اگرچہ یہ مضمون اس سلسلے کا حصہ نہیں ہے جو کہ بیماریوں کی روحانی وجوہات کی وضاحت کے سلسلے میں مسٹر کیڈن کے مضامین گا پر مبنی ہے تاہم اس کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ اختتام پزیر ہے اور یہ ایسا مبارک مہینہ ہوتا ہے جس میں ہر کوئی اپنی مصروفیات میں سے عبادات کے لئے خصوصی وقت نکالتا ہے جس کی وجہ سے روحانی ترقی کا ایک ماحول سا بن جاتا ہے، لہذا اگر ہم اپنی دنیا اور اخرت کی بھلائی کے لیے اپنے اپ میں کوئی مستقل مثبت تبدیلی لانا چاہیں تو یہ بہترین وقت ہے۔
ذیابطیس وہ حالت ہے جس میں مبتلا افراد میں، یا تو لبلبہ انسولین بنانے والے ہارمون کو پیدا نہیں کر سکتا یا اس کا صحیح جواب نہیں دے سکتا۔ اس کے بغیر، گلوکوز خلیوں میں نہیں جا سکتا، اور اس لیے یہ خون کے دھارے میں رہتا ہے۔ اس لیے خون میں شوگر کی سطح معمول سے زیادہ رہتی ہے۔
زیابطیس ایک ایسا عارضہ ہے جس نے نہ صرف ہمارے ملک بلکہ ساری دنیا میں ہر گھر میں سے ایک دو افراد کو متاثر کر رکھا ہے اور جسے مکمل طور پر لاعلاج سمجھا جاتا ہے لیکن قرآن و حدیث ہمیں امید دلاتے ہیں کہ وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ(الشعراء 80) (اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شِفا دیتا ہے) لیکن کسی بھی مسئلے پر قابو پانے کے لیے اس کی نوعیت کو صحیح طرح پہچاننا اور تسلیم کرنا پہلی شرط ہے لہذا ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس مسئلے کے محرکات کیا ہوتے ہیں اور روحانی طور پر کس طرح اسے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
انسان کے جذباتی عدم توازن کو جانچنے کے لیے سب سے پہلے امام رضا علیہ السلام نے یہ کہہ کر بنیاد دی کہ”رنج کی اصل تلی میں ہے اور خوشی کی گردوں میں اور معدے کی جھلی میں۔ان دونوں مقامات سے دو رگیں چہرے تک اتی ہیں یہی وجہ ہے کہ خوشی اور رنج کے اثرات چہرے پر نمایاں ہو جاتے ہیں۔اس طرح کے رگیں سب کی سب بادشاہ اور اس کے عاملوں کے درمیان راستے ہیں” یہاں بادشاہ سے مراد دل اور اس کے عاملوں سے مراد جسم کے باقی تمام اعضا ہیں۔
لہذا ثابت ہوا کہ انسان کے مختلف جذبات اور احساسات کا تعلق مختلف اعضاء سے ہے۔
لہذا مسٹر بلغاریہ کیڈن نے بھی لبلبے کا کام کچھ اس طرح بتایا ہے”لبلبہ آپ کے اندر محبت کے اظہار اور انضمام کی آپ کی صلاحیت اور بغیر درد کے محبت کے مخالف جذبات کو سنبھالنے کی آپ کی صلاحیت کی نمائندگی کرتا ہے۔
لبلبہ میں دشواری اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آپ کے جذبات میں بے ترتیبی اور الجھن ہے، جس کی وجہ سے ہاضمے میں دشواری ہوتی ہے۔ آپ دوسروں پر کنٹرول اور طاقت رکھنا چاہتے ہیں، آپ اندر سے گھبرا جاتے ہیں، اور اپنے لیے عزت کم ہو جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جب رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اندرونی جدوجہد ہوتی ہے، آپ نئے چیلنجوں سے ڈرتے ہیں، اور آپ جنگ میں تھک جاتے ہیں، جس کی وجہ سے توانائی کی سطح کم ہوتی ہے۔
یہ طبی مسائل ان لوگوں میں بھی پیدا ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ زندگی میں کسی بھی چیز سے لطف اندوز ہونے کے لائق نہیں اور اکثر اپنی ضروریات کو ترجیح دینے کے بجائے دوسروں کو خوش کرتے ہیں۔ افراد اپنے اندر بہت زیادہ اداسی کا تجربہ کرتے ہیں، جسے وہ اچھی طرح چھپاتے ہیں۔
اگر ذیابطیس کے کیسز کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اپنے ارد گرد ایسے لوگ اس میں مبتلا نظر ائیں گے جن کو شروع سے اپنے قریبی لوگوں سے مستقل طور پر ملامت طنز اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پہ طویل عرصہ تک ذلیل بے عزت ہو کر گزارا کرنے والی بہو یا بیوی بچوں کے ہاتھوں مستقل بے عزت ہو کر زندگی گزارنے والا باپ یا پسند کی شادی کرنے والے دونوں میاں بیوی یہاں تک کہ ٹائپ ون زیابطیس جس میں بچے کو والدین کی طرف سے بے جا سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا ہوتا ہے۔
لہذا ایک طرف یہ زیادتی پر مبنی رویے اور دوسری طرف نشاستہ دار ٹھنڈی، میٹھی، خشک اور کیمیکل مبنی غذائیں اس انسان میں سرد خشک یا سوداوی مزاج کا غلبہ پیدا کر دیتی ہیں جس کی خصوصیت مایوسی اور خوف سے پیدا ہونے والی بیماریاں ہیں۔
اب جیسا کہ مسٹر کیڈن نے بھی نشاندہی کی ہے کہ لبلبہ اپ کے اندر محبت کے اظہار اور انضمام کی صلاحیت سنبھالنے کی نمائندگی کرتا ہے اس لیے ان ناروا رویوں اور غلط غذا کی وجہ سے جو توازن بگڑتا ہے تو اس کا نتیجہ لبلبے کی یہ عوارض کی صورت یا یوں کہہ لیں کہ لبلبے کی کارکردگی کو متاثر کرنے کا سبب بنتا ہے جس کے نتیجے میں اپ کے اندر دنیا کی ان معمولی چیزوں اور حالات کے معاملے میں جنہیں عام لوگ زیادہ سیریس نہیں لیتے over sensitivity اور over reaction کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کھانے پینے اور لوازمات زندگی کی کمی پیشی کا اور لوگوں میں بےعزتی کا خوف۔ اپ کے جذبات میں یہ بے ترتیبی اور الجھن اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ اپنے قریبی لوگوں کی مستقل تضحیک، تنقید یا bulling کا سامنا کرتے کرتے آپ کو دنیا کے تمام انسانوں سے شدید نفرت ہو جاتی ہے لہذا آپ کے رہنے کے لیے دنیا کوئی اچھی جگہ نہیں رہتی ماسوائے کھانے پینے اور دیگر لوازمات اور تعیشات زندگی کے اور ان چیزوں سے لگاؤ اور ان کے بارے میں حساسیت حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوازمات کی تھوڑی سی کمی پیشی سے اپ کے اندر ایک لہر اُٹھتی ہے جو اپ کو شدید غصے، مایوسی اور ٹینشن میں مبتلا کر دیتی ہے اور شوگر لیول فوراً کافی اوپر چلا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اپ کی طرف سے لوگوں پر اکثر شدید غصے کا اظہار ہوتا ہے اور اپ اتنے پروفیشنل بن جاتے ہیں کہ لوگوں کو استعمال کرنے اور ان سے زیادتی کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے بلکہ صرف ان لوگوں کی عزت کرتے ہیں جن سے اپ کا مفاد وابستہ ہوتا ہے۔
اس جامع وضاحت سے یہ نتیجہ سے نکلتا ہے کہ اگر صورتحال کو بہتر بنانا ہے تو ایک تو غذائی تبدیلی لانا ہوگی جس کی تاکید ڈاکٹر بھی کرتے ہیں اور اپ کو خود بھی پتہ ہوتا ہے کہ نشاستہ دار اور کیمیکل سے بھرپور میٹھی چیزیں اپ کے لیے نقصان دہ ہیں اور دوسرا وہ مسئلہ ہے جس پر نہ ڈاکٹر توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی اسے حل کرنے کی طرف روحانی ماہرین کی طرف سے کوئی پیش رفت ہوئی ہے اور وہ ہے اس لہر کو کنٹرول کرنا جو کہ اپ کے اندر ذلت کے احساس کے رد عمل میں پیدا ہوتی ہے اور شوگر لیول ہائی کرنے کا باعث بنتی ہے۔
سب سے پہلے اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ اپنے الجھے ہوئے جذبات کو اپ کو خود ہی سمیٹنا ہوگا دوسرے نہ تبدیل ہو سکتے ہیں نہ اپنی روش درست کر سکتے ہیں یعنی جو جیسا ہے ویسا ہی رہنا ہے تبدیل ہونا ہے تو صرف اپ نے اپنی کوشش سے۔
لہذا اس مقصد کے لیے سب سے پہلے اپنے اپ کو پر سکون کریں اور تھوڑا وقت دیں۔یہ سوچیں کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو ہر غلط کام کرتے ہیں دوسروں کو ستاتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں کچھ نہیں ہوتا یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے موت کے بعد تکلیف میں مبتلا کرنا ہوتا ہے اور دوسرا وہ لوگ ہوتے ہیں جو جیسے ہی کوئی گناہ یا زیادتی کرتے ہیں فوراً ہی بیمار ہو جاتے ہیں یا ان پر کوئی مصیبت نازل ہو جاتی ہے یا بے عزتی ہو جاتی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بیماری اور مصیبتوں کے ذریعے دنیا سے گناہوں سے پاک کر کے اٹھائے گا اور مرنے کے بعد نعمتیں دے گا اور اللہ کے ان پیارے بندوں میں اپ بھی شامل ہیں جن کے لیے دنیا کی زندگی تکلیف کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتی۔
میں نے اپنی سابقہ تحریریں میں نشاندہی کی تھی کہ جنہیں بھی مستقل بیماریاں ہوتی ہیں وہ ان میں جھوٹ اللہ کے ذکر سے دل چرانا ناشکری اور اخرت کا کمزور عقیدہ جیسے مسائل ہوتے ہیں بلکہ دیکھا جائے تو ہم میں باقی تین خامیاں یعنی جھوٹ ناشکری اور اللہ کے ذکر سے دل چرانا تب پیدا ہوتی ہیں جب ہمیں اخرت کا یقین ہی نہ ہو۔
چنانچہ جیسا کہ یہاں یہ بھی ثابت کیا ہے گیا ہے کہ انسان کے مختلف قسم کے منفی جذبات کا تعلق مختلف قسم کے اعضاء سے ہوتا ہے لہذا یہ ذہن میں رکھیں کہ دلوں کی بیماریوں کی شفا اللہ کے ذکر میں ہے یعنی اگر اپ شفایاب ہونا چاہتے ہیں تو اللہ سے تعلق مضبوط رکھنا ہوگا جس کے نتیجے میں ان چاروں منفی خصائل سے نجات مل جائے گی اور ان کے مخالف خوبیاں پیدا ہو جائیں گی۔
در حقیقت یہی وہ نقطہ ہے جس سے اس لہر پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ عقیدہ اخرت وہ عقیدہ ہے جو ایک انسان کی زندگی کو یکسر بدل دیتا ہے اور اس میں سکون پیدا کر دیتا ہے کیونکہ بار بار اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اہل ایمان کو تسلی دی ہے کہ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(34)اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ كَالْمُجْرِمِیْنَﭤ(35)مَا لَكُمْٙ-كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ(القلم 36)(بیشک ڈر والوں کے لیے ان کے رب کے پاس چین کے باغ ہیں ۔توکیا ہم مسلمانوں کو مجرموں جیسا کردیں ۔ تمہیں کیا ہوا؟ کیسا حکم لگاتے ہو؟) اپ کو کرنا صرف یہ ہے کہ اللہ تعالی سے جڑ کر رہنا ہے اس کی عبادت کو اور اس کی کتاب کو وقت دینا ہے
جیسا کہ میں نے ابتدا میں ذکر کیا کہ رمصان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں ہر کوئی ایک جذبے کے تحت عبادات کے لیے خصوصی وقت نکالتا ہے خصوصا وہ لوگ بھی جو عام دنوں میں نماز اور قران نہیں پڑھتے وہ رمضان کے اس ایک مہینے میں ان عبادات کو روزے کے ساتھ انجام دینے کی تسلسل سے کوشش کرتے ہیں لہذا یہ اپنے اپ کو ری پروگرام کرنے کا بہترین وقت ہے۔
لہذا شفایابی کی طرف پہلا قدم یہ ہے کہ اپ قران کی تلاوت ترجمے کے ساتھ کریں۔ ہمیں اکثر بتایا یہ جاتا ہے کہ بغیر ترجمے کے بھی قران پڑھنے کا ثواب ملتا ہے لہذا ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں یہاں تک کہ حفاظ گرام بھی جو قران کا ترجمہ نہیں جانتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ قران مطلب کے بغیر پڑھنے کا بھی ثواب ملتا ہے لیکن معنی کے ساتھ پڑھنے کے جو ثمرات اور فوائد ہیں بلکہ معجزات ہیں ان کا احاطہ نہیں کیا۔
یہ میرا اپنا مشاہدہ نہیں بلکہ تجربہ ہے کہ قران کے وہ الفاظ جو اللہ تعالی نے لوگوں کے ناروا رویے پر اپنے محبوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہے تھے کی تسلی کے لیے کہ کہے تھے وہ دکھے دلوں کا مرہم ہیں کیونکہ بارہا ایسا ہوا کہ کسی کے تکلیف دہ رویے سے دل دکھا ہوا تھا تو جیسے ہی قران اٹھایا اور اس میں اس طرح کی ایات پڑھیں:” فَاصْبِـرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْـهُـمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا (24) پھر آپ اپنے رب کے حکم کا انتظار کیا کریں اور ان میں سے کسی بدکار یا ناشکرے کا کہا نہ مانا کریں۔
وَاذْكُرِ اسْـمَ رَبِّكَ بُكْـرَةً وَّّاَصِيْلًا (25) اور اپنے رب کا نام صبح اور شام یاد کیا کریں۔
وَمِنَ اللَّيْلِ فَاسْجُدْ لَـهٝ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيْلًا (26) اور کچھ حصہ رات میں بھی اس کو سجدہ کیجیے اور رات میں دیر تک اس کی تسبیح کیجیے۔
اِنَّ هٰٓؤُلَآءِ يُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَـةَ وَيَذَرُوْنَ وَرَآءَهُـمْ يَوْمًا ثَقِيْلًا (27) بے شک یہ لوگ دنیا کو چاہتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک بھاری دن کو چھوڑتے ہیں۔
نَّحْنُ خَلَقْنَاهُـمْ وَشَدَدْنَآ اَسْرَهُـمْ ۖ وَاِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَآ اَمْثَالَـهُـمْ تَبْدِيْلًا (28) ہم ہی نے انہیں پیدا کیا اور ان کے جوڑ مضبوط کر دیے اور جب ہم چاہیں ان جیسے ان کے بدلے اور لا سکتے ہیں۔” تو یوں لگا کہ اللہ باری تعالی خود ہم کلام ہے اور تسلی دے رہا ہے جس سے یک لخت دل کو سکون اگیا۔
لہذا اپ کے اندر بھی لوگوں کے رویے سے جو جذباتی الجھاؤ پیدا ہو گیا ہے جس نے اپ کو بیمار بھی کر دیا ہے اس کا یہی حل ہے کہ اپ بھی ترجمے کے ساتھ قران پاک پڑھیں۔ اس سے ایک طرف تو اپ کو اندازہ ہوگا کہ دنیا کا یہ رویہ صرف میرے ساتھ نہیں بلکہ اللہ کے سب نیک اور پیارے بندوں کے ساتھ دنیا نا روا سلوک ہی کرتی ہے ان کی دلائل پر مبنی حق باتوں کو ٹھکراتی ہے اور یہاں تک کہ اللہ تعالی کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کے لیے یہ کائنات بنی ہے ان کو بھی کبھی جادوگر اور کبھی مجنوں کہہ کر ستایا جاتا تھا، اور دوسری طرف آپ یہ سوچ کر اپنا محاسبہ کرنے قابل ہو جائیں گے کہ بظاہر تو میں ایک مسلمان ہوں اور عبادات بھی بجا لاتا یا لاتی ہوں لیکن درحقیقت میں سنت اور اسلام کی تعلیمات سے کتنا /کتنی دور ہوں۔
یعنی شفا یابی کی اصل کنجی ہے اللہ تعالی سے ایک مضبوط تعلق اور اخرت پر یہ ایمان کہ یہ دنیا اور یہ سامان دنیا وقتی ہے اصل نعمتیں اخرت میں انسان کو تب ملیں گی جب ان ان دنیاوی نعمتوں پر وہ صبر کرے گا اور درحقیقت اللہ تعالی نے اپ کو یہ بیماری اس لیے دی ہے کہ وہ اپ سے بہت محبت کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب اپ ضرورت سے زیادہ خوراک کھاتے ہیں یا اسراف کرتے ہیں یا یہ دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسروں سے زیادتی کرتے ہیں اور ناجائز ذرائع ذرائع استعمال کرتے ہیں تو اپ کا جسم تکلیف اٹھاتا ہے۔
ایسا اس لیے ہے کہ پرانے وقتوں میں لوگ اللہ سے قریب ہونے کے لیے اپنے نفس کو مارتے تھے اور سوکھی روٹی پہ گزارا کرتے تھے لیکن ہم اللہ سے محبت کرتے ہوئے بھی اس کے احکام اور شریعت کے تقاضے پورے نہیں کرتے لہذا اسے قبول نہیں کہ جس سے وہ محبت کرے وہ بسیار خور، زیادتی کرنے والا نمود و نمائش میں بے جا مال اڑانے والا ہو۔اس یقین سے اپ کے الجھے ہوئے جذبات کو سنبھالنے میں اس طرح بنیاد ملے گی کہ اپ صرف وہ کرنا شروع کر دیں گے جو اللہ تعالی کو پسند ہے اور اپ بیرونی دنیا کے ان اثرات کو جو کہ اپ کے اندر پہچان کی ایک لہر برپا کر کے اپ کو اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں، اپنے اپ کو بچانے کے قابل ہو جائیں گے۔
اس مقصد کے لیے اپ کو شعوری طور پر بھی اپنے غصے اور جذبات پر قابو پانا ہوگا مثلا اگر آپ کے قرب وجوار اور عزیزوں میں سے کوئی اپنے بچے کی شادی پر بہت اصراف کر رہا ہو اور اپ یہ افورڈ نہ کر سکیں تو اپ کے اندر لا شعور میں موجود بےعزتی کے احساس کے تحت وہی لہر اپ کو بے چین کر دے گی کہ اگر میں نے ایسی ہی پر تعیش شادی نہ کی تو دنیا کیا کہے گی۔ تو ایسی صورت میں آپ یہ سوچ پرسکون ہو جائیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَ یَذَرُوْنَ وَرَآءَهُمْ یَوْمًا ثَقِیْلًا(الدھر 27)(بیشک یہ لوگ جلد جانے والی سے محبت کرتے ہیں اور اپنے آگے ایک بھاری دن کو چھوڑ بیٹھے ہیں ۔) لیکن میرا معاملہ صرف اللہ کے ساتھ ہے لہذا اگر میں ایسا کرنے کے لیے جائز ناجائز طریقوں سے پیسہ حاصل کر کے اسراف کروں گا تو میرے جسم کو دنیا کی اذیت بھگتنی ہوگی۔ اسی طرح لوگوں کو لذیذ کھانے کھاتے اور بیش قیمت لباس اور میک اپ سے اپنے اپ کو اراستہ کرتے ہیں دیکھیں تو اپنے اندر اتھنے والی طلب کو یہ سوچ کر ٹھنڈا کریں کہ میرے لیے اللہ تعالی نے اخرت کی ایسی نعمتیں رکھی ہیں جن کے بارے میں ہم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔
اسی طرح دوسروں کے ناروا اور زیادتی پر مبنی رویے پر یہ سوچ کر مطمئن ہوئے ہو جائیں کہ اللہ نے مجھے اپنے پیارے بندوں یعنی انبیاء اور اولیاء کی طرح دنیا کی ملامت اور تکلیف دی ہے تاکہ اخرت میں میں ہر تکلیف سے بچ جاؤں۔ اور صرف اللہ تعالی کی خاطر اس کے بندوں کے حقوق پورے کرتے رہیں اور زیادتی سے بچیں کیونکہ اپ کا تعلق اللہ سے ہے اور اجر بھی اسی نے دینا ہے۔
جہاں تک طنز کرنے والے لوگوں کا تعلق ہے تو ان کے متعلق سورہ المطفیفین میں اللہ کا وعدہ ہے:
الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ (29)
شک وہ لوگ جنھوں نے جرم کیے،ان لوگوں پر جو ایمان لائے، ہنسا کرتے تھے۔
وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ (30)
اور جب وہ ان کے پاس سے گزرتے تو ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارے کیا کرتے تھے۔
وَإِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ انْقَلَبُوا فَكِهِينَ (31)
اور جب اپنے گھر والوں کے پاس واپس آتے تو خوش گپیاں کرتے ہوئے واپس آتے تھے ۔
وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاءِ لَضَالُّونَ (32)
اور جب انھیں دیکھتے تو کہا کرتے تھے بلاشبہ یہ لوگ یقینا گمراہ ہیں ۔
وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ (33)
حالانکہ وہ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔
فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ (34)
سو آج وہ لوگ جو ایمان لائے، کافروں پر ہنس رہے ہیں۔
عَلَى الْأَرَائِكِ يَنْظُرُونَ (35)
تختوں پر (بیٹھے) نظارہ کر رہے ہیں۔
هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (36)
کیا کافروں کو اس کا بدلہ دیا گیا جو وہ کیا کرتے تھے؟
مریض کی طرح اہل خانہ بھی اگر یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو اپنے رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ انسانی فطرت میں دبنا شامل نہیں ہے اگر اپ کسی کو اپنے تابع کرنا چاہیں گے تو کوئی نہ کوئی رد عمل سامنے ائے گا جو اپ کو اذیت میں مبتلا کر دے گا جیسا کہ زیابطیس کے مریضوں کا شدید غصہ اور چھوٹی چھوٹی بات پہ شدید رد عمل اور مستقل ٹینشن اور چقلش۔
لہذا خواہ وہ آپ کی بیوی، شوہر، ماں،باپ خصوصا ٹائپ 1 کا شکار بچے ہیں اور اپنا اعتماد کھو کر اس اذیت میں مبتلا ہو چکے ہیں تو اپنا رویہ تبدیل کریں یعنی ایک طرف تو انہیں محبت اور عزت کا احساس دلا کر اعتماد بحال کریں اور دوسری طرف کھانے پینے کی اشتہا اور طلب مت بڑھائیں، اور کوشش کریں کہ نشاستہ دار،نقصان دہ فیٹس اورمیٹھے اور کیمیکل سے بھرپور سنیکس کو اپنی زندگی سے نکال دیں کیونکہ یہ صرف شوگر کا سبب نہیں بلکہ مختلف افراد میں مختلف نوعیت کے صحت کے مسائل کا سبب ہیں۔
بچوں کو اس نقصان دہ خوراک کی بجائے اسلامی تعلیمات کے مطابق گھر کی پکی ہوئی سادہ اور صحت بخش غذا کی طرف لائیں۔ خصوصا جو بچہ اس مسئلے کا شکار ہو چکا ہے اسے ڈانٹ ڈبٹ کر روکنے بجائے ان نقصان دہ چیزوں سے یہ کہہ کر متنفر کریں کہ تم اللہ کے پیارے بندے ہو اور اس کے پیارے بندے کی خصوصیت غصے اور بھوک میں ضبط نفس یا self cntrol ہوتی ہے اور اگر ہم اس غیر صحت بخش اور ذائقے دار خوراک پر صبر کریں تو تبھی اللہ ہمیں جنت کی نعمتوں سے نوازے گا ، اور سب سے اہم گھر کا ماحول خوشگوار بنائیں خود خوش رہنے اور دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ روحانی وجوہات میں بتایا گیا ہے کہ شوگر کا مریض انسانوں سے متنفر ہو چکا ہوتا ہے اس لئے خصوصا بچوں کے سامنے دوسروں کی برائی اور بدخوئی کرنے سے گریز کریں اگر برے لوگوں سے ہوشیار رکھنا مقصود ہو تو ہلکے پھلکے انداز میں بچے کو آگاہ کریں اور مریض کو دنیا اور لوگوں کے مثبت پہلو اور خصوصیات کی طرف توجہ دلائیں تاکہ وہ اپنے جذباتی الجھاؤ کی صورتحال سے نکل سکے۔
اور ہاں یہ ذہن میں رکھیں کہ ہم صرف اپنے طرز عمل کو تبدیل کر سکتے ہیں کسی اور کے نہیں خصوصا گھر کے بزرگوں کو کچھ سمجھانا تقریبا ناممکن ہوتا ہے لہذا اگر بچے کو کسی گھر کے فرد کی طرف سے اسی منفی رویے کا سامنا ہے تو اسے امید دلائیں کہ جو بچہ والدین اور بزرگوں کی سختی برداشت کرتا ہے اسے اللہ دنیا میں بھی بہت کچھ دیتا ہے اور آخرت میں اونچے درجوں سے نوازتا ہے۔
اگر آپ کو اس اس تحریر سے فائدہ ہو تو دعائوں میں ضرور یاد رکھیں اور خیر کی باتیں بانٹتے بھی رہا کریں اور ساتھ ہی اپنے اندر سیکھنے اور بدلنے کی گنجائش بھی ہمیشہ رکھیں۔ اللہ ہم سب دل کے بیماروں اور غم کے ماروں کو شفا عطا فرمائے رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْۤ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ(ال عمران 147)
(اے ہمارے رب ! ہمارے گناہوں کو اور ہمارے معاملے میں جو ہم سے زیادتیاں ہوئیں انہیں بخش دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔)