معاشرتی مسائل پر قابو پانے کے لیے ہم سب کو مل کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے: امریکن سوشلسٹ اریتا ویس
شعبہ سوشیالوجی بہاء الدین زکریایونیورسٹی ملتان کے زیراہتمام دو روزہ انٹرنیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکن سوشلسٹ اریتا ویس نے کہاہے کہ معاشرتی مسائل پر قابو پانے کے لیے ہم سب کو مل کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
جبکہ روزمرہ کے سماجی مسائل کے خاتمے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مثبت سوچ کے ساتھ ایسے اقدامات کیے جائیں جس کے دور رس نتائج برآمد ہوں۔
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتا ن میں شعبہ سوشیالوجی کے زیراہتمام دو روزہ انٹرنیشنل کانفرنس کانٹمپریری اشوز ان سوشیالوجی اینڈ پبلک ہیلتھ ( کانفرنس برائے موجودہ معاشرتی اور عوامی صحت کے مسائل )کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ۔
امریکن سوشلسٹ اریتا ویس کا مزید کہنا تھا کہ مشرق اور مغرب میں معاشرتی مسائل ایک جیسے ہیں اور کوئی معاشرہ ایسا نہیں ہے جو بنیادی مسائل سے عاری ہو۔
انہوں نے کہاکہ مشاہدے کی بات ہے کہ زیادہ تر مسائل ہمارے اپنے پیدا کیے ہوئے ہیں اور اس کا حل ہم دوسروں سے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہو ںنے کہاکہ خواتین پر تشدد اور خواتین کے دیگر اشوز جس تیزی کے ساتھ ابھر کر سامنے آرہے ہیں یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایجوکیشن کو عام کیاجائے اور بچہ بچہ تعلیم یافتہ ہو جبکہ ریسرچر اور سکالرز پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرتی مسائل کے حل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ جائیں۔
اور ایک پر امن معاشرہ کی تشکیل کے لیے تجاویز پیش کریں اور مسائل کے ممکنہ حل کی طرف مل کر چلیں۔
وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور ڈاکٹر اطہر محبوب نے کہاکہ شعبہ سوشیالوجی میں جس اہم موضوع پر کانفرنس کا انعقاد کیا ہے، وہ قابل ستائش ہے انہو ںنے مزید کہاکہ معاشرتی مسائل کے حل کے لیے ہر فرد کو سوچ میں تبدیلی میں لانا ہے۔ تاکہ ہم ایک پرامن اور مہذب معاشرے کو فروغ دے سکیں۔
وائس چانسلر خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک ڈاکٹر جوہر علی خان نے کہاکہ کسی بھی معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاشی اور سماجی طور پر مضبوط ہو۔
انہوں نے مزید کہاکہ ضرورت اس چیز کی ہے کہ ہر فرد اپنی جگہ پر مثبت سوچ کے ساتھ اپنا کردار ادا کرے جبکہ ہمارے سوشلسٹ سکالرز کو چاہیے کہ وہ اپنے ریسرچ پیپر اپنی قومی زبان میں شائع کریں۔
بہاء الدین زکریایونیوسٹی کے پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر علیم احمد خان نے کہاکہ سماجی و معاشرتی مسائل سمیت تمام مسائل کا حل دین اسلام میں ہے۔ انہو ںنے کہا کہ بدقسمتی سے ہم سب اپنے مذہب اور دین کی تعلیمات سے دور ہوچکے ہیں اور اپنے سماج کے مسائل کا حل سوشل میڈیا یا ویسٹرن میڈیا پر تلاش کررہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
انہو ںنے کہاکہ نوجوان نسل قرآنی تعلیمات کو سمجھے اور ان پر عمل کرے تو کسی بھی طور کسی مسئلے کا ہم شکار نہیں ہوں گے۔
انہو ںنے مزید کہاکہ نبی پاک ﷺ کی زندگی ہم سب کے لیے نمونہ حیات ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نبی پاکﷺ کی تعلیمات کو اپنے زندگیوں کا خاصہ بنالیں اور ایک پرامن زندگی گزاریں۔
سابق وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر محمد علی شاہ نے کہاکہ بد قسمتی سے پاکستان سیاسی و معاشی اور سیکورٹی کے حوالے عدم استحکام کا شکار ہے جبکہ معاشرے نے عورتوں کو وہ حقوق نہیں دیے جن کی وہ حق دار تھیں۔ انہو ںنے کہاکہ ہر فرد کو دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا۔
تب ہی ہم ایک مثالی معاشرہ قائم کرسکتے ہیں۔قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حاضر اللہ نے کہاکہ جینڈر کی تقسیم معاشرے کی تقسیم میں ایک ناسور کی طور پر سامنے آئی ہے ہم سب کو مردوں اور عورتوں کے حقوق مساوی طور پر دینے کی ضرورت ہے، انہو ںنے کہاکہ پاکستان میں عورتوں پر تشدد ایک عام سی بات تصور کی جاتی ہے اور 63 ہزار خواتین پر زہنی و جسمانی تشدد کیاگیا اور ایک سال میں چار ہزار خواتین ماری گئیں۔
انہو ںنے کہاکہ ان سب مسائل کا حل تعلیم میں مضمر ہے پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر احمد عثمان نے کہاکہ ہم اپنے مسائل کا حل مغرب سے تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جبکہ سب مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ انہو ںنے کہا کہ جو مسائل ہم خود پیدا کرتے ہیں تو پھر ان کا حل بھی ہم مل کر تلاش کرسکتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رانا ملک نے کہاکہ کم عمری کی شادیاں اور ہر جگہ پر خواتین کی ہراسمنٹ ایک سب سے بڑا سماجی اورمعاشرتی مسئلہ ہے جس کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جارہے ہیں لیکن وہ ناکافی ہیں۔
انہو ںنے مزید کہاکہ بدقسمتی سے عورتوں کو اس قدر مجبور کردیاگیاہے کہ وہ گھروں تک محدود ہوجائیں اور پڑھ لکھ کر بھی وہ مثبت معاشرے کا حصہ نہیں بن سکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ مردوں اور عورتوں کو مل کر مہذب معاشرہ تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے۔
انٹرنیشنل کانفرنس سے چیئرمین شعبہ سوشیالوجی بہاء الدین زکریایونیورسٹی ڈاکٹر کامران اشفاق نے کہاکہ بہاء الدین زکریایونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹرمنصو راکبر کنڈی کی کاوشوں سے یہ کوشش کی کہ دنیا بھر سمیت پاکستان سے سکالرز کو ایک جگہ پر مدعو کیا تاکہ وہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے معاشرتی مسائل کا حل بتا سکیں اور میں توقع کرتا ہوں کہ دو رزہ کانفرنس کے انعقاد سے ہم یقینا اپنے سماجی مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
انہوں نے بیرون ملک اور پاکستان سے بھر سے آنے والے ریسرچ سکالر ز کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ ایسی کانفرنسز کے انعقاد کے عزم کا اظہار کیا۔
کانفرنس سے ڈاکٹر نظام الدین، ڈاکٹر تہمینہ سردار ، ڈاکٹر امتیاز وڑائچ ، ڈاکٹر صائمہ افضل، پروفیسر ڈاکٹر عمر فاروق زین ، ڈاکٹر تہمینہ ستار، محمد آصف، زہرا سجاد زیدی و دیگر نے بھی خطاب کیا جبکہ امریکہ سے آن لائن ڈاکٹر بلقیس خان نے خطاب کیا ، اور ساؤتھ کوریا سے ڈاکٹر ہی سی لی نے اور ملائیشیاء نورا سوارا محمدیہ نے آن لائن خطاب کیا، اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے اہم تجاویز پیش کیں۔
کانفرنس میں فیکلٹی ممبران سمیت طلباء طالبات کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔
کانفرنس کے افتتاحی سیشن کے بعد بعدازاں ٹیکنیکل سیشن میں مندوبین نے اپنے اپنے ریسرچ پیپرز پیش کیے۔
انٹرنیشنل کانفرنس آج 26 نومبر کو اختتام پذیر ہوگی۔