ڈاکٹر اختر کالرو کا سورج غروب ۔۔قاضی نے گھر بھیج دیا،انٹری بین تنخواہیں واپس لینے کا حکم
سپریم کورٹ آف پاکستان کے بینچ نمبر 1 میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افگن اور جسٹس شاہد بلال حسن نے وائس چانسلر تعیناتی کیس میں این ایف سی یونیورسٹی ملتان کے غیر قانونی اور ناجائز وائس چانسلر اختر علی ملک کالرو کو فوری برخاست کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے فوری طور پر یونیورسٹی میں داخلہ بند اور 2018 کی صدر پاکستان کی جانب سے برخاستگی کو برقرار رکھتے ہوئے 2018 سے تمام تنخواہیں واپس لینے کا حکم جاری کر دیا۔
تفصیل کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کورٹ آرڈر پڑھ کر سنایا کہ آخری آرڈر کے مطابق ناجائز وائس چانسلر اختر علی ملک کالرو سیاسی وابستگی اور قانون کی غلط تشریح کے باعث اپنے غیر قانونی قبضے کو طول دے رہے ہیں تو قاضی فائز عیسیٰ نے ناجائز واءس چانسلر اختر کالرو کو روسٹرم پر طلب کر لیا کہ آپ کی تعیناتی کس نے کی تھی تو وائس چانسلر اختر کالرو نے جواب دیا کہ صدر آصف علی زرداری نے تعینات کیا تھا۔
قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کتنے عرصے کے لیے تعینات کیا تھا۔ ناجائز واءس چانسلر اختر کالرو نے بتایا کہ 4 سال کے لیےز قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ کی تعیناتی کی تاریخ کیا ہے۔ اختر کالرو نے جواب دیا 29 جون 2012۔ قاضی فائز عیسیٰ نے حیرانگی کا اظہار کیا کہ کیا مطلب۔۔۔2012 سے 4 سال تو 2016 تک بنتے ہیں۔
جس پر اختر کالرو نے کہا کہ مجھے 2016 میں پرو چانسلر نے توسیع دی تھی۔ قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ پرو چانسلر کون تھا تو اختر کالرو نے جواب دیا کہ پرنس عیسیٰ جان۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تھوڑی بہت شرم کر لیں۔ آپ لوگ کب برٹش ایمپائر سے نکلیں گے۔ کیا پرنس ، کون پرنس۔ جس پر اختر کالرو نے جواب دیا کہ سوری سر، عیسیٰ جان بلوچ، تو آپ نے ان سے معاملات مینج کر کے توسیع کی ہو گی۔
اختر کالرو نے بات بدلتے ہوئے کہا کہ مجھے 2017 میں سینیٹ نے توسیع دی ۔ زیادہ ووٹ میرے حق میں تھے مگر پھر بھی صدر پاکستان نے قانون کی خلاف ورزی کی۔ قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کتنے عرصے کی توسیع دی گئی تھی تو اختر کالرو نے جواب دیا کہ چار سال ل، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سینیٹ کے منٹس پڑھ کر سنائے کہ سر یہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں ۔ ان کو 2 سال کی توسیع دی گئی تھی ۔ جو کہ 2018 میں ختم ہو گئی تھی اس کے بعد سے یہ غیر قانونی قابض ہیں۔
تو قاضی فائز عیسیٰ نے اختر کالرو سے کہا کہ پبلک آفس پر قبضہ کرتے ہوئے شرم نہیں آئی تو اختر علی کالرو نے کہا کہ سر میں لیگل بیٹھا ہوں، قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیسے لیگل ہو۔ تو اختر کالرو نے جواب دیا کہ مجھے عیسیٰ جان نے اور بعد ازاں اس وقت کے پرو چانسلر تنویر اشرف کائرہ نے توسیع دی ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ پرو چانسلر توسیع دے ہی نہیں سکتا جس پر این ایف سی ایکٹ کا سیکشن 12(4) پڑھ کر سنایا گیا تو اس میں تھا کی صرف اور صرف صدر پاکستان سینیٹ کی قرارداد سے ایک بار توسیع دے سکتے ہیں۔
جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نہایت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری صاحب ۔آپ نے ان جیسوں کو وائس چانسلر لگا دیا تو تعلیم کا تو بس اللّہ ہی حافظ ہے۔ یہ کہیں سے پروفیسر نہیں لگتے آپ نے ان کو پبلک سیکٹر یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگا رکھا ہے۔
اختر کالرو سے سوال کیا کہ آپ اس بات کا جواب دیں کہ آپ کیوں اب تک بیٹھے ہیں۔ جس پر اختر کالرو نے جواب دیا کہ سر قانون کے تحت بیٹھا ہوں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت بیٹھے ہو تو اختر کالرو نے گول مول جواب دینا شروع کر دیے۔
جس پر چیف جسٹس نے سیکرٹری وفاقی وزارت تعلیم سے نہایت تشویش کا اظہار کیا کہ یہ بندہ کہیں سے پڑھا لکھا نہیں لگتا ۔آپ نے اس کو وائس چانسلر لگا دیا۔ عمر کتنی ہے تو اختر کالرو نے کہا کہ 65 سال 3 ماہ، (حالانکہ حقیقتاً 65 سال ، 8 ماہ) خیر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ تم تو عمر کی حد بھی کراس چکے ہو ، پھر کیوں کرسی سے چپکے بیٹھے ہو۔
اختر کالرو نے بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے سیکرٹری سے کہا کہ اسے پیچھے بھیج دیں۔ ورنہ میں توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دوں گا۔ تم نے پاکستان میں کرپشن کی ایک داستان رقم کی ہے۔ میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں چاہتا کہ یہاں بیٹھے 30 سے زائد واءس چانسلرز ناراض ہو جائیں اس لیے بہتر ہے کہ میں 2 آپشن دے رہا ہوں کہ یا تو خود سیٹ چھوڑ دو ورنہ ہم اڑا دیں گے اور اڑانے کی صورت میں 2018 سے تمام تنخواہیں اور دیگر مراعات واپس کرنی پڑیں گی۔ سوچ لو۔
مگر ڈھٹائی پر قائم کرسی سے چپکنے کی خواہش رکھنے والےاختر کالرو نے سیٹ پر رہنے کا کہا تو چیف جسٹس نے کہا کہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ایسی معتبر سیٹوں پر اتنے بد معاش لوگوں کو بٹھا رکھا ہے جو کہ ذاتی قابض لوگ ہیںز یہ وائس چانسلر کہلانے لائق نہیں بلکہ یہ ایک قبضہ مافیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آرڈر لکھوانا شروع کیا تو اختر کالرو نے کہا کہ سر بات سن لیں۔ ہم عزت دار لوگ ہیں۔ میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس مزید غصے میں آ گئے اور کہا کہ تم یہ کیا بچگانہ حرکتیں کر رہے ہو۔ شرم آنی چاہیے ۔ سیاسی پشت پناہی سے بیٹھے رہے اور کسی کو نکالنے کی جرات ہی نہ ہوئی ۔ جاؤ اپنی سیٹ پر بیٹھو ورنہ پولیس کو ابھی آرڈر کر دوں گا۔ جس پر اختر کالرو خاموش ہو گیا۔
اختر کالرو کو ڈپٹی رجسٹرار لیگل نذیر احمد چشتی لقمہ دینے لگا تو چیف جسٹس نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم کون ہو۔
نذیر چشتی نے کہا کہ سر میں ڈپٹی رجسٹرار ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جاؤ بیٹھ جاؤ۔ پھر اختر کالرو نے بولنا شروع کیا تو چیف جسٹس نے شٹ اپ کال دی اور کہا کہ تم میری نظروں سے دور ہو جاؤ ورنہ کوئی سخت آرڈر لکھوا دوں گا۔
پھر چیف جسٹس نے ڈپٹی رجسٹرار کو بلا لیا۔ پوچھا تمہاری عمر کتنی ہے نذیر چشتی نے کہا کہ 67 سال تو چیف جسٹس نے کہا کہ تم کیسے بیٹھے ہو تو جواب دیا کہ مجھے وی سی نے رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تم وکیل ہو۔ تو نذیر چشتی نے کہا کہ جی سر لاء کیا ہوا ہے ۔ کہاں سے لاء کیا ہے تو نذیر چشتی نے کہا کہ بی زیڈ سے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ وہ کیا ہے تو جواب دیا کہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لاء پڑھنا نہیں آتا یا جان بوجھ کر الٹے مشورے دیتے ہو۔ ارے تمہیں تو وی سی نے رکھا ہے تو وفاداری یونیورسٹی کے ساتھ رکھو۔ نا کہ وی سی کے ساتھ۔ دل چاہ رہا ہے کہ تم کو بھی گھر بھیج دوں۔ جاؤ جا کر اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ۔
چیف جسٹس نے انتہائی افسوس کا اظہار کیا کہ کیسے کیسے لوگوں کو واءس چانسلر کی سیٹیں دے دیتے ہیں۔ ہر طرف ایک طوفان بد تمیزی مچا ہوا ہے۔
اٹارنی جنرل صاحب یہ کیس تو لائیو ٹرانسمیشن کا تھا تاکہ اس کو دیکھ کر دوسرے لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور آئندہ کوءی ایسی حرکت کی جرات نہ کرے۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے باقی 2 ججز کی مشاورت سے فیصلہ لکھوایا کہ اس کی فوری طور پر انٹری یونیورسٹی میں بند کی جائے اور 2018 کے بعد سے تمام تنخواہیں اور مراعات واپس لی جاءیں اور وفاقی وزارت تعلیم کو ہدایات دیں کہ فوری طور پر کسی سینیر شخص کو چارج دے کر نئے واءس چانسلر کی تعیناتی مکمل کریں اور اختر کالرو چاہے تو اس فیصلے کے خلاف اپنا وکیل مقرر کر لے۔