زرعی یونیورسٹی میں انٹرنیشنل کانفرنس اختتام پذیر
زرعی یونیورسٹی میں انٹرنیشنل کانفرنس اس اعلامیہ کے ساتھ اختتام پذیر ہوگئی کہ صحت مند پودے کےلئے بیماریوں سے پاک بیج استعمال کرنا ہوگا، آمدن بڑھانے کےلئے ایسی فصلیں کاشت کرنا ہوں گی جن کو خشک کرکے فروخت کیا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں ۔
زرعی یونیورسٹی میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد
تفصیل کے مطابق ایم این ایس زرعی یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف ہارٹیکلچر ملتان اور پاکستان سوسائٹی آف ہارٹیکلچر سائنس کے اشتراک سے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس اختتام پزیر ہوئی۔
کانفرنس کے دوسرے روز پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ ملک مہمان خصوصی تھے۔
اس کانفرنس میں دس ممالک سے تعلق رکھنے والے محققین 250 سے زیادہ تحقیقی مقالہ جات پیش کئے گئے۔
اس موقع پر ڈاکٹر امان اللہ نے زراعت میں جدید ٹیکنالوجی جیسا کہ ڈون سے سپرے،موبائل اپلیکیشن کا استعمال،موسمیاتی پیشگوئی کرنے کے آلات کے استعمال بارے کسانوں کو تفصیلی بتایا۔
مزید کہا کہ مستقبل میں ایسی کھادوں اور ضروریات کا استعمال کیا جائے جن میں بعد از برداشت زہریلے مادے کم سے کم ہوں۔خصوصا ہارٹیکلچر کا یہ اصول ہے کہ بیماریوں کے خلاف صلاحیت رکھنے والے پودوں اور بیجوں کا استعمال کیا جائے کیونکہ نرسری بیج اچھا ہوگا تو ایک پودا بہتر انداز میں نشونما پا سکے گا۔
علاوہ ازیں اگر ایسی پھل دار فصلیں جن کو ڈرائی کرکے مارکیٹ تک فروخت کیا جائے تو کاشتکار کو بہتر کمائی مل سکتی ہے۔
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی(تمغہ امتیاز)نے کہا کہ مقامی بیجوں اور پودوں کو استعمال کیا جائے کیونکہ ان کی قوت مدافعت غیر ملکی بیجوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔مزید کہا کہ ہارٹیکلچر میں جدید تحقیق کے ذریعے ہی پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کو بڑھانا ممکن ہے۔
زرعی یونیورسٹی ملتان ہارٹیکلچر سیکٹر میں بہتری کے لیے ہر سال کسانوں کو پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے کہ وہ کاشت سے لے کر أمدن تک کیسے بہتری لا سکتے ہیں۔
ڈائریکٹر مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ غفار گریوال نے کہا کہ مینگو نرسری پیوند کاری کے دوران پیوندی شاخ صحت مند پودے سے لینی چاہیے کیونکہ نرسری باغات کی بنیاد ہوتی ہے۔
مزید کہا کہ اگر نرسری خراب ہوگئی تو پودا بہتر انداز میں بڑھوتری نہیں کر پائے گا جس سے بیماریوں کا شکار ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر غلام مرکھنڈ نے کہا کہ سندھ کے اندر کھجور کی اعلی کوالٹی پائی جاتی ہے۔پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو بہت بڑے پیمانے پر کھجور پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔پاکستان دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر کھجور پیدا کرنے والا ملک ہے۔لیکن پیداوار کے مقابلے میں پاکستانی ایکسپورٹ بہت کم ہیں۔اگر ہمارے کھجور کے کاشتکاروں کو حکومت پھل کی بعد از برداشت پوسٹنگ کی سہولت مہیا کرے تو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر معیشت مضبوط ہو سکتی ہے۔
ترقی پسند کاشتکار کاشف اسلام نے کہا کہ سبزی اور پھلوں کی بروقت اور صحیح حالت میں کھانے والوں تک رسائی کے لیے جامعہ مارکیٹنگ کا نظام متعارف کروانا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ ویلیو ایڈیشن پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔مزید کہا کہ باغوں اور سبزیات کو فروخت کرنے کے لیے مربوط بزنس ماڈل بنائے جائیں۔
روایتی طریقہ جات کے ساتھ ماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے پھلوں اور سبزیات کو اگایا جائے ۔
کانفرنس کے آخر میں چیئرمین شعبہ ہارٹیکلچر ڈاکٹر تنویر احمد نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی ملتان نے کاشتکار بھائیوں کی فیلڈ کی پیچیدگیوں کے حوالے سے یہ کانفرنس منعقد کروائی۔
امید کی جاتی ہے کہ عام کاشت کار کو اس کانفرنس سے خاطر خواہ فوائد ملیں گے۔
کانفرنس میں ڈاکٹر عارف عطک(ترکی)پروفیسر ڈاکٹر جیان کارلو کولیلی(اٹلی)پروفیسر ڈاکٹر علی احمد علی (مصر)زرعی یونیورسٹی فیصل آباد،ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی،شاہ عبداللطیف یونیورسٹی سندھ، گومل یونیورسٹی خیبر پختونخواہ، غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، یونیورسٹی آف سرگودھا،یونیورسٹی آف لیہ،ڈیٹ پام ریسرچ انسٹیٹیوٹ جھنگ،سٹرس ریسرچ انسٹیٹیوٹ چکوال،مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان، مینگو ریسرچ اسٹیشن شجاع آباد، ہارٹیکلچر ریسرچ اسٹیشن ملتان، ہارٹیکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد،فروٹ اینڈ ویجیٹیبل پروجیکٹ لاہور،ایگریکلچر ایکشن اینڈ ریسرچ پنجاب انڈسٹری اور کاشتکاروں، فیکلٹی ممبران پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد رجوانہ، ڈاکٹر کاشف رزاق،ڈاکٹر حافظ نذر فرید،ڈاکٹر گلزار احمد،ڈاکٹر سمیع اللہ،محمد عثمان خان،شفایاب،سیدہ انعم مسعود بخاری اور طلباء کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔