خواہش ہے عام آدمی پر بوجھ نہ ڈالیں، لیکن آئی ایم ایف کچھ اور چاہتا ہے : وزیر مملکت خزانہ
اسلام آباد : وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا ہےکہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی چاہتے ہیں اور حکومت کی خواہش ہے عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہ پڑے، لیکن آئی ایم ایف ہمیں دوسری طرف لے جانا چاہتا ہے لہٰذا پروگرام میں جانے کے لیے آئی ایم ایف کی تمام باتیں ماننا پڑیں تو مان لیں گے، سخت فیصلے بھی لینا پڑے تو لیں گے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں غیرمعمولی صورتحال ہے، اور ملک کو درپیش مسئلے کا حل ہمیں مل کر نکالنا ہوگا، یہ توقع نہ رکھیں کہ کاروبار پہلے کی طرح معمول کے مطابق چلے گا، ہم اس وقت کرائسز میں چل رہے ہیں، جس طرح ہم چل رہے ہیں ایسے نہیں چل سکتا، ہرکوئی اپنے حلقے کوبچانے کی بات کرتا ہے اور پاکستان کی نہیں، اکیلے پاکستان کی مشکل نہیں بلکہ اور بھی ممالک بھی مشکل میں ہیں۔
وزیر مملکت نے کہا کہ فوڈ، انرجی، فارما، برآمدی صعنت اور زراعت کے شعبے کی ایل سیز نہیں روکیں، اسٹیٹ بینک بتارہا ہے کہ بینکوں کی کلوز مانیٹرنگ کی جارہی ہے، اور بینک ضروری شعبوں کی ایل سیز کھولنے کے پابند ہیں جب کہ آپ کی ایل سیلز نہ کھلنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک ڈیفالٹ کرگیا۔
عائشہ غوث پاشا نے مزید کہا کہ پریشان حال ضرور ہیں مگر ہمارے پاس پلان موجود ہیں، ہم آئی ایم ایف کو انگیج کررہے ہیں، وہ مانیٹرنگ ادارے ہیں جہاں سے ڈالرز آئیں گے، یہ مت سوچیں کہ حکومت کو کچھ پتا نہیں ہے، حکومت کو سب پتا ہے، یہ نہ کہیں ہم نے کرائسز مینجمنٹ نہیں کی۔
اس موقع پر ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ سال 17.4 فیصد تھا، ہم نے سکوک، نجی سیکٹر اور دیگر پیمنٹ کی ہیں، ہم ڈیفالٹ نہیں ہونے دے رہے اور نہ ہونے دیں گے۔
دوسری جانب میڈیا سے بات چیت میں عائشہ غوث پاشاہ نے کہا کہ چاہتے ہیں آئی ایم ایف پروگرام جلد بحال ہو جائے، اور اس کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی چل رہے ہیں، ایکسچینج آف نوٹس ہورہے ہیں اور ورچوئل بات چیت بھی چل رہی ہے، آئی ایم ایف کے معاملے پرکل اسٹیٹ بینک کے ساتھ اجلاس بھی ہوا، اب چاہتے ہیں یہ معاملہ تیزی سے آگے بڑھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے بہت سارے تحفظات دور کیے ہیں ہم پروگرام کی بحالی چاہتے ہیں، حکومت کی خواہش ہے عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور کوشش ہےکہ صاحب ثروت لوگوں پر زیادہ بوجھ ڈالا جائے لیکن آئی ایم ایف ہمیں دوسری طرف لے جانا چاہتا ہے، پروگرام میں جانے کے لیے آئی ایم ایف کی تمام باتیں ماننا پڑیں تو مان لیں گے، سخت فیصلے بھی لینا پڑے تو لیں گے۔