Paid ad
Breaking Newsآپ کی تحریریںتازہ ترین

جگر کی بیماری – روحانی معنی، اسباب اور شفاء

طب اسلامی کے مطابق چاروں اختلاط یعنی صفرا، خون، بلغم اور سودا میں سے کسی ایک کا غلبہ ہمارے جسم کا توازن خراب کر دیتا ہے اور ہمیں بالترتیب غصہ، دکھ، حسد اور خوف میں مبتلاء کرکے مختلف بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ لہذا جدید ایلوپیتھک علاج کے طریقہ کار کے مطابق شفا یابی کے لیے صرف دوا ہی کافی نہیں بلکہ غذا سمیت دیگر روحانی وجوہات کا بھی علم ہونا ضروری ہے۔

لہذا اسی لیے بلغاریہ کیڈن کے مضامین کے تراجم کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے تاکہ بیماری کی دیگر وجوہات کے ساتھ روحانی وجوہات سے بھی قائرین کو اگاہی ہو۔جن کے مطابق بیماریاں بہت گہرے عوامل کی وجہ سے ہوتی ہیں، اور اکثر، ان کا تعلق جذباتی نوعیت سے ہوتا ہے۔
بیماری کا بظاہر علاج اس کے دوسرے طبقے میں منتقلی کا تعین کرتا ہے اگر مسئلہ کو سمجھا اور تسلیم نہ کیا جائے۔
غلط حرکات، خراب خوراک، خراب جسمانی، جذباتی اور ذہنی حالت کی وجہ سے جسم میں زہریلے مواد جمع ہو جاتے ہیں۔
بذریعہ: مصنف بلغاریہ کینڈن

جگر کے مسائل کی روحانی جڑ:
جگر پروٹین کی پیداوار اور خون کے جمنے سے لے کر گلوکوز (شوگر)، کولیسٹرول اور آئرن میٹابولزم تک بہت سے جسمانی افعال میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
یہ جسم کا سب سے بڑا عضو ہے اور ہماری زندگی کے ہر منٹ میں اس سے بہت زیادہ خون بہتا ہے۔
جگر کی بیماری کی 100 سے زیادہ مختلف شکلیں فی الحال موجود ہیں، اور علامات وسیع پیمانے پر مختلف ہو سکتی ہیں اس بات پر منحصر ہے کہ آیا مریض کو الکحل جگر کی بیماری، ہیپاٹائٹس، فیٹی جگر کی بیماری، یا سروسس ہے۔

شماریات
تقریباً 3.5 سے 4.6 ملین امریکی ہیپاٹائٹس سی وائرس سے دائمی طور پر متاثر ہیں۔
غیر الکوحل فیٹی جگر کی بیماری ریاستہائے متحدہ کی 30 فیصد آبادی کو متاثر کرتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ہر سال 31,000 لوگ سروسس سے مرتے ہیں۔
امریکہ میں ہر سال تقریباً 8,000 خواتین اور 21,000 مرد جگر کے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں اور اس قسم کے کینسر سے تقریباً 8,000 خواتین اور 16,000 مرد مر جاتے ہیں۔

علامات:
پیٹ کا درد
بھوک میں کمی؛
پیٹ کا درد؛
جلد، چپچپا جھلیوں، یا آنکھوں میں پیلا رنگ (یرقان)؛
سانس میں ایک تیز میٹھی بو ہو سکتی ہے۔
تھکاوٹ اور توانائی کا نقصان؛
خون کی قے یا سیاہ پاخانہ گزرنا؛
ذہنی انتشار یا الجھن؛
ہائپوگلیسیمیا اور غیر مستحکم خون میں شکر کی سطح؛
قبض؛
چربی کے ساتھ شریانیں بند ہو جاتی ہیں، جو دل کے دورے، ہائی بلڈ پریشر اور فالج کا باعث بنتی ہیں۔
سرخ، سوجن، خارش والی آنکھیں۔

اسباب
اگرچہ جگر کی بیماری دقیانوسی طور پر منشیات یا الکحل سے وابستہ ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ جگر کی بیماری کی مختلف اقسام مختلف عوامل کی وجہ سے ہوتی ہیں اور ہر ایک کو متاثر کرتی ہیں، بچوں سے لے کر بوڑھے تک۔

شراب:
بہت زیادہ پینے کے سالوں کے بعد، سروسس ہو سکتا ہے. سروسس الکحل جگر کی بیماری کا آخری مرحلہ ہے۔ اس کے علاوہ، آپ کو سیروسس ہونے کے لیے نشے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
امریکن لیور فاؤنڈیشن کے مطابق، 10 سے 20 فیصد کے درمیان بھاری شراب پینے والوں میں سیروسس ہو جاتا ہے۔

مشورہ – الکحل کو کبھی بھی دوسری دوائیوں اور دوائیوں کے ساتھ نہ ملائیں۔
منشیات اور زہریلا مادہ:
جگر آپ کے جسم میں داخل ہونے والی زیادہ تر ادویات اور کیمیکلز کو پروسیس کرنے کے لیے ذمہ دار ہے، جس سے کیمیکلز کی وجہ سے جگر کی شدید یا دائمی بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔

مشورہ – غیر ضروری ادویات لینے سے گریز کریں۔
موٹاجنک فوڈ-آلو کے چپس
جگر کے خلیوں کے اندر چربی کا جمع ہونا، جو عام طور پر زیادہ وزن والے افراد یا موٹے لوگوں میں دیکھا جاتا ہے۔
امریکہ میں، تقریباً 35 فیصد بالغ موٹے ہیں۔ موٹاپا جگر کے مسائل کے اسپیکٹرم سے جڑا ہوا ہے، جسے غیر الکوحل فیٹی جگر کی بیماری کہا جاتا ہے۔
ہیموکرومیٹوسس
آئرن کا ایک عارضہ جس میں جسم صرف بہت زیادہ آئرن لوڈ کرتا ہے۔
یہ مسئلہ جینیاتی ہے اور اضافی آئرن، اگر علاج نہ کیا جائے تو اعضاء، جوڑوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور آخرکار مہلک بھی ہو سکتا ہے۔

کالا یرقان
ایک وائرس، یا انفیکشن، جو جگر کی بیماری اور جگر کی سوزش کا سبب بنتا ہے۔
ہیپاٹائٹس سی کئی ہفتوں تک رہنے والی ہلکی بیماری سے لے کر سنگین، عمر بھر کی بیماری تک ہو سکتی ہے۔

ولسن کی بیماری
ایک موروثی بیماری جو جسم کی تانبے کو میٹابولائز کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔
یہ بیماری جگر کی خرابی اور سروسس کا باعث بن سکتی ہے۔
اس بیماری میں مبتلا زیادہ تر لوگوں کی عمر 5 سے 35 سال کے درمیان ہوتی ہے۔ تاہم، ولسن کی بیماری چھوٹے اور بوڑھے لوگوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔

جگر کی بیماری کی روحانی وجوہات:
جگر کا تعلق غصے سے ہے، خاص طور پر مایوسی یا دبے ہوئے غصے سے۔ غصہ ایک فطری جذبہ ہے، لیکن ہمارے خیالات جو غصے کا سبب بنتے ہیں، غصے کے بارے میں ہمارے خیالات، اور غصے کے بارے میں ہمارے رویے اور عقائد، عام طور پر کچھ بھی ہیں مگر فطری اور نارمل ہیں۔
جب ہم کچھ "غصے کے خیالات” سوچتے ہوئے پھنس جاتے ہیں تو ہم سوچ کے اس مخصوص طرز کے جسمانی اثرات میں پھنس جاتے ہیں۔
ہمارے خیالات کو دوبارہ پروگرام کرنے سے ہماری زندگی کے اس مخصوص شعبے میں ہماری صحت کے اظہار کے انداز میں تبدیلی آئے گی۔
مزید برآں، جب جگر کی توانائی جمع ہوتی ہے، تو ایک فرد افسردگی، دفاعی پن، چڑچڑاپن، یا حوصلہ شکنی کا تجربہ کر سکتا ہے۔ جب یہ جذباتی حالتیں دائمی ہو جاتی ہیں، تو ہم "جذباتی طور پر زہریلے” ہو جاتے ہیں اور زہریلے مادوں پر عمل کرنے کی جگر کی عام صلاحیت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس لیے یہ اہم عضو ہمارے جذبات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جگر کے مسائل جیسے ہیپاٹائٹس اور سروسس دبے ہوئے غصے اور غصے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ یہ تبدیلی کے خلاف مزاحمت کے رویے کی نمائندگی کرتا ہے۔
اگر کوئی اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غصے کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے جو آسانی سے ناراضگی اور انتقام کی خواہش میں بدل سکتا ہے، تو یہ غیر الکوحل فیٹی لیور کی بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، جگر کا کینسر دائمی غلطی کی تلاش سے منسلک ہے، چاہے دوسروں میں یا آپ میں۔
روک تھام

شراب نہ پیو:
یہ جگر کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے، اس لیے شراب سے سختی سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔
مشورہ – آپ کو اپنی صحت کو نقصان پہنچانے کے خطرے کے لیے شرابی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

غذائیت:
یہ مسئلہ جانوروں کی مصنوعات (گوشت، انڈے، اور دودھ کی مصنوعات) کے ساتھ ساتھ تلی ہوئی کھانوں میں بھی پایا جاتا ہے، جیسے کہ فرنچ فرائز، پیاز کی انگوٹھیاں، ڈونٹس اور مارجرین۔
مسئلہ خود چربی کے مالیکیولز کا نہیں ہے بلکہ بھاری دھاتوں، زہریلے کیمیکلز اور ماحولیاتی آلودگیوں کا ہے جو ان چربی کے مالیکیولز کے اندر پائے جاتے ہیں۔
اپنی باقاعدہ غذائیت میں درج ذیل غذاؤں کو شامل کرنے کی کوشش کریں:
چنے؛
گوبھی
سرخ گردے پھلیاں؛
بروکولی؛
گوبھی؛
دالیں؛
سفید پھلیاں؛
مونگ پھلیاں؛
آم؛
سیب
پپیتا؛
انناس؛
بیر
خوبانی؛
لہسن
دلیا؛
پیاز؛
جئ چوکر؛
چینی
میٹھا آلو؛
مولیاں
میٹھی مرچ؛
لال مرچ؛
سورج مکھی کے بیج؛
سوئس چارڈ؛
فلیکس بیج؛
کدو کے بیج؛
اخروٹ؛
بادام؛
تل کے بیج؛
برازیل میوے؛
ہیزلنٹ
پائن گری دار میوے؛
زیتون
ورزش: ورزش کرتے رہیں
یہ صحت مند طرز زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔
جسمانی ورزش آپ کے جسم کو وہ توانائی فراہم کرتی ہے جس کی اسے اچھی طرح سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، آپ کے مدافعتی نظام کو بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے، اور آپ کے جگر کو صحت مند رکھنے میں مدد ملے گی۔

تمباکو نوشی بند کرو
تمباکو نوشی سائٹوٹوکسک صلاحیت کے ساتھ کیمیائی مرکبات پیدا کرتی ہے، جو فبروسس اور نیکروئنفلامیشن کو بڑھاتی ہے۔ مزید برآں، تمباکو نوشی سوزش کے حامی سائٹوکائنز کی پیداوار کو بڑھاتی ہے جو جگر کے خلیوں کی چوٹ میں شامل ہوں گی۔
ایک اور مسئلہ – ہیپاٹائٹس بی یا سی کے مریضوں میں سگریٹ پینے سے جگر کے کینسر، ہیپاٹوسیولر کارسنوما کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

اشارہ – غیر فعال تمباکو نوشی غیر الکوحل فیٹی جگر کی بیماری کا خطرہ تقریبا 1.38 گنا بڑھا دیتی ہے۔
شفا یابی کے اثبات: جگر کے مسائل کی روحانی جڑ
”ماضی کی خوشی سے رہائی ہے۔ زندگی پیاری ہے اور میں بھی۔”
"میں کوئی بھی اور تمام گہری جڑوں والے الزام کو جاری کرتا ہوں۔”
”میرا دماغ صاف اور آزاد ہے۔ میں ماضی کو چھوڑ کر نئے کی طرف جاتا ہوں۔”
"میں ان تمام صدموں اور جذباتی جھٹکوں کو رہا کرتا ہوں جو اس الزام تراشی کے نتیجے میں ہوئے ہیں۔”
’’میں اپنے آپ کو معاف کرتا ہوں۔‘‘
’’میں امن ہوں۔‘‘

اللہ ہمارا خالق ہے اور وہ ہم سے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے لہذا جیسا کہ مسٹر کیڈن نے کہا کہ ہمیں جو بھی بیماری ہوتی ہے وہ ہمارے اپنے ہی کسی غلط عمل کا نتیجہ ہوتی ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْــٴًـا وَّ لٰـكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(یونس44)(بیشک اللہ لوگوں پر کوئی ظلم نہیں کرتا، ہاں لوگ ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔) یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح حالات اور لوگوں کو کمتر اور حقیر اپنے قابل نہ سمجھ کر ہدایت کا راستہ روک کر اپنے اپ کو ایک خول میں بند کرنے سے سانس کے مسائل ہو جاتے ہیں اور دنیا کے لوازمات کی کثرت کی طلب کے باعث جب زندگی کی مٹھاس ختم ہو جاتی ہے تو ذیابطیس کا مسئلہ ہو جاتا ہے اسی طرح کہیں بھی اپنے فرائض کے متعلق اللہ کی ہدایت سے دل پتھر کرنے سے گردے میں پتھری پیدا ہو جاتی ہے اور ہماری فطرت کی سختی اور کھردرا پن جب ہمارے جوڑوں میں اترتا ہے تو ارتھرائٹس کا مرض شروع ہو جاتا ہے بالکل ٹھیک اسی طرح اس محقق نے بھی یہاں یہ کہا ہے کہ جب ہم جذباتی طور پر زہریلے ہو جاتے ہیں تو ان زہریلے مادوں پر عمل کرنے کی جگر کی صلاحیت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

اپنے سابقہ تحاریر میں، میں نے تفصیل سے انسان کے چار مزاجوں کا ذکر کیا تھا جس میں سے جگر کے امراض کا تعلق خشک اور گرم مزاج سے ہے۔ اج سے 30 ، 40 سال پہلے تک یہ ایک عام سا مسئلہ تھا کہ جب کوئی بچہ یا بڑا گرم تاثیر والی اشیاء یعنی تلی ہوئی اور گوشت پر مشتمل خوراک کا زیادہ استعمال کرتا تھا تو اور غصے کے جذبات زیادہ رکھتا تھا تو جگر خون بنانا بند کر دیتا تھا جسے یرقان یا پیلیا کہا جاتا تھا۔ لہذا اس مسئلے پر قلیل مدت علاج اور گھریلو ٹوٹکوں یعنی غذائی تبدیلی کے ذریعے قابو پا لیا جاتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے میڈیا کی یلغار بڑھی نفرتوں عداوتوں گھریلو سیاستوں کے ساتھ ساتھ غیر فطری اور مصنوعی خوراک اور الودہ پانی نے اس عام سے مسئلے کو سنگین اور مستقل بیماری میں تبدیل کر دیا۔

اب جیسا کہ یہاں پر محقق نے بھی یہی نشاندہی کی ہے کہ جگر کا تعلق غصے سے ہوتا ہے اور یہ جگر کے مسائل اس کے پیدا ہوتے ہیں کہ انسان غصے کے ان جذبات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوتا اور ان میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان کا وہ کون سا جذبہ ہوتا ہے جو اسے اس مصیبت اور تکلیف میں دھکیل دیتا ہے۔

مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی ہی سب جہانوں کا حکمران ہے اور پرفیکٹ صرف اسی کی ذات ہے جبکہ انسان خطا کا پتلا ہے جس سے زندگی میں بہت سی غلطیاں اور غلط فیصلے ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ وہاں کھڑا ہوتا ہے جہاں یہ انسان جسے بار بار اللہ تعالی نے یہ کہہ کر اس کی کم مائیگی اورزعم کا احساس دلایا ہے کہ اَوَلَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْـمٌ مُّبِيْنٌ (77) (کیا آدمی نہیں جانتا کہ ہم نے اسے منی کے ایک قطرے سے بنایا ہے پھر وہ کھلم کھلا دشمن بن کر جھگڑنے لگا۔)وضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِىَ خَلْقَهٝ ۖ قَالَ مَنْ يُّحْىِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِيْمٌ (یسین 78) (اور ہماری نسبت باتیں بنانے لگا اور اپنا پیدا ہونا بھول گیا، کہنے لگا بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے۔)، وہی انسان اپنے اپ کو انتہائی برتر مخلوق سمجھتے ہوئے غرور اور تکبر میں مبتلا ہو کر اپنے اپ کو مسٹر پرفیکٹ سمجھنے لگتا ہے اور اپنے رویے میں لچک بالکل ختم کر دیتا ہے یعنی جس پر اسے غصہ ہو اسے کبھی معاف کرنے پر تیار نہیں ہوتا یہ یا پھر اپنے ہر صحیح اور غلط عمل کو کبھی بھی غلط کہہ کر یا سمجھ کر اس کی اصلاح کرنے کو تیار نہیں ہوتا بلکہ اگر کوئی اسے سمجھانا چاہتا ہے تو اس سے شدید نفرت اور غصہ کرنے لگتا ہے۔ جبکہ انسان کے لئے قرآن وحدیث میں غرور اور احساس برتری کی سخت ممانعت ہے۔

سیدنا ابو ہریرۃؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ تکبر میری چادر ہے۔ عظمت میرا ازار ہے، پس جو کوئی مجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے گا میں اسے آگ میں پھینک دوں گا ۔ (سنن ابو دائود)

کیونکہ احساس برتری کے تحت اپنے کسی غلط عمل پر سرکشی اور ہٹ دھرمی سے ڈٹے رہنا وہ گناہ ہے جس نے ابلیس جیسے عالم اور زاہد کو ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ کر دیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ قران پاک کی بہت سی سورتوں جیسے سورۃ ابراہیم سورۃ ص ورۃ سورۃ النبا میں سرکشوں کی سزا جہنم اور پیپ کا پانی بتایا گیا ہے یاد رہے کہ یہاں بتائی گئی جگر کی خرابی کی علامات میں منہ میں چپچپا سا ذائقہ محسوس ہونا بھی شامل ہے۔ بلکہ سورہ ابراہیم آیت نمبر 50 میں تو گندھک اور آگ کا لباس پہنائے جانے کا ذکر ہے جو کہ پیلا اور سیاہ یعنی یرقان کی صورت میں مریض کی جلد اور ناخنوں پر واضع ہونے والا رنگ پوتا ہے۔

مگر یہ سزائیں قران میں کافروں کے لیے بتائی ہیں جن کے لیے دنیا جنت ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالی کا امت محمدی پہ بہت بڑا احسان ہے کہ ہماری گناہوں اور خطاؤں کا بدلہ دنیا میں ہی اخرت کی سزا سے کا سترواں حصہ ہمیں گناہوں سے پاک کرنے کے لیے دے دیا جاتا ہے

تاکہ وہ اس بیماری کے ذریعے قبر میں گناہوں سے پاک ہو کر داخل ہو اور اللہ تعالی دنیاوی تکلیف کے ذریعے ان کی مغفرت کر دیں۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں کو جو شفا کا علم عطا کیا گیا confession اس کا اہم حصہ تھا تاکہ انسان عجب یا high self-esteem کی وجہ سے اپنے اوپر گناہوں کا بوجھ ڈال کر نہ پھرے جس سے اس کی روح بے چین اور جسم بیمار ہو جائے۔ بلکہ اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر اللہ تعالی نے ایک اور بہت بڑا کرم کیا ہے کہ ہمیں کنفیشن کے لیے اپنے علمائے دین کے پاس جانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ صرف بندے اور اس کے خدا کا معاملہ ہوتا ہے ۔

لہذا سورۃ ص کو اگر پڑھیں تو جہاں اس کے اغاز میں اللہ کی ہدایت کو نہ ماننے والے سرکش اور منکرین کا ذکر ہے۔اور اس میں بھی ان کی دیکر سورتوں کی طرح جہنم میں پیپ پینے کی یہ سزا بتا کر ھذَا ۚ وَاِنَّ لِلطَّاغِيْنَ لَشَرَّ مَاٰبٍ (55) (یہی بات ہے، اور بے شک سرکشوں کے لیے برا ٹھکانا ہے)جهَنَّـمَ يَصْلَوْنَـهَا فَبِئْسَ الْمِهَادُ (56) (یعنی دوزخ جس میں وہ گریں گے پس وہ کیسی بری جگہ ہے)۔ھذَا فَلْيَذُوْقُوْهُ حَـمِيْـمٌ وَّّغَسَّاقٌ (57) (یہ ہے پھر وہ اس کو چکھیں جو کھولتا ہوا پانی اور پیپ ہے۔) واٰخَرُ مِنْ شَكْلِـهٓ ٖ اَزْوَاجٌ (58) (اور اس شکل کی اور بھی کئی طرح کی چیزیں ہوں گی۔) ، سورہ کے آخر میں شیطان کا ادم کو سجدہ نہ کرنے کا قصہ سنایا گیا ہے۔

اس سورہ کا سب سے خوبصورت حصہ وہ ہدایت ہے جو اللہ تعالٰی نے اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کی مثالیں دے کر دی ہے کہ اللہ کا قرب اسے حاصل ہوتا ہے جو غلطی کرکے اس پر پشیماں ہوتا ہے اور اللہ سے رجوع کرتا ہے۔آیات نمبر 17 تا 26 حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ ہے جب اللہ تعالٰی نے انہیں انصاف سے فیصلہ کرنے کی تاکید کے لئے ان کے پاس فرشتوں کو بھیجا اس پر جب انہیں اپنے طرز عمل کا احساس ہوا تو وہ سجدے میں گر گئے اور اللہ سے ایسے معافی مانگی اور رجوع کیا کہ پرندے اور پہاڑ بھی ان کے ہم آواز ہو گئے۔

پھر آیات نمبر 30 تا 40 حضرت سلیمان کا قصہ ہے جب ان کے سامنے جنگی گھوڑے لائے گئے تو ان کو دیکھنے میں وہ ایسے مصروف ہوئے کہ عصر کے وظیفے کا وقت نکل گیا۔پھر وہ اس پر اپنے رب سے اتنے پشیماں ہوئے کہ ان بہترین مشکی گھوڑوں کو ذبح کر دیا جن کی خوبصورتی میں کھو کر وہ اپنے رب کی یاد سے غافل ہوئے۔ پھر آیات نمبر 42 تا 47 حضرت ایوب کا ذکر ہے جو اپنی مشکل وقت میں ساتھ دینے والی وفادار بیوی سے جب غلط فہمی کی بنا پر بدگمان ہوئے اور غصے میں قسم کھائی کہ میں اسے سو کوڑے ماروں گا۔ اس پر جب وہ پشیماں ہوئے اور اللہ سے رجوع کیا تو اللہ نے انہیں شفا بھی دی دیگر نعمتیں بھی لوٹائیں اور یہ راہ بتائی کہ اگر قسم کھا لی ہے تو جھاڑو کا تنکا لے کر اسے سو بار مار لیں۔

اس سورہ میں ان سب اور دوسرے بہت سے انبیاء کرام کو اللہ نے اپنے مخلص اور صالح بندے قرار دیا ہے اور اگر غور کریں تو ان تین انبیاء جن کے قصے اس سورہ میں بیان ہوئے ہیں ان کے ذکر کے ساتھ اللہ نے یہ اپنی محبت کی یہ وجہ بتائی ہے کہ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ اِنَّهٝ اَوَّابٌ (ص 30) ( کیسا اچھا بندہ تھا، بے شک وہ رجوع کرنے والا تھا)۔ لہذا یہاں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اول تو غیظ و غضب سے بچیں خصوصا اس حالت میں کوئی قدم اٹھانے سے گریز کریں اور اگر کوئی زیادتی کر رہا ہے تو یہ اللہ سے سودے بازی کر لیں کہ جس طرح میں نے صبر کیا اور معاف کیا تو بھی مجھے ایسے ہی بروز محشر معاف کرکے داخل جنت کرنا اور اگر کوئی زیادتی ہو گئی ہو تو بھلائی اسی میں ہے کہ بجائے اپنی انا اور زعم میں اس پر ڈٹے رہنے کے اسے کھلے دل سے تسلیم کیا جائے اسکی اصلاح کی جائے اور اللہ سے رجوع کیا جائے۔

اب اگر غذائی تبدیلی کی بات کی جائے تو وجہ پھر وہی سامنے آتی ہے جو دوسری تمام بیماریوں کا محرک ہے یعنی انسان کی بنائی ہوئی وہ مصنوعی کیمیکل سے بھرپور اس غذا کا استعمال انسان کے اندر غصہ اور جنوں بھرنے کا باعث بنتی ہے جو اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی فطری غذا نہیں ہے۔ قرآن پاک میں بنی اسرائیل کی سرکشی اور فساد کی وجہ سے کچھ غذائیں سے انہیں روکا گیا ہے ان میں سے ایک تو سورہ البقرة کی آیت نمبر 60 ہے جس کا ہر بار میں حوالہ دیتی ہوں یعنی كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّـٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ (البقرہ 60) ( اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے کھاؤ پیو اور زمین میں فساد مچاتےنہ پھرو۔) اور دوسری سورہ الانعام کی آیت نمبر 146 جس میں بتایا گیا ہے کہ وَعَلَى الَّـذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِىْ ظُفُرٍ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَـمِ حَرَّمْنَا عَلَيْـهِـمْ شُحُومَهُمَآ اِلَّا مَا حَـمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَآ اَوِ الْحَوَايَـآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذٰلِكَ جَزَيْنَاهُـمْ بِبَغْيِـهِـمْ ۖ وَاِنَّا لَصَادِقُوْنَ (146)یہود پر ہم نے ہر ناخنوں (پنجوں) والا جانور حرام کیا تھا، اور گائے اور بکری میں ان دونوں کی چربی حرام کی تھی مگر جو پشت پر یا انتڑیوں پر لگی ہوئی ہو یا جو ہڈی سے ملی ہوئی ہو، ہم نے ان کی شرارت کے باعث انہیں یہ سزا دی تھی، اور بے شک ہم سچے ہیں۔ یہاں پر بھی بنیادی طور پر انہیں دو طرح کی غذائوں یعنی حیوانی چربی جس کی شکل بناسپتی گھی ہے اور کیمیکل خواہ وہ خوراک کی شکل میں ہوں، دوائیوں کی یا آلودگی کی، کو جگر کے امراض کا محرک بتایا گیا ہے۔

لہذا اگر آپ کا مزاج گرم اور خشک ہے تو غیض و غضب کے جذبات کے نتیجے میں جگر کے امراض سے بچنے اور اگر انکا شکار ہو چکے ہیں تو نجات حاصل کرنے کے لیے مرغن مصالحہ دار گوشت اور چکنائی پر مشتمل خوراک بشمول جنک فوڈ سے مکمل اجتناب کریں اور روائتی ٹھنڈی تاثیر والی سبزیوں پھلوں اور مشروبات کا استعمال بڑھا دیں۔ خصوصا چائے کا استعمال ترک کرکے روایتی مشروبات جیسے لسی، ستو، گوند کتیرا اور چینی کی جگہ شکر کے استعمال کا اپنے آپ کو عادی بنائیں۔

مزید کچھ غلط غذائی عادات بھی اس مسئلے کو سنگین کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ جیسے ہم ایک گرم خطے میں رہتے ہیں لیکن اس بات کی پروا کیلئے بغیر ہم بعض گرم تاثیر والی اشیاء جیسے سپاری، تمباکو اور چاکلیٹس کا بکثرت استعمال کرتے ہیں حالانکہ سپاری اور چاکلیٹ سردی کے اثرات سے بچانے کے لئے سرد علاقوں میں استعمال کیے جاتے ہیں ۔ یعنی ایک طرف تو اپنی غذائی عادات کی اصلاح کریں اور دوسری طرف معاف کر دیا کریں اور شعوری طور پر اپنے ذہن کو دنیاوی گلے شکووں سے یہ سوچ کر آزاد کریں کہ جب ہم غصہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم دوسروں کے کئے کی سزا اپنے آپ کو دے رہے ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں اس دعا کو پسندیدہ قرار دیا ہے : وَمَا كَانَ قَوْلَـهُـمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُـوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِىٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِـرِيْنَ (ال عمران 147) اور انہوں نے سوائے اس کے کچھ نہیں کہا کہ اے ہمارے رب ہمارے گناہ بخش دے اور جو ہمارے کام میں ہم سے زیادتی ہوئی ہے (اسے بخش دے)، اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور کافروں کی قوم پر ہمیں مدد دے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button