Paid ad
Breaking Newsآپ کی تحریریںتازہ ترین

فيه شفاء للناس

تحریر: کنول ناصر

اپنی سابقہ تحریر میں، میں نے انسانی سوچ اور جسم کے تعلق کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح شیطان کے بہکاوے میں آکر انسان منفی سوچ اور عمل کا شکار ہوکر بیماری اور مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یعنی ذہن کو منفی سوچ یا شیطانی عمل سے آزاد کرکے بیماری کی وجہ پر قابو پا کر صحت کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نفسیاتی طریقوں کے استعمال سے اس مقصد کا حصول ممکن ہے؟ ہم ایک استحصالی معاشرے میں رہتے ہیں جس میں کوئی انسانی قدریں نہیں کہیں شوہر ماں بہنوں کے بہکاوے میں اکر بیوی سے تضحیک آمیز سلوک کر رہا ہوتا ہے تو کہیں ساس اپنا پیدائشی حق جانتے ہوئے اپنی بہو پر عرصہ حیات تنگ کر رہی ہوتی ہے پھر کہیں جب اس بہو کو آزادی ملتی ہے تو بچوں کے ساتھ مل کر اپنے شوہر کو ذلیل و حقیر کرکے رکھ دیتی ہے۔

ادھر والدین بھی اپنے تمام مالی اور معاشرتی مسائل کی فرسٹیشن بچوں پر سختی کرکے نکال رہے ہوتے ہیں۔
اسی طرح جب والدین جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانے کے لیے کسی مدرسے میں داخل کراتے ہیں تو ساتھ ہی تاکید کرتے ہیں کہ اگر بچے سے کوئی کوتاہی ہو تو اس کی چمڑی ادھیڑ دیں، لہذا قاری صاحبان بھی بچے پر اتنی سختی کرتے ہیں کہ وہ بچہ نارمل انسان کی طرح زندگی گزارنے کے قابل رہتا ہی نہیں۔

دوسرے الفاظ میں ہر کوئی اس سسٹم میں کسی نہ کسی ناروا رویے کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مستقبل دباؤ کا نتیجہ کسی نہ کسی ذہنی یا جسمانی بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔ لیکن اس مستقل دباؤ اور اس کے نتائج سے بچنے اور علاج کے لئے نہیں صرف پاکستان میں بلکہ دیگر ممالک میں بھی نفسیاتی طریقوں کی طرف آنے والوں کا تناسب بہت ہی کم ہے کیونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق انڈیا میں 90 فیصد ذہنی طور پر بیمار لوگ (مینٹل ہاسپٹل میں رہنے کی بجائے) اپنی فیملیز میں رہ رہے ہوتے ہیں۔

اسی طرح ایک سروے کے مطابق شدید نوعیت کے ذہنی مسائل میں مبتلا 11% چینی اور 10% نائیجیرینز نے گزشتہ 12 ماہ کے دوران نفسیاتی علاج کرایا۔ لوگوں کا نفسیاتی معالج سے رابطہ کرنے کا رجحان اس لئے بھی کم ہے کہ معاشرتی مسائل اور ناہمواریوں کے حل کے لئے یہ طریقہ اتنا موثر ثابت نہیں ہوتا۔

نفسیاتی علاج کے ہم جیسے خصوصا غریب ممالک میں غیر موثر ثابت ہونے کی کچھ وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو معاشی ہے کیونکہ ہم جیسے ممالک میں اکثریت لوئر اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہوتی ہے جن کے لئے نفسیاتی ماہرین کی مہنگی فیسیں اور مشوروں پر عمل افورڈ کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اگر ایک پندرہ بیس ہزار ماہانہ کمانے والا اور مشترکہ گھر میں رہنے والا ملازم کسی نہ کسی طرح ماہر نفسیات کی فیس بھر کے اپنے بچے یا بیوی کو مشورے کے لئے لے پہنچ بھی جاتا ہے لیکن جب معالج اسے یہ مشورہ دیتا ہے کہ مریض کو اس ماحول سے دور رکھیں تو اس کے لئے اپنے محدود وسائل کی وجہ سے الگ کرئے کا ہی سہی گھر لے کر رہنا نا ممکن ہو گا۔

دوسرا بہت سے مسائل اور بیماریوں کی وجہ ہمارے سے وابستہ دوسرے افراد کے ناروا اور غیر متوازن رویے ہوتے ہیں لہذا اصلاح اور تربیت کی ضرورت مریض سے زیادہ اس سے وابستہ افراد کو ہوتی ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے عیسائیت میں بتائے گئے شفا کے علم کے مطابق کچھ ذہنی اور جسمانی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ایک اخلاقی طور پر کمزور اور مفاد پرست انسان اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے جنہیں ماہرین نفسیات جسم کے کیمیائی تعاملات کے حوالے سے جانچتے اور دوا تجویز کرتے ہیں جس کا بسا اوقات کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

میں نے اپنی سابقہ تحاریر میں جس ویب سائٹ یعنی bible.ca کا حوالہ دیا ہے، کے الفاظ میں "Insanity, depression and anxiety are not biological or medical disorders but personal freewill moral choices of behaviour patterns. “Mental illness” is not a real illness like diabetes or cancer, but a metaphoric term like “spring fever” or “computer virus”. Scientifically, there is no evidence to support the myth that bad behaviour is driven through chemical imbalances of the brain and corrected through psychiatric drugs. While Christians are fully aware of the many faults in Darwinian evolution theory, they are often totally ignorant that modern psychiatry is based 100% on evolution which denies man is dichotomous with both body and spirit. Psychiatry views man as nothing more than a soup of sparks and chemicals and is wholly physical. They have no choice but to look for the cause of behaviours in biochemical etiologies, and in fact have done so for hundreds of years to utter failure.”

یعنی یوں کہہ لیں کہ اگرچہ مختلف حالات اور ناہمواریوں کی وجہ سے ہر شخص الگ قسم کے صحت کے مسائل کا شکار ہوتا ہے لیکن ان مسائل کا حل انفرادی نفسیاتی علاج کی بجائے معاشرے کی اجتماعی اصلاح میں پوشیدہ ہے جو کہ ایک متوازن شریعت انجام دے سکتی ہے اور وہ متوازن شریعت صرف اسلام ہی ہے۔

جیسا کہ سورہ البقرة میں ارشاد ہے: وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاٌؕ(143)اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ ہوں 

سورہ آل عمران میں ارشاد ہے : كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ   تَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  تَنْهَوْنَ  عَنِ  الْمُنْكَرِ  وَ  تُؤْمِنُوْنَ  بِاللّٰهِؕ-وَ  لَوْ  اٰمَنَ  اَهْلُ  الْكِتٰبِ  لَكَانَ  خَیْرًا  لَّهُمْؕ-مِنْهُمُ  الْمُؤْمِنُوْنَ  وَ  اَكْثَرُهُمُ  الْفٰسِقُوْنَ(110)

(اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہواور اگر اہلِ کتاب (بھی) ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر تھا، ان میں کچھ مسلمان ہیں اور ان کی اکثر یت نافرمان ہیں ۔

انسان کی روحانی اور جسمانی شفا کے لئے اسلام ہی واحد آپشن اس لئے ہے کہ اگرچہ تورات اور انجیل کو سورہ المائدہ کی آیات 44 تا 46 میں ہدایت اور روشنی کہا گیا ہے

لیکن یہ ہدایت ایک مخصوص قوم یعنی بنی اسرائیل کی اصلاح کے لئے تھی اس کے بعد بنی اسرائیل ہی کی ہدایت کے لئے ایک دوسری کتاب یعنی انجیل اتاری گئی جو کہ نا صرف تورات کی تصدیق کرنے والی تھی بلکہ پیغمبر عیسی کے ذریعے بنی نوع انسان کو شفا کا علم بھی دیا گیا۔ لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد اس شریعت سے توحید کی بنیاد بھی ختم ہو گئی اور دونوں مذاہب میں علما پر انحصار اور ان کی اجارہ داری بھی بڑھ گئی۔

جیسا کہ سورہ توبہ میں بتایا گیا ہے : وَقَالَتِ الْيَـهُوْدُ عُزَيْرُ ِۨ ابْنُ اللّـٰهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّـٰهِ ۖ ذٰلِكَ قَوْلُـهُـمْ بِاَفْوَاهِهِـمْ ۖ يُضَاهِئُـوْنَ قَوْلَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ۚ قَاتَلَـهُـمُ اللّـٰهُ ۚ اَنّـٰى يُؤْفَكُـوْنَ (30) اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ ان کی منہ کی باتیں ہیں، وہ کافروں کی سی باتیں بنانے لگے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں، اللہ انہیں ہلاک کرے، یہ کدھر الٹے جا رہے ہیں۔اِ

تَّخَذُوٓا اَحْبَارَهُـمْ وَرُهْبَانَـهُـمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّـٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَـمَۚ وَمَآ اُمِرُوٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوٓا اِلٰـهًا وَّاحِدًا ۖ لَّا اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهٝ عَمَّا يُشْرِكُـوْنَ (31) انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا ہے اور مسیح مریم کے بیٹے کو بھی، حالانکہ انہیں حکم یہی ہوا تھا کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔

لہذا اسلام ہی وہ واحد شریعت اور قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے جس پر علماء کے سہارے کے بغیر ہر شخص انفرادی طور پر بھی عمل کرکے اپنی اصلاح کر سکتا ہے مزید اس شریعت کی سب سے اہم خصوصیت سورہ البقرة کی آیت نمبر 143 میں پوشیدہ ہے جس میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گواہ بنا کر بھیجا گیا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ اگر قرآن کہہ رہا ہے کہ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ(البقره155)(اور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو) تو اللہ کے اس پیارے نبی جس کے لئے کائنات بنی ہے نے ہر دکھ، محرومی، مخالفت، بھوک سہہ کر بتایا کہ اللہ اپنے پیارے بندوں کو ہی دنیاوی تکالیف دیتا ہے ، اور ان تکالیف پر صبر کس طرح کیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ تو اللہ کے وہ عزیز ترین بندے اور رسول تھے، جن کی پیدائش سے پہلے ان کے والد وفات پا گئے پھر چھ سال کی عمر میں والدہ اور بادہ سال کی عمر میں دادا وفات پا گئے پھر ایک ہی سال میں سہارا دینے والے چچا اور ساتھ دینے والی زوجہ بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں ، اور کفار کے اذیت بھرے سلوک اور تضحیک سہنے کے لیے آپ اکیلے رہ گئے یعنی تمام دنیاوی سہارے ختم ہو گئے تو اللہ نے یہ کہہ کر بتایا کہ اس قادر مطلق کے سوا ہر سہارا اور رشتہ عارضی اور نا قابل اعتبار ہے

: وَالضُّحٰى (1) دن کی روشنی کی قسم ہے۔وَاللَّيْلِ اِذَا سَجٰى (2) اور رات کی جب وہ چھا جائے۔مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى (3) آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ بیزار ہوا ہے۔وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْـرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى (4) اور البتہ آخرت آپ کے لیے دنیا سے بہتر ہے۔وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَـرْضٰى (5) اور آپ کا رب آپ کو (اتنا) دے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاٰوٰى (6) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا تھا پھر جگہ دی۔وَوَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى (7) اور آپ کو (شریعت سے) بے خبر پایا پھر (شریعت کا) راستہ بتایا۔وَوَجَدَكَ عَآئِلًا فَاَغْنٰى (8) اور اس نے آپ کو تنگدست پایا پھر غنی کر دیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں طویل پیاس، بھوک اور گرمی سہنے کے بعد اپنی اور اپنی اولاد کی جان قربان کرکے عملی طور پر ہمیں صبر اور راہ حق میں قربانی کا سبق دیا، جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

اس لئے اگر ہم اپنا اور اپنے گزرے ہوئے بزرگوں کا موازنہ کریں تو ان میں تحمل برداشت اور زندگی کے مسائل مثبت طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت اس لئے زیادہ تھی کہ وہ ہماری طرح مطلب جانے بغیر قرآن کو پڑھنے یا حفظ کرنے اور نماز پڑھ لینے کو ہی دینی فریضہ کی ادائیگی نہیں سمجھتے تھے بلکہ قرآن کے معنی اور مفہوم کو سمجھنے کے ساتھ سیرت النبی، سیرت صحابہ اور خصوصا اہل بیت کے مصائب کا تذکرہ ان کی زندگی کا حصہ تھا، یہی وجہ تھی کہ ہماری طرح اللہ کے ذکر سے دل چرانے، آخرت پر کمزور عقیدہ رکھنے،جھوٹ اور منافقت کا سہارا لینے اور اپنے نصیب پر ناشکری کرنے کی وجہ سے مستقل بیماریوں کا شکار نہیں ہوتے تھے ، بلکہ اپنی زندگی میں آنے والے بڑے سے بڑے آلام اور مصائب پر یہ یہ سوچ کر صبر کرتے تھے کہ ہماری مصیبت اور محرومیاں ان پاک ہستیوں سے زیادہ تو نہیں ہے، اور اللہ اپنے پیارے بندوں کو ہی دکھ تکلیف دیتا ہے تاکہ وہ صبر کریں اور جنت میں اعلی درجات پائیں۔

جیسا کہ سورۃالعصر میں خسارے سے بچنے والوں کی خصوصیات کچھ اس طرح بیان کی گئی : وَالْعَصْرِ (1) زمانہ کی قسم ہے۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِىْ خُسْرٍ (2) بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔اِلَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (3) مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے۔

یہی حقیقت سورہ التین میں بھی کچھ اس طرح بیان ہوئی ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ (4) بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے۔ثُـمَّ رَدَدْنَاهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ (5) پھر ہم نے اسے سب سے نیچے پھینک دیا ہے۔اِلَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَـهُـمْ اَجْرٌ غَيْـرُ مَمْنُـوْنٍ (6) مگر جو ایمان لائے اور نیک کام کیے سو ان کے لیے تو بے انتہا بدلہ ہے۔

لہذا جان لیں کہ بے شک قرآن میں ہم سب بیمار دلوں کی شفا پوشیدہ ہے لیکن مطلب جانے بغیر لمبے جوڑے وظائف اور آیات کے تعویذ بنا کر پہننے کی بجائے اصل ثمرات اس کو سمجھ کر اسکی عملی تفسیر سنت رسول پر عمل کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نواسہ رسول کی زندگیوں کے تذکرے میں پوشیدہ ہے، اور اسی طریقے سے معاشرے کے افراد کی تربیت کے ذریعے استحصالی رویے کا خاتمہ کر کے صحت اور سکون کا حصول ممکن ہے ۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button