ویمن یونیورسٹی میں کرپشن کی گونج؛ وائس چانسلر ان ایکشن، خزانہ دار کو او ایس ڈی بنا دیا گیا
ویمن یونیورسٹی کے خزانہ دار پر کرپشن کے الزامات سامنے آئے ہیں، جس پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے فوری مداخلت کرتے ہوئے 5 کروڑ روپے کے مہنگے کمپیوٹر خریدنے کا کیس پکڑا لیا۔
مقامی اخبار کے مطابق ویمن یونیورسٹی ملتان کے تین شعبوں ماس کمیونیکشن ، فارمیسی اور کمپیوٹر سائنس کےلئے ایچ ای سی کی طرف سے فراہم کردہ فنڈز میں سے 145 کمپیوٹر خریدے جانے تھے اس منصوبے کے پی سی ون کے تحت دو کیٹگری کے کمپیوٹر خریدے جانے تھے جس میں ایک ریٹ ایک لاکھ اور دوسرے کا ایک لاکھ 70 ہزار روپے تھا، اس خریداری کی منظوری اس پی سی ون کی مقررہ کمیٹی سے لینا ضروری تھا مگر خزانہ دار ریحان قادر نے کمیٹی سے منظوری کے بغیر ٹینڈر جاری کردیا اور اس میں کمپیوٹرز کے ریٹ دولاکھ 80 ہزار اور دوسری کیٹگری کے کاریٹ تین لاکھ 30 ہزار تک کردیا، خزانہ دار ریحان نے بات یہاں تک محدود نہ رکھی بلکہ سپلائی ارڈر بھی جاری کردیا۔
مقررہ فرم نے جس کی ڈیلوری کردی تومعلوم ہوا پی سی ون کے بر خلاف 13جنریشن کمپیوٹر خرید لئے گئے جن کی ضرورت نہیں تھی، اطلاع ملنے پر ایچ ای سی متحرک ہوگیا تو خزانہ دار نے حقیقت نہ بتائی کہ مال پہنچ چکا ہے اور یہ بھی نہ بتایا کہ اس کا سپلائی آرڈر بھی جاری کیا گیا ہے۔
ایچ ای سی نے فوری طور پر ٹینڈر منسوخ کرنے احکامات جاری کردیے کہ ایسے ہیوی کمپیوٹرز کی ضرورت نہیں کیونکہ ان شعبوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی کلاسز نہیں ہوتیں۔
اس مراسلے کے بعد بھی ایچ ای سی کو حقائق نہیں بتائے گئے، ریحان نے یونیورسٹی کے فنڈز سے 5 کروڑ کی ادائیگی کی کوشش کی تو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور معاملہ ایف اینڈ پی سی کے اجلاس میں لے گئیں، جہاں ایچ ای سی کی نمائندہ مسز ثمینہ نے اس ایجنڈے پر سٹینڈ لے لیا کہ یہ فراڈ ہو رہا ہے، یہ ایچ ای سی کا پراجیکٹ ہے، یونیورسٹی کے فنڈز سے یہ ادائیگی کیوں کی جارہی ہے، جس پر ادائیگی روک دی گئی اور ایک کمیٹی بنادی گئی، جس کے سربراہ چیئرمین بورڈ تھے۔
ایچ سی سی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کمیٹی کو اپروچ کرکے خزانہ دار نے اپنی مرضی کا فیصلہ کرایا، خریداری کو قانون کے مطابق قرار دےدیا گیا، اس کمیٹی کی رپورٹ پر ایچ ای سی حکام شدید براہم ہوئے اور کہا گیا کہ اگرچہ اس خریداری کو قانونی بنانے کی کوشش کی گئی ہے مگر یہ پراجیکٹ ایچ ای سی کا تھا اس کو حقائق سے بے خبر کیوں رکھا گیا اور پی سی ون سے ہٹ کر خریداری کرنے کی کوشش کیوں کی گئی۔
یونیورسٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ریحان قادر دراصل خود ہی اسسٹنٹ پرچیزر ہے، اس لئے خود ہی سپلائی آرڈر جاری کئے اور بطور خزانہ دار خود ہی ادائیگی کرنے کی کوشش کی، جس پر ایچ ای سی نے ایکشن لیا ۔
دوسری طر ف وائس چانسلر نے معاملات سامنے آنے پر خزانہ دار ریحان کو عہدے سے ہٹا دیا اور ان کو او ایس ڈی بنا کر رجسٹرار آفس رپورٹ کرنے کی ہدایت کردی ہے، جاری مراسلے میں کہا گیاہے کہ کمپیوٹر خریدنے کے معاملے کی شفاف انکوائری تک وہ بطور خزانہ دار کام نہیں کرسکتے اور رجسٹرار کو رپورٹ کریں۔
اس بارے میں سید ریحان قادر کا کہنا ہے کہ یہ سب افواہیں ہیں جب ہم نے اپنے ریسوسز سے خریداری کرنی ہے تو ایچ ای سی کو آگاہ کرنا ضروری نہیں ہے، ایک پروب کمیٹی نے سارے معاملے کا جائزہ لیکر نیب کے قوانین کے مطابق کلیئر کردیا ہے، میرے ہاتھ صاف ہیں یہ سب مجھے خراب کرنے کی کوشش ہے ۔