پرویز الٰہی کو ہٹانے کے نوٹیفکیشن کیخلاف حکم امتناع میں ایک دن کی توسیع
لاہور ہائیکورٹ نے پرویز الٰہی کی وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف درخواست پر سماعت کل 12جنوری تک ملتوی کر دی ، اور ان کو ہٹانے کے نوٹیفکیشن کے خلاف حکم امتناع میں ایک دن کی توسیع کر دی۔
لاہورہائیکورٹ کے 5 رکنی بنچ نےپرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کی، گورنر کے وکیل نے عدالت کوبتایا کہ عدالت نے 17دن کا وقت دیا تھا مگر وزیر اعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ آخر میں تو وزیر اعلیٰ کا فیصلہ اراکین نے ہی کرنا ہے، عدالت اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت دے سکتی ہے۔
پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وہ اس قانونی نکتے پر دلائل دیں گے۔
جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعلیٰ کے پاس 24 گھنٹے 186 ارکان کی حمایت ہونی چاہیے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کا گورنر کے کہنے پر ووٹ لینا ضروری ہے۔
جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے کہ کوئی فریق بھی نمبرز کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں، سب سوچ رہے ہیں کہ پہلے جو کرے گا وہی بھرے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پرویز الٰہی نے مناسب وقت کا نکتہ اٹھایا لیکن اب معاملہ مناسب وقت سے باہر آ چکا ہے، اعتماد کا ووٹ لینے سے وزیر اعلیٰ کو کسی نے نہیں روکا تھا۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر اتفاق رائے نہیں ہے تو عدالت اس کا میرٹ پر فیصلہ کرےگی۔
اس پر بیرسٹر علی ظفر نےکہاکہ وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن ہوا تو تحریک عدم اعتماد بھی واپس لے کر ایک سیاسی گیم کھیلی گئی، گورنر اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتا ہے لیکن اجلاس کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار اسپیکر کو ہے، اسپیکر پہلے سے اجلاس کر رہے ہیں،اسپیکر کے اجلاس نہ بلانے پر وزیر اعلیٰ کو سزا نہیں دی جا سکتی۔
جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت گورنر اور اسپیکر غیر جانبدار ہوتے ہیں مگر یہاں گورنر اور اسپیکر جماعتوں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اسپیکر الگ تاریخ دے سکتا تھا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے میں کوئی دقت نہیں لیکن بات اصول کی ہے۔
عدالت نے وقت ختم ہونے پر سماعت جمعرات12جنوری تک ملتوی کر دی ہے ، اور حکم امتناع میں ایک روز کی توسیع کردی، جبکہ پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر 12جنوری کو دلائل جاری رکھیں گے۔