کپاس کی بہتری کے موضوع پر ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد
ایم این ایس زرعی یونیورسٹی میں کپاس کی بہتری کے موضوع پر ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
تقریب کے مہمان خصوصی چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان نے آن لائن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کپاس کے کاشتکاروں کو جدید طریقوں کے ذریعے پیداوار میں اضافہ کرکے اس قابل بنایا جائے کہ اسے کھادوں اور بیج کی سبسڈی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
اس سلسلے میں کپاس کی پیداوار کو بہترین اور منافع بخش بنانے کے لیئے حکومت پنجاب تمام انتظامات کر رہی ہے۔
انہوں نے سیکرٹری زراعت پنجاب کی کپاس بڑہاؤ مہم میں بہترین کردار پر ان کو خراج تحسین پیش کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ زراعت کی بہتری کے لئے تمام فنڈز موجود ہیں اور اس سلسلے میں حکومت پنجاب مکمل تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
سیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو نے کہا کہ کپاس کی بہتری میں کسان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب نے کپاس کی بحالی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر کپاس کی بحالی کا منصوبہ بنایا۔اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول یونیورسٹیز،ریسرچ اداروں اور انڈسٹری کا کردار اہم ہے۔
مزید کہا کہ یونیورسٹیز کو اس شعبہ میں لیڈرشپ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔اچھے بیج کی پیداوار اور اس کی فراہمی ایک اہم چیلنج ہے۔اس سلسلے میں ریسرچ بجٹ صحیح استعمال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ریسرچ فنڈ ز کی کوئی کمی نہیں۔یونیورسٹیز،ریسرچ ادارے، انڈسٹری اور حکومت مل کر کپاس کی بحالی اور منافع بخش فصل بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
سیکرٹری زراعت جنوبی پنجاب ثاقب علی عطیل نے کپاس کی عالمی کانفرنس پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کپاس کی فی ایکڑ پیداوار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ جدید اقسام کے بہتر بیج کے ذریعے پیداوار بہترین ہو سکتی ہے۔اس سلسلے میں ایسی اقسام کی ضرورت ہے جو 30 من فی ایکڑ پیداوار دے، حشرات کے خلاف قوت مدافعت رکھے اور پانی کی وافر تعداد یا کمی کا مقابلہ کر سکے۔
مزید کہا کہ کپاس کی مشینی کاشت اور چنائی کی ضرورت ہے. مربوط طریقہ انسداد حشرات اور کھادوں کے صحیح استعمال کو بھی وقت کی اہم ضرورت سمجھا جائے۔
وائس چانسلر جامعہ زرعیہ فیصل آباد پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خان (ستارہ امتیاز) نے کہا کہ پنجاب حکومت کے موجودہ اقدامات قابل ستائش ہیں۔انہوں نے کہا کہ کپاس کی فصل نئے علاقوں میں بھی کاشت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اسکی پروڈکشن بیلٹ تبدیل ہوئی ہے۔چھوٹے قد کی اقسام سے بہترین پیداوار حاصل کی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنیاتی تکنیک کو مختلف مینجمنٹ کے طریقوں کے ساتھ ملا کر کپاس کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔اس سلسلے میں چین کی مثال قابل تعریف ہے۔
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی (تمغہ امتیاز) نے کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کے حوالے سے گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں، نقصان دہ حشرات اور پانی کی کمی یا وافر دستیابی کی وجہ سے کپاس کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔
مزید کہا کہ گورنمنٹ اور انڈسٹری مل کر کپاس کی پیداوار میں اضافہ کرسکتے ہیں۔کپاس کی پیداوار بڑھانے کے حوالے سے پنجاب حکومت کے اقدامات کو سراہا۔
ڈاکٹر عابد محمود چیرمین پارب نے کپاس کی عالمی پیداوار اور مختلف ممالک میں کپاس کی پیداوار کو بہتر کرنے والے عوامل پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ کھادوں کے صحیح استعمال اور ریسرچ بجٹ میں اضافہ سے کپاس کو پیداوار اور کوالٹی میں بہتری ممکن ہے۔ڈی جی زراعت (توسیع) ڈاکٹر انجم علی بٹر نے کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کے حوالے سے حکومت پنجاب کے حالیہ اقدامات پر روشنی ڈالی۔
چینی سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر چانگ روئی نے چین اور پاکستان میں کپاس کے مسائل پر گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ کپاس کی جدید مینجمنٹ اور مشینی کاشت وقت کی اہم ضرورت ہے۔
مزید کہا کہ بائیو ٹیکنالوجی اور مالیکیولر ٹیکنالوجی کے ذریعے جدید اقسام حاصل کرکے پیداوار میں اضافہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر خالد عبداللہ نے کپاس کی موجودہ صورتحال اور کوالٹی کے مسائل پر روشنی ڈالی۔انہوں نے بتایا کہ 45 فیصد کپاس بیس گریڈ سے اوپر ہوتی ہے۔اس تناظر میں کپاس کی کوالٹی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر کپاس کی برآمداد میں قیمت وصول کی جا سکتی ہے۔
کانفرنس کے چار سیشنز میں 20 پریزنٹیشنز دیں گئیں۔ڈاکٹر محبوب رحمان، ڈاکٹر منظور حسین منج، ڈاکٹر خالد حسین، ڈاکٹر صغیر احمد، ڈاکٹر اسلم یوسف، ڈاکٹر فرانسسکو منکینی، پروفیسر ڈاکٹر تیانچیں چینگ، جناب نصیر اللہ، ڈاکٹر تحسین اظہر، ڈاکٹر خالد عبداللہ، ڈاکٹر احسن نے زرعی یونیورسٹی میں کپاس کی بہتری کے موضوع پر ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس باجوہ، ڈاکٹر زاہد محمود، فرزانا الطاف شاہ، ڈاکٹر جاوید حسن اور حافظ محمد بخش نے بھی لیکچر دیئے۔
اس موقع پر انڈسٹری،اکیڈیمیا، کسانوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر شفقت سعید، پروفیسر ڈاکٹر آصف رضا، پروفیسر ڈاکٹر حماد ندیم طاہر، پروفیسر ڈاکٹر عمر فاروق، ڈاکٹر محمد اشفاق، ڈاکٹر رانا بنیامین، ڈاکٹر محمد شہباز، ڈاکٹر عمارہ وحید، ڈاکٹر ذوالقرنین، ڈاکٹر آصف خان، اور دیگر فیکلٹی ممبران بھی موجود تھے