Paid ad
Breaking Newsآپ کی تحریریںتازہ ترین

ارواح کا بیماری سے تعلق اور حل

تحریر: کنول ناصر

ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں جسے انسانی ترقی اور ٹیکنالوجی کے عروج کے دور کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انسانی زندگی کو بہتر اور اسان بنانے کیلئے آئے روز نت نئی ایجادات اور تحقیقات ہوتی ہیں جو عقل کو حیران کر دیتی ہیں۔ اگرچہ بظاہر انسان کی زندگی میں بہتری آئی ہے مگر بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اس کا سکون ختم ہو گیا ہے۔ ہر گھر میں دو یا تین شوگر، بلڈ پریشر، یورک ایسڈ، تھائیرائیڈ اور دمے جیسی بیماریوں کے مریض ہیں، جن کی کثیر مقدار میں دوائیں استعمال کرنے کے باوجود میڈیکل سائنس صحت یابی کی کوئی امید نہیں دلاتی بلکہ بسا اوقات ایک بیماری کے علاج کے لئے استعمال ہونے والی دوا کے سائیڈ ایفیکٹس سے کوئی نیا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ لہذا مریض اور ان کے لواحقین ایک مستقل اذیت اور تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔

دوسری جانب جب ہم کلام پاک اور احادیث کی جانب آتے ہیں تو ہمیں یہ امید ملتی ہے

” مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلاَّ أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً” : اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کا علاج نہ اتارا ہو۔(سنین ابن ماجہ حدیث نمبر: 3436)

اور یہ صرف تسلی نہیں ہے بلکہ وہ عرصہ جو مسلمانوں کی علمی ترقی کا سنہری دور کہلاتا ہے میں مسلمان حکماء مثلا رازی، ابن الہشم اور بو علی سینا نے انتہائی معاملہ فہمی سے ان بیماریوں کا کامیاب علاج کیا ہے، جنہیں آج کی میڈیکل سائنس کلی طور پر لاعلاج اور ہمیشہ رہنے والی قرار دے چکی ہے۔

اصل وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں پیدا کیا ہے اور انبیاء کرام کے ذریعے مختلف زمانوں میں جو احکامات نازل کیے ہیں ان کا مقصد انسان کی فلاح اور اسے مصیبت و مشقت سے بچانا ہے، خصوصا اسلام کو رہتی دنیا کے لئے "دین فطرت ” کہا گیا ہے، لہذا وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے ہم اللہ کے احکامات سے دور ہوتے گئے اور زندگی گزارنے کے لئے سائنسی علوم کا سہارا لینے لگے تو در حقیقت فطرت اور فطری طرز زندگی سے دور ہوتے گئے جس کے باعث انجانے میں ہمارے مصائب اور مسائل بڑھتے چلے گئے ۔

سورہ الشورى میں فرمان باری تعالٰی ہے:
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍﭤ(30)
اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تووہ معاف فرمادیتا ہے۔

لہذا میری سابقہ تمام تحاریر کا مقصد اسی طرف لانا ہے کہ جو بھی مصیبت انسان پر آتی ہے، بشمول بیماری کے اس ذمہ دار انسان کا اپنا کوئی نہ کوئی غلط طرز عمل ہوتا ہے ۔
کیونکہ اللہ تعالٰی نے واضح کر دیا ہے کہ مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ ۖ وَمَنْ اَسَآءَ فَعَلَيْـهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ (فضلت 46)جو کوئی نیک کام کرتا ہے تو اپنے لیے، اور برائی کرتا ہے تو اپنے سر پر، اور آپ کا رب تو بندوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرت چنانچہ اگر ہم چاہیں تو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر اور مضبوط قوت ارادی کے ذریعے اپنے اس غلط طرز عمل کی اصلاح کرکے اپنے مصائب اور تکالیف سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔

اپنی گزشتہ تحریر میں، میں نے قران و حدیث کی روشنی میں وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شیطانی ارواح یا ارواح خبیثہ ان لوگوں پر بیماری یا مصیبت لانے کا باعث بنتی ہیں، جن میں بنیادی طور پر وہ وصف پیدا ہو جائے جس نے شیطان کو راندہ درگاہ بنایا تھا یعنی اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر اور دوسروں کو کمتر سمجھ کر VIP سلوک کی توقع کرنا یعنی عجب مزید یہ خصوصیت ان لوگوں میں پیدا ہوتی ہے جن میں ( قرآن کے مطابق ) یہ چار خصوصیات یعنی جھوٹ، اللہ کے ذکر سے دل چرانا، آخرت پر کمزور ایمان یا ایمان بالکل ہی نہ ہونا ( یعنی دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ لینا اور اس کے حصول کے لئے ہر جائز و ناجائز عمل بلا جھجھک کرنا ) اور نا شکری یا اللہ کی تقسیم سے راضی نہ ہونا موجود ہوں ۔

اس میکنزم کو سمجھنے کے لیے انجیل کی یہ آیت دیکھیں

"خُداوند نے یہ ظاہر کرنے کے لیے ایک بد روح بھیجی کہ اُس نے ساؤل کو بادشاہ کے طور پر رد کر دیا ہے۔ شیطانی روح نے ساؤل کو غصہ اور مایوسی کا تجربہ کیا: "اب خداوند کی روح نے ساؤل کو چھوڑ دیا تھا، اور خداوند نے ایک اذیت دینے والی روح بھیجی جس نے اسے افسردگی اور خوف سے بھر دیا۔ ساؤل کے کچھ نوکروں نے اس سے کہا، ‘خدا کی طرف سے ایک اذیت ناک روح تمہیں پریشان کر رہی ہے'” ( 1 سموئیل 16:14-15، NLT )۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بری یا شیطانی ارواح کا انسانی اٹانومی سے تعلق کس طرح بنتا ہے؟

اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ایک طرف تو جو غذا استعمال کرتے ہیں اس کے ہماری شخصیت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسی سے ہمارے مزاج کی تشکیل ہوتی ہے۔ ” انفرادی علاج کے لوازم ” میں تفصیل سے انسان کے چار طرح کے مزاجوں humerus یعنی صفراوی، دموی، بلغمی اور سوداوی کی خصوصیات کی وضاحت موجود ہے۔ ہر انسان کے الگ الگ مزاج کے علاوہ جسم کے تمام اعضاء کا الگ الگ مزاج ہوتا ہے کوئی خشک ہوتا ہے، کوئی تر، کوئی گرم تو کوئی سرد۔

لہذا صحت یہی ہے کہ ان سب اعضاء کا مزاج برقرار رہے اور اسی کا نام توازن ہے۔ جب ہم غیر متوازن غذا استعمال کرتے ہیں جس کے باعث کسی ایک مزاج کا غلبہ ہو جاتا ہے ایسی صورت میں صحت میں خرابی یا بیماری کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔

عام طور پر چار قسم کے غذائی اجزاء کو چار قسم کے مزاجوں کے توازن یا عدم توازن سے مربوط کیا جاتا ہے لیکن یہاں ہم روحانی نقطہ نظر سے بات کریں گے۔

ہم تین طرح کی خوراک کھاتے ہیں جسے تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی وہ خوراک جو کہ حیوان اور درندے کھاتے ہیں یعنی گوشت، وہ خوراک جو چوپائے اور حلال جانور کھاتے ہیں یعنی سبزیاں وغیرہ اور وہ خوراک جو پرندے کھاتے ہیں یعنی اناج۔ لہذا ان میں سے کوئی بھی خوراک ضرورت سے زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے وہی خصوصیات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ جس انسان کی شیطان کے حملے کے لئے زمین زرخیز ہو یعنی چھوٹ، کمزور ایمان، اللہ کے ذکر سے بھاگنا اور ناشکری کی خصوصیات موجود ہوں اس پر مزید غلط غذا کے استعمال سے مزاج کا توازن بگڑ جائے تو شیطان اردگرد کے حالات اور منفی رویوں کے ردعمل میں اس میں عجب یعنی high self esteem کا احساس پیدا کر دیتا ہے (کیونکہ وسوسے ڈالنے کے علاوہ شیطان کا ہم پر کوئی اختیار نہیں) جس کے نتیجے میں صفراوی مزاج میں غصہ اور نفرت، دمووی مزاج میں دکھ اور ٹوٹ پھوٹ، بلغمی میں حسد اور ظن اور سوداوی میں مایوسی اور خوف کی مستقل کیفیات انہیں صحت کے مختلف مسائل سے دوچار کر دیتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن میں تفصیلاً ہر اس چیز اور ذریعے کی حرمت تفصیلا بیان ہوئی ہے جو انسان کے اخلاق پر منفی اثر ڈال کر اسے بیماری اور آزار میں مبتلا کر سکتا ہے۔

مثال کے طور اسلام میں سور کے گوشت کی کئی جگہ حرمت بیان ہوئی ہے اس کی مصلحت موجودہ دور میں ہم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کیونکہ مغربی معاشرے میں autosex کی بہتات کو سور کے گوشت کے بے دریغ استعمال سے وابستہ کیا جاتا ہے (کیونکہ اس جانور میں یہ خصوصیت موجود ہے) اور پھر اس غیر فطری عمل کا نتیجہ ایڈز کی لاعلاج بیماری ہے۔

اسی طرح شراب کی حرمت سورہ البقرة آیت نمبر219 میں یوں بیان ہوئی ہے: یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ-قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ٘-وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَاؕ-
تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں تم فرمادو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے

مکمل آیت میں انفاق کا بھی حکم موجود ہے، لہذا مفسرین نے زمانہ جاہلیت میں عرب قوم کے طور طریقوں کے پس منظر میں اس آیت کی تفسیر بیان کی ہے تاہم عام حکم کے لحاظ سے ہم اس کی یہ تاویل پیش کر سکتے ہیں کہ یہاں "اثمها أكبر من نفعها” اسلئے کہا گیا ہے کہ لوگ اگرچہ ذہنی طور پر ریلیکس ہونے اور پریشانیاں بھولنے کے لئے شراب پیتے ہیں لیکن نشے کی کیفیت ختم ہوتے ہی ایک اذیت ناک اور نا قابل برداشت غم کی کیفیت ان کا احاطہ کر لیتی ہے مزید شراب پینے والے افراد کی خصوصیات کے متعلق ایک طویل روایت حضرت نوح علیہ السلام کے حوالے سے مورخین نے نقل کی ہے جس کے مطابق ” شراب پینے والا شیر کی طرح بہادر، ریچھ کی طرح طاقتور، چیتے جیسا غصہ، گیدڑ کی طرح بھونکنے والا، کتے کی طرح جھگڑالو، لومڑی کی طرح چاپلوس اور مرغ کی طرح چنختا رہتا ہے.(روضہ العلماء)

اسی طرح سورہ الانعام کی آیت نمبر 165 جس میں بنی اسرائیل کے لئے چربی کی حرمت کی وجہ بتائی گئی ہے : وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِیْ ظُفُرٍۚ-وَ مِنَ الْبَقَرِ وَ الْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ شُحُوْمَهُمَاۤ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَاۤ اَوِ الْحَوَایَاۤ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍؕ-ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِبَغْیِهِمْ ﳲ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(146)اور ہم نے یہودیوں پر ہر ناخن والا جانور حرام کردیا اور ہم نے ان پر گائے اور بکری کی چربی حرام کردی سوائے اس چربی کے جو ان کی پیٹھ کے ساتھ یا انتڑیوں سے لگی ہو یا جو چربی ہڈی سے ملی ہوئی ہو۔ ہم نے یہ ان کی سرکشی کا بدلہ دیااور بیشک ہم ضرور سچے ہیں ۔

اس آیت کی بھی عام حکم کے مطابق یہ تاویل دی جاسکتا ہے کہ اگر کسی کی طبیعت میں سرکشی اور غصے کا عنصر زیادہ ہے تو وہ حیوانی چربی اور اس سے تیارکردہ اشیا جیسے بناسپتی گھی وغیرہ کا استعمال نہ کرے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر جس کا محرک غصہ اور گلہ ہوتا ہے اس میں ہائی کولیسٹرول والی حیوانی چربی سے پرہیز بتایا جاتا ہے۔

اسی طرح قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر انسان کو بیماری اور آزار سے بچانے کے لئے کھانے پینے کی حدود حدود متعین کی گئی ہیں۔ مثلاً:
كلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي ۖ وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَىٰ(طه 81)
کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تمھیں دی ہیں اور ان میں حد سے نہ بڑھو، ورنہ تم پر میرا غضب اترے گا اور جس پر میرا غضب اترا تو یقیناً وہ ہلاک ہوگیا۔
وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ(الأعراف 31)
اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (ان آیات میں over eating اور کھانے پر زیادہ خرچ کرنے یا اسراف سے منع کیا گیا ہے)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(البقره 172)
اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤاور اللہ کا شکر ادا کرواگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ (اس آیت میں شکر کو لازم کیا گیا ہے یعنی جتنا مل جائے اس پر مطمئن ہو جائیں اور حرص سے بچیں)

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(البقرة 168)
اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌﭤ(المومنون 51)
اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں ۔

ان آیات میں نہ صرف حلال اشیاء کھانے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ ساتھ ہی عمل صالح کی شرط رکھی گئی ہے، مزید ان حلال اشیاء کو حرام اور غلط شیطانی ذرائع سے حاصل کرنے کی ممانعت کی گئی ہے جس کی وضاحت اس حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، جس نے اس میں حلال طریقے سے مال کمایا اور اسے وہاں خرچ کیا جہاں خرچ کرنے کا حق تھا تو اللہ تعالیٰ اسے(آخرت میں ) ثواب عطا فرمائے گا، اور اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا اور جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ تعالیٰ اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم) میں داخل کردے گا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مال میں خیانت کرنے والے کئی لوگوں کے لئے قیامت کے دن جہنم ہوگی۔

اسی طرح ان آیات میں زیادتی اور ظلم سے دوسروں کا مال کھانے سے منع کیا گیا ہے :
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ ۪- وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا(النساء 2)
اور یتیموں کو اُن کے مال دو اور ستھرے کے بدلے گندا نہ لو اور ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر نہ کھاجاؤ بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔

وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(البقرة 188)
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پرجان بوجھ کر کھالو۔
اسی طرح مسنون طریقے سے جو جانور ذبح نہ کیا گیا ہو اور غیر اللہ کے نام کا گوشت کھانے کی بھی ممانعت ہے۔

وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ اِنَّهٗ لَفِسْقٌؕ-وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓـٕهِمْ لِیُجَادِلُوْكُمْۚ-وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ(الأنعام 121)
اور اسے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا اور وہ بے شک حکم عدولی ہے اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کا کہنا مانو تو اس وقت تم مشرک ہو۔

اسی طرح سابقہ تحریر میں میں نے سورہ البقرہ کی اس آیت كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّـٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ (60)( اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے کھاؤ پیو اور زمین میں فساد مچاتےنہ پھرو) کی وضاحت کی تھی کہ صرف وہی چیزیں کھائی جائیں جنہیں اللہ نے انسان کے کھانے کے لئے بنایا ہے کیونکہ آجکل ہم چینی، preserver والے بیکری آئٹمز، کولڈ ڈرنکس، بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بائیو ٹیکنالوجی کے استعمال سے اگائی جانے والی خوراک کے استعمال کے نتیجے میں ایسی بیماریوں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں جن سے انسان hyper ہو جاتے ہیں جیسے شوگر، بلڈپریشر، یورک ایسڈ، وغیرہ ۔

یعنی جب انسان کے ایمان وعمل کی بنیاد کمزور ہو اور ساتھ ہی اپنے آپ کو اعلی اور دوسروں کو ادنی جاننے والا ہو اور ایسی صورت میں وہ غیر متوازن افراط و تفریط سے غذا کھائے یا حرام یا ایسی چیز کھائے جس کو اللہ نے کھانے کے لیے نہیں بنائی یا اگر حلال غذا حرام طریقے سے دوسرے انسانوں کا استحصال کرکے یا بد دعائیں لے کر کھائے تو ان منفی اثرات کی بدولت شیطانی یا بری روحیں اسکو منفی احساسات میں گھیر کر بیمار کر دیں گی۔

اب اہم نقطہ یہ ہے کہ مختلف قسم کے منفی عمل کے رد عمل میں کون سے مختلف مسائل پیدا ہوتے ہیں؟

اس کے متعلق امام رضا علیہ السلام نے رسالہ ذہبییہ میں یہ مختصر سی وضاحت کی ہے "رنج کی اصل تلی میں ہے اور خوشی کی گردوں اور معدے کی جھلی میں۔ ان دونوں مقامات سے دو رگیں چہرے تک آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ خوشی اور غم کے اثرات چہرے پر نمایاں ہو جاتے ہیں۔

اس قسم کی رگیں سب کی سب بادشاہ اور اس کے عاملین کے درمیان راستے ہیں۔ (یہاں بادشاہ دل کو کہا گیا ہے )
یعنی انہوں نے اللہ کے دیئے ہوئے علم کی روشنی میں مختلف انسانی جذبات کو مختلف اعضاء کے ساتھ وابستہ کیا ہے جس کی جدید ریسرچ بھی تصدیق کرتی ہے۔
2017 میں publish ہونے والی
Ye-Seul Lee, 1 Yeonhee Ryu, 2 Won-Mo Jung, 1 Jungjoo Kim, 1 Taehyung Lee, 1 and Younbyoung Chae 1 , * کی ریسرچ
"Understanding Mind-Body Interaction from the Perspective of East Asian Medicine” کے مطابق
Anger was related to the liver, happiness to the heart, thoughtfulness to the heart and spleen, sadness to the heart and lungs, fear to the kidneys, heart, liver, and gallbladder, surprise to the heart and the gallbladder, and anxiety to the heart and the lungs.

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بھی اگرچہ گناہ گاروں کو دی جانے والی مختلف سزاؤں کا ذکر ہے لیکن اگر غور کریں ہر منفی عمل کی مختلف سزا کی وعید دی گئی ہے۔

لہذا اپنے اولین تحریری سلسلے "بیماریوں کے روحانی محرکات ” میں ، میں نے قرآنی آیات کی سے کچھ بیماریوں کی وجوہات کی نشاندہی کی ہے جن کی جدید ریسرچ سے بھی تصدیق کی ہے۔ اسی وجہ سے تحریر کی طوالت میں کافی اضافہ ہو گیا تھا لہذا یہاں میں ان بیماریوں کی مختصر وضاحت دے رہی ہوں۔

شفا کا علم چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کا معجزہ تھا لہذا بعد میں آنے والے مسلم اطباء نے بھی حکیم جالینوس کے علم سے استفادہ کیا اور طب نبوی اور طب معصومین میں موجود حقائق کی بنیاد پر طبع کو ایک کامیاب شعبہ بنایا۔

لہذا میں نے بھی اپنے مضمون میں ایک روایتی کرسچن ویب سائٹ www.bible.co کا ریفرنس دیا تھا جس میں شریزوفینیا، فالج، نیند کی کمی اور ہارٹ اٹیک کو choice of behaviour کے زمرے میں شامل کیا ہے یعنی ایک اخلاقی طور پر کمزور انسان اپنا اقتدار، مقاصد اور توجہ حاصل کرنے کے لیے لازمی شعوری طور پر انتخاب کرتا ہے۔

مختصر وجوہات یہ ہیں :
شریزوفینیا : سورہ الشعراء آیات 221 تا 223۔وہ ظاہری فعل جو نفسیاتی مریضوں می اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے دوسروں کو ہموار کرنے کی کوشش میں ظاہر ہوتا ہے ۔
فالج: سورہ المدثر آیات 8 تا 15۔ کھوئی ہوئی توجہ، اہمیت اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کی ایک لاشعوری کوشش۔
ہارٹ اٹیک: سورہ المطفیفین آیات 1 تا 14۔ لائف سٹائل کم ہونے کی وجہ سے خاندانی یا معاشرتی پوزیشن کا نیچے آ جانا۔
کینسر کو یہاں broken spirit سے وابستہ کیا گیا ہے۔
کینسر: سورہ العنكبوت ایت 41۔ جب اللہ تعالٰی سے تعلق واجبی سا ہو اور دنیاوی رشتوں کے مان میں انسان سر اٹھا کر جی رہا ہو اور وہ دنیاوی رشتہ اچانک چھوٹ جائے یا deprive کر دے۔
اسی طرح اس ویب سائٹ میں کچھ مسائل جیسے تھائیرائیڈ، نزلہ زکام اور دمہ کو high self esteem سے وابستہ کیا ہے ۔
تھائیرائیڈ: سورہ یاسین آیات 7 تا 10۔ اپنی فیملی کے معاملات اپنے ہاتھ میں نہ ہونے کا stress یا sense of incitement.
نزلہ زکام : سورہ البقرة آیات 7 تا 14۔ دل منفی اور تخریبی سوچ رکھنے کے باوجود بظاہر اچھے بنے رہنا یا منافقانہ رویہ۔
دمہ: سورہ الانعام آیت 45۔ اپنے شدید جذبات کے اظہار میں ناکامی اور اپنے آپ کو انتہائی برے حالات یا لوگوں میں گھرا ہوا محسوس کرنا۔
جوڑوں کا درد: سورہ الجاثية آیات 7 تا 9 اور 24۔25۔ ایک لمبے عرصے تک لڑائی جھگڑے میں لگے رہنا یا جھگڑالو لوگوں کو رسپانس دیتے کی پوزیشن میں رہنا۔
سکن الرجی: سورہ البروج آیت نمبر 10 اور سورہ اللھب۔ دوسروں کے لیے بغیر قصور کے ظالمانہ اور سنگدلانہ رویہ یا جذبات رکھنا۔

اسی طرح بہت سے صحت کے مسائل low self esteem سے وابستہ ہوتے ہیں۔ یعنی وہ بیماریاں جو معاشرے اور قریبی افراد کے ناروا رویے اور ایسے رویے کے خوف سے پیدا ہوتی ہیں۔

سینے کی جلن: سورہ الھمزہ۔ اپنے آپ کو مالی طور باقی لوگوں سے کمتر سمجھ کر پروفیشنل جیلسی کا شکار ہو کر دوسروں کو گرانے میں لگے رہنا۔
ذیابیطس: سورہ التكاثر آیات 1۔2۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کی مستقل عرصے تک تنقید اور نفرت کے باعث اس دنیا کے انسانوں سے نفرت اور کھانے پینے اور تعیشات کی محبت میں مبتلا ہو کر تحمل کھو دینا۔

گنج پن: سورہ العلق۔ سماجی اضطراب کی بیماری یا یوں کہہ لیں لہذا ایسا طویل مدتی مسئلہ جو زندگی کے کسے بھی حصے میں سامنے آئے جس کے باعث معاشرے کا سامنا کرنے کا خوف یا احساس کمتری۔
گیسٹرو اور آنتوں کے مسائل: سورہ الحج آیات 19۔20۔ نوکری کیریئر یا دوسرے دنیاوی معاملات میں ناکامی اور کھو دینے کا یا سامنا کرنے کا خوف۔
ہیپاٹائیٹس: سورہ النساء آیات 21 تا 30۔ غم کا ردعمل یعنی بے وقوفی، انکار، غصہ، جذباتی چیلنجز یعنی عقائد کے ساتھ تضاد، محرومی کا خوف اور تشخص کا ابہام اور احساس کمتری یعنی شرمندگی، احساس جرم اور الزام وغیرہ۔

گردے کی پتھریاں: سورہ البقرة آیت نمبر 74۔ socioeconomic status کے کھونے یا کم ہونے کے خوف سے حقوق اللہ یا حقوق العباد یا راہ ہدایت کے لئے اپنا دل سخت کر لینا۔

آپ خود اس mind and body connection کا تجربہ بآسانی کر سکتے ہیں۔ کسی دوسرے کے نہیں اپنے فطری reactions کو اگر نوٹ کریں تو جب آپ کسی کے بارے میں منفی سوچ رہے ہوں گے تو خود بخود ریشہ بننا شروع ہو جائے گا جو کہ کان، آنکھ یا دانتوں پر دباؤ ڈالے گا، جب بڑا سوچنے کے ساتھ ساتھ غیبت بھی کریں گے تو گلے میں انفکشن شروع ہو جائے گی، اگر اس بات پر غصے ہو رہے ہوں گے کہ میرے بچے یا خاندان کے افراد میرے ہاتھ سے نکل چکے ہیں اور میری یہاں کوئی حیثیت نہیں تو گلے کے بیرونی حصے میں دباؤ سا محسوس ہوگا، جب لوگوں کے ناگوار رویے کا stress ہو گا تو کھانے کی رغبت اور insulin resistance بڑھ جائے گی، جب غصے ٹینشن اور بے بسی کا احساس ہوگا تو خون کی کمی ہونی شروع ہو جائے گی، جب یہ سوچ کر غصہ آرہا ہو گا کہ سوسائٹی اور اردگرد کے لوگ میرے جیسے انسان کی پہلے جیسی عزت نہیں کرتے تو خون میں جوش اور آجائے گا۔

جب اپنے مالی وسائل کی کمی کو احساس ہوتا ہے تو تیزابیت اور گیس بڑھنے سے معدے کے مسائل شروع ہو جائیں گے اسی طرح کسی انسان یا واقعے کے خوف کا سٹریس ہو گا تو پیٹ میں مڑوڑ اٹھنے لگیں گے ۔

یوں سمجھ لیں کہ جب شیطان کے بہکاوے میں آکر اگر یہی وقتی منفی کیفیات مستقل طور پر ہم اپنی ذات کا حصہ بنا لیں تو نتیجہ ایسی مستقل بیماریاں ہیں جن کا اج کی ترقی یافتہ میڈیکل سائنس کے پاس بھی کوئی علاج نہیں۔

لہذا ان وہ سب بیماریاں جنہیں میڈیکل سائنس لاعلاج قرار دے چکی ہے ان سے ہم منفی سوچوں اورشیطانی وسوسوں کا مضبوط قوت ارادی سے رد کرکے اور diet control کے ذریعے قابو بھی پا سکتے ہیں اور اپنا بچائو بھی کر سکتے ہیں۔

اللہ ہم سب کو ایمان کی مضبوطی سے اپنے راستے پوچھنے اور شر شیطان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button