زکریا یونیورسٹی جنگل کرپشن کیس، حساس ادارے نے تحقیقات شروع کردیں
حساس ادارے نے زکریا یونیورسٹی جنگل فروخت کرپشن کی انکوائری شروع کردی ، رپورٹ تیار۔
یہ بھی پڑھیں ۔
زکریا یونیورسٹی کا ایڈیشنل رجسٹرار سٹیٹ اینٹی کرپشن کے ریڈار پر آگیا
تفصیل کے مطابق زکریا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر منصور اکبر کنڈی کی آشیرباد پر ڈپٹی رجسٹرار سٹیٹ کامران تصدق نے یونیورسٹی کا ہرا بھرا جنگل فروخت کردیا تھا ، اور اس کی لکڑی بھی سستے داموں فروخت کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں ۔
انٹی کرپشن حکام نے زکریا یونیورسٹی کے ڈپٹی رجسٹرار سٹیٹ کو طلب کرلیا
جس کے بارے میں اس وقت میڈیا میں بہت شور اٹھا مگر وائس چانسلر نے جنگل کی انکوائری دبا دی۔
رپورٹ تیار کرنے والے ذرائع کا کہنا ہےکہ جنگل کی لکڑی نا صرف اونے پونے داموں فروخت کی گئی بلکہ اس کو تولتےہوئے بھی فراڈ کیا گیا ۔
یہ بھی پڑھیں ۔
زکریا یونیورسٹی بوگس الاٹمنٹ کیس : ایڈیشنل رجسٹرار سٹیٹ کے خلاف دائرہ تنگ
ایک پرچی پردو دو ٹرک یونیورسٹی سے نکالے گئے، ایک سیکورٹی گارڈ نے جب یہ فراڈ پکڑا ایک سینئر پروفیسر ڈاکٹر ریحان صادق شیخ وائس چانسلر کے پاس لیکر گیا تو انہوں نے ٹال دیا، اور پھر ڈاکٹر اکبر کنڈی نے اس وقت کے سیکورٹی آفیسر کو شٹ اپ کال دی کہ اس کے سیکورٹی گارڈ نے یہ ہمت کیسے کی۔
بعد ازں ڈاکٹر کنڈی کے بعد ڈاکٹر علیم خان اور ڈاکٹر محمد علی شاہ کے چارج سنبھالا تو انہوں نے بغیر تولے لکڑی باہر لیجانے پر پابندی لگادی ، جس پر کامران تصدق نے لکڑی اٹھانے کی تاریخ 4 مئی تاریخ دی، کیونکہ امید کی جارہی تھی کہ ڈاکٹر کنڈی واپس آجائیں گے مگر ایسا نہ ہو ا یہ باقی لکڑی اس وقت کیمپس میں موجود ہے، جس کو باہر بھجوانے کا بہانہ تلاش کیا جارہا ہے ۔
رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ اس لکڑی کو کاٹ کر ایک این جی او کے ذریعے شجر کاری کرائی گئی، اور اس کو پرانے جنگل کا متبادل قرار دیاگیا، اس کی ذمے داری ڈاکٹر احسان بھابھہ کو دے دی گئی۔
اس سارے فراڈ میں ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی اور ڈپٹی رجسٹرار سٹیٹ مینجمنٹ کامران تصدق برابر کے شریک تھے، مگر اس پورے کیس کو چھپا لیا گیا ، جس پر اعلیٰ سطح کی انکوائری کرائی جانا لازم ہے ۔