ڈاکٹر اختر کالر این ایف سی پر قابض ہیں : سپریم کورٹ کاتفصیلی فیصلہ جاری
ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں بد انتظامی کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کیس کا 11 جولائی کی سماعت کا تفصیلی فیصلہ 30 اگست کو جاری کر دیا گیا ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے وفاقی اور صوبائی وزارت تعلیم کو 15 مئی 2024 کو نوٹسز جاری کیے گئے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں پبلک سیکٹر کی تمام یونیورسٹیوں کے حوالے سے اپنی رپورٹس پیش کریں اور ایسی تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی نشاندہی کریں جن میں وائس چانسلرز کا عہدہ اور دیگر انتظامی عہدے ابھی تک خالی پڑے ہیں یا قائم مقام چارج کی بنیاد پر رکھے گئے ہیں، مزید یہ حکم دیا گیا کہ رپورٹس میں ایسی یونیورسٹیوں کے اپنے متعلقہ قوانین میں طے شدہ سینٹ، سینڈیکیٹ، اکیڈمک کونسل یا بورڈ آف گورنرز کی میٹنگز کے متواتر انعقاد کے حوالے سے قانونی تقاضوں کو بھی ظاہر کریں کہ کیا وہ ان میٹنگز کا انعقاد کر رہے ہیں۔
اس عدالت نے 15 مئی 2024 کے مذکورہ حکم کے ذریعے یہ بھی ہدایت کی تھی کہ وائس چانسلرز، پرو وائس چانسلرز، ریکٹرز، صدور، نائب صدر، رجسٹرار، فیکلٹیز اور شعبہ جات کے سربراہان، کنٹرولر آف ایگزامینیشن، ڈائریکٹر فنانس کی آسامیاں جن کا ذکر قابل اطلاق قوانین میں کیا گیا ہے، جہاں کہیں بھی خالی پڑی ہوں، جتنی جلدی ممکن ہو پر کی جائیں اور یہ تمام امور قابل اطلاق قوانین کے مطابق کئے جائیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل (‘AAG’) نے وزارت برائے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے سیکرٹری محی الدین احمد وانی کی جانب سے رپورٹ (CMA 5934 /2024) پیش کی، اس سماعت میں وفاقی وزارت تعلیم کے سینیئر جوائنٹ سیکرٹری عبد السّتار کھوکھر اور ڈپٹی ڈائریکٹر لیگل ڈاکٹر آغا حیدر بھی پیش ہوئے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کو بتایا گیا کہ وفاقی وزارت تعلیم کے دائرہ کار میں صرف 12 یونیورسٹیاں ہیں، اور ان میں ملتان میں قائم نیشنل فرٹیلائزرز کارپوریشن انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، ملتان کے بارے میں رپورٹ بھی پیش کی گئی۔
اس بارے وضاحت بھی دی گئی کہ انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اختر علی ملک ایک دہائی سے زائد عرصے سے وائس چانسلر، این ایف سی انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، ملتان کے عہدے پر غیر قانونی طور پر قابض ہیں کیونکہ ان کی تعیناتی بھی این ایف سی یونیورسٹی ملتان کے ایکٹ میں طے شدہ اصولوں اور قوانین کے مطابق نہیں کی گئی جو کہ صرف اور صرف سی وی کی بنیاد پر ہوئی اور جس کے لیے کسی بھی قسم کی سرچ کمیٹی بھی تشکیل نہیں دی گئی تھی جبکہ وہ غیر قانونی طور پر اپنے قیام کو بڑھانے کے لیے سیاسی تعلقات اور انسٹی ٹیوٹ کے قواعد و ضوابط کی غلط تشریح کرتے رہتے ہیں۔
نیز درج ذیل عہدوں کو قائم مقام چارج کی بنیاد پر پُر کیا گیا ہے، رجسٹرار (13 جون 2019 سے)، خزانچی (1 جنوری 2022 سے) اور کنٹرولر امتحان (1 ستمبر 2020 سے)۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے یہ حکم بھی دیا گیا کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اس حکم کی وصولی کے چودہ دنوں کے اندر تحریری طور پر سپریم کورٹ کو وضاحت پیش کریں گے کہ گزشتہ 12 سال سے قابل اطلاق قانون کی خلاف ورزی کیونکرجاری ہے اور وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اختر علی ملک اگلی تاریخ سماعت پر حاضر ہونے کے پابند ہوں گے۔
رپورٹس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایچ ای سی نے تعلیمی اور غیر تعلیمی عملے کا ایک مثالی تناسب 1:1.5 مقرر کیا ہے یعنی ایک ٹیچر پر ڈیڑھ ملازم مگر سیاسی اکھثارے بنائے جانے والی بعض یونیورسٹیوں ایک ٹیچر کے مقابلے میں چار چار ملازمین سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے ہیں، اس قانون کی پاسداری کرنے میں تقریباً تمام یونیورسٹیاں ناکام ہو رہی ہیں کہ غیر تعلیمی عملہ مذکورہ تناسب سے کہیں زیادہ ہے، یہ یونیورسٹیوں کو درپیش مالی مسائل کی ایک وجہ معلوم ہوتی ہے۔
فیڈریشن، صوبوں اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کو یہ بھی یقینی بنانے کے لیے ہدایات جاری کریں کہ یونیورسٹیاں غیر تعلیمی عملے کی مزید ملازمت پر پابندی عائد کریں گی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کو اپنے متعلقہ قوانین کی تعمیل کرنی چاہیے اور اگر ان کے وائس چانسلرز اس کو نظر انداز کر رہے ہیں تو اس کا کوئی جواز نہیں، آئینی پٹیشن نمبر 7/2024 کے مطابق انہیں یہ وجہ ظاہر کرنا ہوگا کہ وہ کیا اب بھی اپنے متعلقہ عہدوں پر فائز رہنے کے اہل ہیں۔
ان یونیورسٹیوں کے قوانین کا تقاضا ہے کہ سنڈیکیٹس، سینیٹ، بورڈ آف گورنرز اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاس ذجیسا کہ قابل اطلاق ہو، وقتاً فوقتاً منعقد ہونا چاہیے۔
یونیورسٹیوں کو وائس چانسلرز، صدور، نائب صدر، رجسٹرار، فیکلٹیز اور شعبہ جات کے سربراہان، امتحانات کے کنٹرولر اور ڈائریکٹر فنانس کے اہم عہدوں کو خالی نہیں چھوڑنا چاہیے اور نہ لمبے عرصے تک ایڈیشنل چارج دیا جا سکتا ہے جو کہ در حقیقت غیر قانونی ہے اور ایسا کرنے سے وہ قابل اطلاق قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس حالت کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس میں قانون کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ بہت سے معاملات ان یونیورسٹیوں وائس چانسلرز کی ذاتی خواہش پر ان قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معاملات چلائے جا رہے ہیں، یہ خلاف ورزیاں ماہرین تعلیم، پاکستانی یونیورسٹیوں کی ساکھ اور مقام کو بری طرح متاثر کرتی ہیں اور ان کی طرف سے دی گئی ڈگریوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔اس آرڈر کی کاپیاں متعلقہ وائس چانسلرز/ریکٹرز کو بھیجی جائیں اور ان تمام لوگوں کو بھیجا جائے جو اس کی تعمیل نہیں کرتے، جنہیں نوٹس کی وصولی کے دو ہفتوں کے اندر اپنے اپنے دستخطوں کے تحت جواب جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ کیوں قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اپنی متعلقہ یونیورسٹی کو چلانے والے قانون کی تعمیل نہیں کر رہے ہیں اور ان کے خلاف مناسب کارروائیاں شروع کرنے کی سفارش کیوں نہیں کی جا سکتی۔
حکم دیا گیا ہے ایسے تمام متعلقہ وائس چانسلرز و دیگر متعلقین آئندہ سماعت پر حاضر بھی ہوں گے۔