹیکسلا کے جرنل میں پبلش کیا۔ اور 3 پیپر پھر لاہور کے 2 رسالوں میں شائع کیے۔
1999 اور 2000 میں شائع ہونے والے 8 پیپرز کا کوئی ریکارڈ آن لاین موجود ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد اگلا پیپر ٹیکسلا کے جرنل میں شائع کیا۔ اور حیران کن طور پر این ایف سی یونیورسٹی ملتان جوائن کرتے وقت یہ ریسرچ پیپر نہ ہونے کی بناء پر پروفیسر نہیں بن سکتے تھے مگر قواعد و ضوابط کو روندتے ہوئے سفارش پر وائس چانسلر تعینات ہو گئے، جس کا ذکر این ایف سی ہیڈ آفس نے خفیہ خط کے ذریعے وفاقی وزارت کو بھی آگاہ کیا اور 2012 میں ہی ناجائز وائس چانسلر اختر کالرو کی برخاستگی کی سفارش کی۔
2001 سے 2014 تک کوئی پیپر پبلش نہ کیا، اور 2015 میں 9 پیپر پبلش کیے۔ جس میں ایک پیپر کول اور بایو گیس سے متعلق تھا۔ جس کے پہلے مصنف ڈاکٹر صادق تھے اور دوسرے اختر کالرو جو کہ خود سول انجینئر ہیں۔
اس طرح ڈاکٹر صادق 2016 میں کیمیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی بن گئے، جبکہ ان سے پہلے 2011 میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر سلیم کو اس سے محروم رکھا گیا۔
2016 میں پھر 2 پیپر شایع کیے جس میں ایک کول اور بایو گیس سے تھا۔ اور اس میں مصنفوں کی لسٹ میں اختر کالرو کا چھٹا نمبر تھا۔ اس پیپر کے مصنف بھی ڈاکٹر صادق تھے۔ 2016 میں شایع ہونے والا دوسرا پیپر بایو فیول سیل سے متعلق تھا اور مصنفوں کی لسٹ میں اختر کالرو کا چھٹا نمبر ہے۔
2017 میں ایک پیپر میں مصنفوں میں اختر کالرو کا پانچواں نمبر جبکہ دوسرا پیپر کول اور بگاس سے متعلق تھا ۔ اس کے بعد 2017 میں اختر کالرو کو برخاست کر دیا گیا تو وہ اسٹے لے کر پھر براجمان ہو گئے ۔
2018 اور 2019 میں کوئی پیپر پبلش نہ کیا۔ 2020 میں شائع ہونے والے پیپر میں ان کا نام پانچواں تھا۔ 2021 میں ایک پیپر دہی ایسکریم کے موضوع پر تھا۔ جبکہ دوسرے پیپر میں ان کا نام پانچویں نمبر پر تھا۔ جبکہ تیسرے پیپر میں مصنفوں میں ان کا تیسرا نمبر تھا۔
یاد رہے کہ ناجائز وائس چانسلر اختر کالرو ایک سول انجینئر ہیں۔