ویمن یونیورسٹی: ‘جنگ اور مسلح تصادم میں ماحول کے استحصال کی روک تھام’ کا عالمی دن منایا گیا
ویمن یونیورسٹی ملتان کے شعبہ سیاسیات اور انٹرنیشنل ریلیشن کے زیر ”اہتمام جنگ اور مسلح تصادم میں ماحول کے استحصال کی روک تھام” کا عالمی دن منایا گیا، اس کا مقصد ماحول پر جنگ اور مسلح تصادم کے نقصان دہ اثرات سے آگاہ کرنا تھا۔
اس سلسلے میں ایک تقریب منعقد ہوئی، جس کی مہمان خصوصی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ تھیں، جبکہ مہمان اعزاز رجسٹرار میمونہ خان تھیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے کہا کہ ہر لمحہ دنیا کے مختلف حصوں میں جنگ و جدل کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جان و مال کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس دوران قدرتی وسائل جیسے جنگلات، مختلف قسم کے جانور، پانی کے ذرائع اور زرخیز زمینیں بڑے پیمانے پر تباہ ہو جاتی ہیں۔ اس سب کے تحفظ کے لیے جنگ اور مسلح تصادم میں ماحول کے استحصال کو روکنے کے لیے عالمی دن منایا جاتا ہے۔جنگ انسانی ہی نہیں قدرت کے تخلیق کردہ نظام یعنی ماحولیات کی تباہی کا سبب بھی بنتی ہے ۔
فلسطین میں جاری جنگ سے اب تک ہزاروں انسان مرچکے ہیں گھروں ، ہسپتالوں کو ملیامیٹ کردیا گیا، اسی طرح شامی جنگ میں صرف 3 سال کے دوران ایک تہائی گھر تباہ ہو گئےش جس کے ملبے سے دیگر ماحولیاتی مسائل کے علاوہ کینسر کے بھی شدید خطرات ہیں۔
ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر دہشت گرد حملوں کے وقت عمارت کے اردگرد موجود ایک ہزار سے زائد افراد میں کینسر کی تشخیص ہوئی ۔
اگرچہ بنی نوع انسان نے ہمیشہ اپنی جنگی ہلاکتوں کو ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں اور شہریوں، تباہ شدہ شہروں اور معاش کے لحاظ سے شمار کیا ہے، لیکن ماحول اکثر جنگ کا غیر اعلانیہ شکار رہا ہے۔
پانی کے کنویں آلودہ ہو چکے ہیں، فصلوں کو نذر آتش کر دیا گیا ہے، جنگلات کاٹ دیے گئے ہیں، مٹی کو زہر آلود کر دیا گیا ہے، اور فوجی فائدہ حاصل کرنے کے لیے جانور مار دیئے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ اس بات کو یقینی بنانے کو بہت اہمیت دیتی ہے کہ ماحولیات پر کارروائی تنازعات کی روک تھام، قیام امن اور قیام امن کی حکمت عملیوں کا حصہ ہے، کیونکہ اگر قدرتی وسائل جو معاش اور ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھتے ہیں تباہ ہو جائیں تو کوئی پائیدار امن نہیں ہو سکتا۔
رجسٹرار میمونہ خان نے کہاکہ جنگ اور مسلح تصادم کے قدرتی ماحول پر بہت سے نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں، فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، پانی کی فراہمی زہر آلود ہو جاتی ہے اور جنگلات جل جاتے ہیں۔
نئی ٹیکنالوجی جو جنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہےاس سے ماحول کی تباہی اور نقصان زیادہ سنگین ہے اور اس کے طویل مدتی نتائج بدتر ہو سکتے ہیں۔
اس موقع پر ڈاکٹر اسماء اکبر( چیئرپرسن سیاسیات اور انٹرنیشنل ریلیشن) نے بھی اس دن کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر اسماء اکبر نے کہا کہ2001 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہر سال 6 نومبر کو جنگ اور مسلح تصادم میں ماحولیات کے استحصال کی روک تھام کا عالمی دن قرار دیا، اسمبلی نے اس بات پر غور کیا کہ مسلح تصادم کے دوران ماحولیاتی نقصانات تنازعات کی مدت کے طویل عرصے بعد ماحولیاتی نظام اور قدرتی وسائل کو نقصان پہنچاتے ہیں، یہ نقصان اکثر قومی علاقوں اور آج کی نسل کی حدود سے آگے بڑھ سکتا ہے۔
یہ تقریب بھی اس آگاہی مہم کا حصہ ہے کس طرح جنگ میں ماحول کو بچایا جاسکتا ہے، اور کس طرح تنازعات کی وجہ سے ہونے والی ماحولیاتی تباہی کو محدود کرنے کے لیے تمام کوششیں کی جانی چاہئیں۔
اس موقع پر طالبات کے درمیان تقریری اور پوسٹ مقابلے کا اہتمام کیا گیا اور آخر میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ اور رجسٹرار ڈاکٹر میمونہ خان نے شجر کاری مہم کا افتتاح کیا۔
تقریب میں تمام شعبوں کی چیئرپرسنز اور طالبات بھی موجود تھیں ۔