ویمن یونیورسٹی ملتان میں تین روزہ تیسری انٹرنیشنل کانفرنس اختتام پذیر
شعبہ انگریزی کے زیر اہتمام سالانہ تین روزہ انٹرنیشنل کانفرنس اختتام پذیر ہوگئی، رواں برس اس کا عنوان’’ لسانیات اور کثیر الضابطہ تحقیق 2024‘‘رکھا گیا تھا۔
آخری روز ٹیکنکل سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے کہا کہ قدیم اور مردہ زبانوں کے رسم الخط اور ادب کی تفہیم بھی لسانیات کی مدد سے ممکن ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ جن زبانوں کا اپنا کوئی رسم الخط نہیں ‘لسانیات انھیں رسم الخط بھی عطا کرتی ہے اور موجودہ رسم الخط میں موجود خامیوں کو دور کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔لسانیات ایسے نشانات وضع کرتی ہے جن کی مدد سے عبارت کو دوسری زبان میں آسانی سے لکھا جاسکتاہے۔
اس طرح ہر زبان اب حقیقی تلفظ کے ساتھ لکھی جاسکتی ہے زبانوں کے فروغ کےلئے شعبہ انگریزی کی کاوشیں قابل ستائش ہیں، یہ کانفرنس اب ویمن یونیورسٹی کی پہنچان بن گئی ہے زبان وبیان کے حوالے سے جو ریسرچ پیپر پیش کئے گئے وہ معیاری اور معلومات کا نیا جہان بساتے ہیں امید ہے کہ مستقبل قریب میں یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ماہر لسانیات پروفیسر ڈاکٹر ضیا ڈوگر کا کہنا تھا کہ لسانی وادبی تحقیق میں مخطوطات کا زمانی تعین بہت اہمیت رکھتاہے، لسانیات کے بعض اصولوں کی مدد سے مخطوطات کے زمانی تعین میں بھی مدد ملتی ہے اور اس کی مدد سے ایسے قواعد بھی بنائے جارہے ہیں جن کے ذریعے کسی دوسری زبان کو بہت کم عرصہ میں سیکھا جا سکتا ہے، لسانیات کا دوسرے انسانی علوم کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے۔جن میں تاریخ‘فلسفہ‘ سماجیات‘ فسیات‘حیاتیات‘جغرافیہ اور کمپیوٹر سائنس وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
اس طرح لسانیات کا سماج سے براہِ راست تعلق قائم ہو جاتا ہے۔سماج کی رعایت سے جب ہم زبان کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ سماجی لسانیات کا موضوع بن جاتاہے۔زبان کے مطالعے میں بولنے والوں کی نفسیات بہت اہمیت رکھتی ہے، سماجی لسانیات میں زبان کا مطالعہ سماجی سیاق میں کیا جاتا ہے۔اسے زبان کی سماجیات بھی کہا جاتا ہے سماجی لسانیات کے موضوع اتنے ہی متنوع ہوں گے لسانیاتی تحقیق کے حوالے سے حقیقت پسندی کا دامن چھوڑنا مناسب نہیں، اس ضمن میں مشینوں کے استعمال کے حوالے سے زیادہ تخیلاتی منصوبے بنانا بھی درست نہیں ہے۔ سائنس فکشن کی وہ دنیا جہاں روبوٹ انسانوں کے سوالات کے جواب دیتا ہے ‘ابھی حقیقت سے کافی دور ہے۔ اس حوالے سے گفتگو کے اجزا کو مرتب کرنے کیے لیے تکنیکی سہولیات کا فقدان ہے حتیٰ کہ ہم کمپیوٹر کو بلند آواز میں ہدایات دے کے اس سے کام کروانے کے منصوبے کوبھی مکمل طور پر عملی جامہ نہیں پہنا سکے، اس لیے ہمیں لسانی تصورات کو قبل از وقت دوسری چیزوں پر لاگو کرنے کے سلسلے میں احتیاط برتنی چاہیے۔
فوکل پرسن پروفیسر ڈاکٹر میمونہ خان نے خطاب کرتے ہوئے کہ یہ کانفرنس اب ہماری یونیورسٹی کے مستقل کلینڈر کا حصہ بن چکی ہے، جس کی وسعت بڑھتی جارہی ہے خوشی ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے شرکا کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور معیاری ریسرچ سامنے آرہی ہے، ویمن یونیورسٹی اپنی طالبات کےلئے ہر وہ قدم اٹھا رہی ہے جو ان کو معاشرے میں مضبوط کرسکے، طالبات انٹرپرینور بن رہی ہیں، انڈسٹری کے ساتھ روابط بڑھا رہے ہیں تاکہ انڈسٹری ڈیمانڈ کے مطابق کورسز کروائے جاسکیں اور طالبات پر روزگار کے دروازے کھل سکیں۔
اس تین روزہ کانفرنس میں 95 مقالے پیش کیے گئے، اختتامی تقریب میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے شرکا میں سرٹیفکیٹس اور سوینئر تقسیم کئے گئے۔