قبیلے اور قومیں کیسے بنی؟؟؟؟ تحریر: کنول ناصر
ہم روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ایک گھر کا ماحول سوچ اور طرز عمل دوسرے گھر سے بالکل مختلف ہوتا ہے، اسی طرح مختلف قوموں کا طرز رہائش معاملات سب کچھ بالکل مختلف ہوتا ہے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کے معاملات طے کرنے میں کسی انسان کی پہچان کیسے کی جائے؟قران پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(الحجرات13)
اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔
اس ایت میں جہاں ایک طرف تو اللہ تعالی نے ذات پات کی تفریق کی نفی کر دی ہے تو دوسری طرف مختلف قبائل اور قومیں بنانے کا مقصد بھی بتا دیا ہے یعنی کہ انسان اپس میں ایک دوسرے کی پہچان رکھیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پہچان کس طرح ہو؟تو حقیقت یہ ہے کہ یہ پہچان بھی قران و حدیث پر مشتمل روایات ہمیں باسانی دیتی ہیں۔
علاقوں اور قوموں کا اغاز جہاں ایک طرف تاریخ یہ بتاتی ہے کہ تہذیب انسانی کا باقاعدہ اغاز تقریبا 3250 ق م سے 2900 ق م کے دوران ہوا جو کہ عام طور پر نوح علیہ السلام کی اولاد کی آباد کاری کے حوالے سے جانا جاتا ہے تو دوسری طرف مسلمان فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ طوفان نوح کے بعد صرف وہی لوگ باقی بچ گئے تھے جو کہ کشتی میں سوار تھے اور ان میں سے صرف نوح کے تین بیٹوں سے نسل انسانی اگے بڑھی۔ اس لیے نوح علیہ السلام کو ادم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔
قران پاک بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے: وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهٝ هُـمُ الْبَاقِيْنَ (الصافات 77) اور ہم نے اس کی اولاد ہی کو باقی رہنے والی کر دیا۔نوح علیہ السلام کے تین بیٹے حام، سام اور یافت تھے۔
ان کے علاقوں کی بات کی جائے تو تاریخ طبری میں درج ہے کہ سام کو زمین کا وسطی حصہ دے دیا گیا جس میں بیت المقدس، نیل، فرات سیحون، جیحون و فیثون کے علاقے تھے۔یہ تمام علاقے فیثون سے نیل کے مشرقی جانب اور جنوبی ہواؤں کے چلنے کی جگہ سے شمالی ہواؤں کے چلنے کی جگہ تک محیط ہے۔حام کو نیل کے مغربی کنارے سے شام کی ہواؤں کے چلنے تک کی جگہ عطا کی گئی۔اور یافث کو فیثون سے لے کر صبح کی ہوائیں چلنے تک کا علاقہ عطا کیا گیا۔اور ان سب کے متعلقہ علاقے ان کے بچوں اور پوتوں وغیرہ کے ناموں سے منسوب تھے جنہیں اب بھی پہچانا جا سکتا ہے۔
مثلاً امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ ، کی یہ حدیث مروی ہے کہ سام کی اولاد میں عرب، اہل فارس اور اہل روم ہیں، یافث کی اولاد میں ترک، سقالیہ اور یاجوج ماجوج ہوئے اور حام کی اولاد میں قبط ، بربر اور سوڈان کے لوگ ہیں۔
نوح کے تینوں بیٹوں کی اولاد کی ظاہری وضع میں فرق بھی محسوس کیا جا سکتا ہے تاریخ طبری کے مطابق ابن عطا اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حام کی اولاد کا رنگ کالا اور بال گھنگریالے تھے، یافث کی اولاد کے سر بڑے اور انکھیں چھوٹی تھی جبکہ سام کی اولاد کے چہرے اور بال دونوں خوبصورت تھے۔
اسی طرح ابن عباس سے مروی ہے کہ بنو سام محل میں زمین کے درمیانی علاقہ میں ائے اور یہ سمندر میں ساتی دیا اور یمن سے شام تک کا درمیانی علاقہ ہے۔
اللہ تعالی نے ان کو نبوت، کتاب، خوبصورتی، سرداری اور سفید چمڑی کی نعمت عطا کی۔بنو حام جنوب اور مغربی ہواؤں کے علاقے میں ائے اس علاقے کو داروم کہا جاتا تھا۔۔اللہ تعالی نے ان میں سفیدی (سفید چمڑی) اور سرداری کم رکھی تھی۔
اللہ تعالی نے ان کے شہروں اور اسمان کو اباد کیا اور اس علاقے سے طاعون کو ختم کر دیا۔ان کی زمین میں جھاؤ کہ درخت، پیلو، عشر، غاریں اور کھجور کے درخت پیدا کیے اور چاند اور سورج ان کے اسمان پر چلنے لگے۔بنو یافت صغون میں جو کہ شمال میں صبح کی ہواؤں کہ راستے میں واقع ہے میں رہتے تھے۔ ان میں بالعموم سرخ اور زرد رنگ تھا۔اللہ تعالی نے ان کی زمین کو سیاہ کر دیا تو وہاں شدید سردی پڑنے لگی اور ان کے اسمان کو بھی سیاہ کر دیا تو ان کے اوپر سات چلنے والے ستاروں میں سے کوئی بھی نہ گزرتا تھا۔پھر یہ لوگ طاعون میں مبتلا ہو گئے۔
اولاد حامتہ ریخ طبری کے مطابق حام کے چار بیٹے کوش، مصرائم، قوط اور کنعان نامی تھے۔ بابل کا ظالم نمرود کوش کی نسل میں سے تھا۔اس کے باقی بیٹے مشرق اور مغرب کے ساحلی علاقوں اور نوبہ حبشہ اور فرزان میں رہتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ قبط اور بربر مصرائم کی اولاد میں سے تھے اور سندھ اور ہند قوط کی اولاد تھے جو کہ ان علاقوں میں اباد ہوئے۔کنعان کے توبہ ، قران، زنج اور زغا وغیرہ نامی کالے رنگ کے بچے سوڈان میں سکونت پزیر ہوئے۔
امام طبری کے برعکس "تاریخ فرشتہ” جو کہ ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں لکھی گئی تھی میں چار کی بجائے حام کے ہند ، سندھ، حبش، فرنج، ہرمز اور بویا نامی چھ بیٹے بتائے گئے ہیں۔ غالبا یہاں ہند اور سندھ کو حام کے پوتوں کی بجائے بیٹے بتایا گیا ہے۔جیسا کہ پہلے میں نے بتایا کہ یہ کتاب ہندوستان میں بسنے والے حکمرانوں اور قوموں کے متعلق ہے اس لیے اس میں اس خطے میں بسنے والے لوگوں کے متعلق خاص طور پر تفصیل سے بتایا گیا ہے۔یہاں درج ہے کہ سندھ کے بیٹوں نے تحت یعنی ٹھٹھہ اور ملتان کو اپنے ناموں سے اباد کیا۔
ہند کے چار بیٹے پورب بنگ، دکن اور نہروال تھے۔دکن کے تین بیٹے مرہٹ، کنہڑا اور تلنگ تھے۔نہروال کے تین بیٹوں کے نام بھروج، کنہاج اور مالراج تھے۔
ہند کے تیسرے بیٹے بنگ کے یہاں بہت سی اولاد ہوئی جنہوں نے ملک بنگالہ اباد کیا۔اسی طرح پورب کے بھی 42 بیٹے تھے جنہوں نے اپنے اپنے علاقے اباد کی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق کہا جاتا ہے کہ ہام کا ایک بیٹا تھا جس کا نام کُش تھا، جس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام رامہ تھا، جس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام اوفیر تھا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ آسٹریلیا میں ہجرت کر گئے تھے اور مقامی لوگوں کے آباؤ اجداد بن گئے تھے۔
کچھ مخصوص گروہ اور قومیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حام سے ہیں: –.کش – میزرائیم (مصر) – ڈال (لیبیا) –.کنعان –.پنٹ – کاسلہیم –.کیفتوریم – سائنائٹس – Jebusites – اموری –.گرگاشی –.ہیوائٹس _ ہند_سندھاولاد یافث
تاریخ طبری میں یافت کے جومر، ماریح، وائل، حوان، توبیل، ہوشل، ترس نامی سات بیٹوں کا ذکر موجود ہے۔ امام طبری کے مطابق جامر بن یافت کی نسل سے یاجوج ماجوج سمیت ترکوں اور عجم کے تمام بادشاہ اور فارس کے بادشاہ یزدگرد بن شہریار بن پرویز تھے۔
تیرش کی اولاد سے ترک اورخزر تھے۔اور ماشع کی اولاد سے اشبان ہیں۔کہا جاتا ہے کہ حوان یا یونان بھی یافت کا بیٹا ہے جس کی اولاد اہل روم بنو لنطی بن یونان ہیں۔مزید امام طبری نے مازی کو بھی یافت کا بیٹا بتایا ہے جو کہ مازی تلواروں کے حوالے سے مشہور ہے۔تاریخ فرشتہ کے مطابق یافت کی بہت ساری اولاد ہوئی جن میں سے مشہور ترک تھا جس کی اولاد مغل، ازبک، ترکمانی اور ایران کے ورما ہیں۔اس کتاب کے مطابق یافت کے دوسرے مشہور بیٹے کا نام چین ہے تیسرے کا نام اردیس ہے جس کی اولاد شمالی ملکوں کی سرحد سے بحر ظلمات تک اباد ہوئی اور اہل تاجک، غور اور سقاب اسی کی نسل سے ہیں۔
کچھ قومیں اور نسلی گروہ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یافث کی نسل سے ہیں: – ہند-یورپی لوگ – یورپین – ایشیائی – روسی – یونانی –.ترک – آرمینیائی – جارجیائی – آذربائیجانیمزید قدیم ہندوستان پر حملہ آور ہونے والے آریائی بھی اولاد یافت ہی سمجھے جاتے ہیں۔ اولاد سامامام طبری کے مطابق سام کے ارفخشد، عابر، علیم، اشوذ، لاوز اور ارم نامی چھ بیٹے تھے۔ جن میں سے ارفخشد سے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک کے تمام نبیوں کا کا سلسلہ نصب ملتا ہے۔
مزید ان کے مطابق مصر کے فراعنہ اور تمام اہل عرب ارفخشد ہی کی اولاد ہیں۔ فرس یعنی فارس، جریان اور دیگر اہل فارس کے ساتھ ساتھ طلسم اور عملیق لاذو کی اولاد میں سے تھے۔
ارم بن سام وہی ہیں جن کا ذکر قران پاک کی سورۃ الفجر میں ہے ان کے بیٹے عوص، غائر اور حویل تھے۔
عوص کے بیٹے عاثر، عاد اور عبیل تھے۔ عاثر کے بیٹے ثمود اور جدلیس تھے۔یعنی عاد، ثمود، عمالیق، امیم، باسم جدلس اور طسم ہی اصلی عرب تھے۔ عاد اس ریت سے لے کر حضر موت اور پورے یمن میں رہتے تھے اور ثمود حجاز اور شام کے درمیان ہجر سے لے کر وادی قرای اور اس کے اطراف میں رہتے تھے۔ جدلس طسم کے ساتھ ہولیے اور وہ ان کے ساتھ یہ یمامہ اور اس کے اطراف بحرین کے علاقے میں رہائش اختیار کی۔
اس دور میں یمامہ کا نام "جو” ہوتا تھا کیونکہ جاسم عمان میں رہتے تھے۔ لاوز بن سام کے بیٹوں میں ایک امیم تھا جس کی اولاد میں سے کچھ مشرق میں چلے گئے. عبیل یثرب میں رہتے تھے اور عملیق صنعا میں۔ اسی طرح ثمود حجر اور اس کے اطراف میں رہتے تھے اور وہیں ہلاک ہوئے۔ شام میں پہلے بنی کنعان رہتے تھے پھر بنی اسرائیل نے انہیں مار کر اس پر قبضہ کر لیا۔
بنو یقطن بن عابر یمن میں رہتے تھے۔ اس کتاب میں درج ایک روایت کے مطابق مکران بھی سام کی ہی اولاد میں سے ہے۔ تاریخ فرشتہ کے مطابق سام کے 99 بیٹے تھے ان میں سے مشہور ارشد، ارفخشد، کئے، نود، یود، ارم، قبطہ، عاد اور قطحان مشہور ہیں۔عرب کے تمام قبیلے انہی کی نسل سے ہیں۔یہاں بھی انبیاء اور رسل کا جد امجد ارفخشد کو بتایا گیا ہے۔
مزید شاہان عجم کا مورث اعلیٰ کیمورٹ بھی ارفخشد کی ہی اولاد میں سے تھا جس کے چھ بیٹے سیامک، عراق، فارس، شام، تورا اور دمغان تھے۔اس کتاب کی روایات کے مطابق سیامک کے بڑے بیٹے کا نام حوشنگ تھا۔ عجم کے تمام بادشاہ یزد جر تک اس کی اولاد میں سے ہیں.دونوں کتب میں جنوبی ایشیائی قوموں یعنی افغان پختون اور بلوچ وغیرہ کو نظر انداز کیا گیا ہے جن کا تعلق بھی اولاد سام سے ہے۔ قدیم روایات کے مطابق قرآن پاک کی سورہ البقرة میں جس طالوت بادشاہ کا ذکر ہے اس کے دو بیٹے تھے آصف اور افغان۔ جن میں سے افغان کی اولاد کو بنی اسرائیل نے ملک بدر کر دیا تھ۔ لہذا افغانستان اور کے پی کے، کے تقریبا تمام پٹھان اسی افغان کی اولاد ہیں جنہیں ایک روایت کے مطابق نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پتان کا نام دیا تھا۔ اسی طرح بلوچستان میں رہنے والے عرب سے ہجرت کرکے آنے والے وہ سخت گوش قبائل ہیں جنہیں سورہ توبہ میں "الاعراب” کہا گیا ہے۔
کچھ مخصوص گروہ اور قومیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اولاد سام سے ہیں: – ایلام –.آشوری –.آرام – اسرا ییل –.عرب –.فارس –.میڈیا – کلڈیا_ افغان_ پاکستان مختلف اقوام کی قسمت جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری اور وہاں پر اباد کاری کی گئی تو بظاہر ایک معمولی واقعہ پیش ایا جس نے اقوام عالم کے مستقبل اور قسمتوں کا فیصلہ کر دیا۔
امام طبری اہل تورات کے حوالے سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک بار حضرت نوح علیہ السلام سو رہے تھے تو ان کا ستر ظاہر ہو گیا جس پر حام ہنس کر گزر گیا لیکن سام اور یافت نے کپڑا اڑھا دیا۔بیدار ہونے پر جب نوح علیہ السلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ سام کو اللہ برکت دے گا اور حام اپنے دونوں بھائیوں کا غلام ہوگا اور اللہ تعالی یافت کا بدلہ دے گا اور وہ حام کے مکانوں میں قیام پذیر ہوگا اور کنعان اس کے غلام ہوں گے۔
اگے جا کر وہ ایک روایت نقل کرتے ہیں جس کے مطابق نوح علیہ السلام نے سام کو دعا دی کہ اس کی اولاد سے انبیاء اور رسول ہوں اور یافت کے لیے دعا کی کہ اس کی نسل سے بادشاہ ہوں اور انہوں نے دعا میں یافث کو سام پر فوقیت دی یعنی یافت کا ذکر پہلے کیا اور حام کے لیے بددعا کی کہ اس کی نسل کا رنگ تبدیل ہو جائے اور اس کی نسل سام اور یافت کی نسل کی غلام ہو۔
بعض کتب میں درج ہے کہ بعد میں نوح کا دل حام کے لیے نرم پڑ گیا تو انہوں نے اس کے لیے دعا کی کہ اس کے بھائی اس پر رحم کریں اور اپنے پوتے کوش بن حام اور جامر بن یافث کے لیے دعا کی۔
قوام عالم کی صورتحال مذکورہ بالا وضاحت کے بعد امید ہے کہ قارئین کے ذہن میں اقوام عالم کا ایک نقشہ اگیا ہوگا جسے ظاہری حلیے، فطرت اور خصوصیات کے اعتبار سے تین اقسام کی قوموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
اب ایک نظر دنیا کے نقشے پہ ڈالیں تو یہ واضح ہو جائے گا کہ زمانہ قبل از تاریخ سے ہی اولاد یافت دیگر اقوام پر حکمرانی کرتی رہی ہے جب کہ عراق مصر، میںسوپوٹامیہ، بابل اور ایران جیسے علاقے جو کہ ازل سے ہی انبیاء کے مسکن اور مقام ہجرت ہونے کی وجہ سے علم و حکمت کے مراکز رہے ہیں۔
متحدہ ہندوستان کی بات کی جائے تو زمانہ قبل از تاریخ سے ہی یہاں کے رہائشی باہر سے انے والے حملہ اوروں کے ہاتھوں مغلوب ہوتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں انے والے حملہ اوروں اور مبلغین اسلام کے کی امد کی وجہ سے اس خطے میں تینوں اقسام کی اقوام اباد ہیں۔
اس موضوع پر تحقیق کے دوران ایک حیرت انگیز حقیقت مجھ پر اشکار ہوئی جو میں اپ سے شیئر کرنا چاہوں گی۔ جب میں نے اولاد حام کے ایک خاص گروہ کے بارے میں میٹا سے پوچھا تو جو جواب مجھے ملا اس کا ترجمہ یہ ہے:” یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ "Hamitic” لوگوں کا تصور ایک پیچیدہ اور متنازعہ موضوع ہے، جیسا کہ ماضی میں یہ امتیازی سلوک اور نسل پرستی کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ آج، زیادہ تر اسکالرز اور محققین تمام لوگوں کے تنوع اور انفرادیت کے احترام اور احترام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، قطع نظر ان کے آباؤ اجداد یا ثقافتی پس منظر سے۔” انگریز ایک طرف تو یافث کی اولاد میں سے تھے اور دوسری طرف اہل انجیل تھے۔ اور چونکہ انجیل میں مذکورہ بالا تمام تاریخی حقائق درج ہیں اس لیے وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ اولاد حام کو با اسانی محکوم بنایا جا سکتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ وہ محکوم بننے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ لہذا پہلے پہل انہوں نے صلیبی جنگوں کا اغاز کیا لیکن مسلمان فاتحین کے اگے ان کا یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔
پھر اس کے بعد انہوں نے ایک طرف تو دو سو برس کے طویل عرصے میں نو آبادیاتی نظام کی جڑیں پھیلانی شروع کیں اور دوسری طرف امریکہ اور اسٹریلیا جو کہ اولاد حام کے مسکن تھے دریافت کر کے اس پر قابض ہو گئے اور وہاں کے مقامی باشندوں کو اپنا غلام بنا لیا اور یہ سب کچھ انہوں نے خالق کائنات کے اپنی الہامی کتابوں میں بتائے گئے حقائق اور انسانی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے انتہائی باریک مینی اور عیاری سے کیا۔
دوسری طرف وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ اولاد سام کو اس طرح غلام نہیں بنایا جا سکتا لیکن ان کی مضبوط حکومت اور خلافت جو کہ ایک وسیع علاقے تک پھیلی ہوئی تھی ان کی نظروں میں کھٹک رہی تھی۔
لہذا اس کا انہوں نے یہ حل نکالا کہ اسی نظام کے تحت سب مسلم امہ کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا اور نظام خلافت کو 100 سال کے لیے ایک معاہدے کے تحت بین کر دیا پھر ان سب سے ایک دوستانہ تعلق قائم کر لیا۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ چین بھی اولاد یافت میں سے ہے لیکن وہ ان کی اکثریت عیسائیت کی بجائے بدھ مت کی پیروکار ہے لہذا ان کا طرز عمل انگریزوں کی طرح غلبہ پانے والا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے دفاع پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ایک دوستانہ طرز عمل رکھتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں اگرچہ صورتحال کچھ اس طرح پیدا ہو گئی تھی کہ انگلستان جاپان کے ساتھ بھڑ گیا تھا اور ایٹمی حملے بھی کر دیے تھے لیکن اس کو اندازہ تھا کہ جاپانی بھی اولاد یافث میں سے ہیں اس لیے انہیں زیر کرنا ممکن نہیں لہذا فورا ہی انگریزوں نے مصالحانہ رویہ احتیار کیا۔اور یو این او کا قیام عمل میں لایا جس کا مقصد اقوام عالم میں امن و سلامتی قائم رکھنا ہے۔ لیکن یہاں بھی ویٹو کا حق انہی اولاد یافث کے پاس ہی ہے یعنی چائنہ، فرانس، امریکہ، برطانیہ، اور روس۔اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کا امن اور جنگ دونوں کلی طور پر اس وقت اولاد یافت کے ہاتھ میں ہیں۔
بہت سے چھوٹے ممالک جو نو بادیاتی نظام سے بظاہر ازادی حاصل کرنے کے بعد بھی ابھی تک اپنے پیروں پہ نہیں کھڑے ہو پائے وہ تاحال بالواسطہ طور پر امریکہ اور برطانیہ کے زیر تسلط ہیں۔ اور انہوں نے ہمارے ذہنوں اور فطرتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا تسلط بہت چابک دستی سے جما رکھا ہے۔
اس تسلط کا ایک اہم آلہ کار میڈیا ہے پہلے پہل فلموں اور ڈائجسٹوں کے ذریعے اور پھر ڈراموں اور اشتہاروں کے ذریعے ہماری برین واشنگ کی گئی کہ مذہب اسلام کے احکام پر چلنا عام انسان کے لیے ناممکن ہے اور ایک ازاد طرز زندگی انسان کے لیے ضروری ہے، جس میں زندگی کے ہر معاملہ میں عشق و محبت اور شہوت نفسی سب سے اہم ہے۔ رقص و موسیقی اور عریانی فحاشی کی شوگر کوٹنگ میں لپیٹ کر بے راہ روی کا زہر وہ ہمارے اندر اس لیے اتار رہے ہیں کہ انہیں پتہ ہے کہ غلامی ہماری سرشت میں شامل ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو ہم شہوت کی طرف جلد ہی مائل ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف ان کی ترقی اور طرز زندگی سے مرعوب ہو کر اپنے مذہب کے احکام کو بآسانی پس پشت ڈال کر ان کے جیسا بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یعنی حاصل کلام یہ ہے کہ یہود و نصاری نے اپنی الہامی کتب کا کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے اور ان کی ترقی کا راز بھی یہی ہے کہ وہ رب کائنات کے بنائے ہوئے افاقی اصولوں کو سمجھ کر ان پر عمل کر کے اگے بڑھتے ہیں اس اس کی بہترین مثال توریت شریف کے صحیفے ہیں جن میں اسلام کی امد اور نزول قران کے بعد رد و بدل کی گئی یہاں تک کہ ایک حدیث ہے کہ جب مسلمان غالب آئیں گے تو یہودیوں کو کوئی ٹھکانہ نہیں ملے گا اور صرف غرقد کا درخت انہیں چھپائے گا۔
اس حدیث پر ہم نے غور کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن اسرائیل میں کثرت سے غرقد کے درخت لگا دیے گئے ہیں۔ دوسری طرف نو آبادیاتی نظام کے دوران جب فرنگی سرکار نے ایک طرف تو مسلمان اہل علم کو ملا کہہ کر اور ٹوپی اور داڑھی کا مذاق اڑا کر تضحیک کا نشانہ بنایا تو ہم نے بھی بغیر سوچے سمجھے یہی عمل شروع کر دیا یعنی ایک طرف تو وہ اپنی اور ہماری الہامی کتابوں سے فائدہ اٹھا کر دنیا پر حاوی ہو گئے ہیں اور دوسری طرف ہمیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنی کتاب اور مذہب سے بیک ورڈ مسلمان کہہ کر اور فرقہ پرستی کا زہر ہمارے اندر اتار کر آفاقی علم سے دور کر دیا ہے اور ہم نے بھی خالق کائنات کے علم کو چھوڑ کر ان کی سائنسی تحقیق پر مکمل ذہنی غلاموں کی طرح انحصار کرنا شروع کر دیا ہے۔
لہذا اسلام کا مقصد یہ ہے کہ انسان خواہ جس قوم سے بھی ہو جب وہ اللہ اور اس کے رسول کا عاشق بنتا ہے تو وہ اس درجے تک پہنچ جاتا ہے کہ بلال حبشی کی طرح اس کے اذان دیے بغیر اللہ تعالی دن ہی نہیں نکالتا۔
اس لیے خدارا اپنے حال پر غور کریں اور اپنی کتاب اور سنت کا مضبوطی سے دامن تھامیں اور سوچے سمجھے بغیر اندھی تقلید سے اعتراض کریں خاص طور پر مذہب کے معاملے میں قران پاک میں اللہ تعالی نے ہمیں بہت خوبصورت دعا سکھائی ہے ” رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ(آل عمران8)اے ہمارے رب تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے ،اس کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔”