پاکستان میں فائیو جی رواں برس سال لانچ کرنے کافیصلہ
پاکستان میں فائیو جی کی تیز ترین انٹرنیٹ سروس صارفین کو اسی سال ملے گی۔
وزارت آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن نے فائیو جی سپیکٹرم کی نیلامی کے لیے اعلٰی سطحی ایڈوائزری کمیٹی کے قیام کا نوٹی فیکیشن جاری کردیا ہے۔
وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن سید امین الحق کے مطابق فائیو جی سروس ابتدائی طور پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاوہ کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں متعارف کروائی جائے گی۔
کوشش ہے کہ فائیو جی سروسز کا آغاز دسمبر 2022 تک کردیا جائے۔
سید امین الحق کے مطابق کمیٹی کنسلٹنٹ کی تجاویز کی روشنی میں فائیو جی سپیکٹرم کی نیلامی کے طریقہ کار کی منظوری بھی دے گی، فائیو جی سپیکٹرم نیلامی میں ٹیلی کام سیکٹرز کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے قابل عمل بنایا جائے گا۔
وفاقی کابینہ کے فیصلے کے تحت وزیر خزانہ شوکت ترین کی سربراہی میں ایڈوائزری کمیٹی 13 ارکان پر مشتمل ہے جس میں وفاقی وزیر آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ وزیر صنعت و پیداوار، مشیر تجارت و سرمایہ کاری، محکمہ فنانس، آئی ٹی و قانون کے سیکریٹریز، ممبر ٹیلی کام، چیئرمین پی ٹی اے اور فریکوئنسی ایلوکیشن بورڈ، سمیت اہم اداروں کے حکام شامل ہیں۔
فائیو جی ٹیکنالوجی سے مراد پانچویں جدید ترین سطح کی ٹیکنالوجی ہے جو انٹرنیٹ کی دنیا کو مکمل بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اس سے قبل تیسری جنریشن (تھری جی) اور چوتھی جنریشن (فور جی) کے تیز انٹرنیٹ نے دنیا بھر میں ویڈیو کالز، ویڈیو سٹریمنگ، فیس بک لائیو وغیرہ کو ممکن بنایا تھا اور دنیا کو ایک دوسرے سے قریب کردیا تھا۔
پاکستان میں اس وقت تک چین کی موبائل کمپنی (زونگ) اور پاکستان موبائل کمیونیکیشن یعنی جیز رواں سال جنوری تک فائیو جی کے ٹرائل کرچکے ہیں، جس میں ویڈیو کال ٹیسٹنگ میں انٹرنیٹ کی سپیڈ ایک اعشاریہ پانج گیگا بائٹ (جی بی) فی سیکنڈ رہی۔
موبائل فون پر گھنٹوں کی پوری فلم چند سیکنڈز میں ڈاؤن لوڈ ہوجائے گی، اور صاف شفاف آڈیو اور ویڈیو کالز کرنا ممکن ہو جائیں گی۔ صرف فون اور کمپیوٹر پر تیز انٹرنیٹ ہی فراہم نہیں ہوگا بلکہ اب مصنوعی ذہانت اور فائیو جی کے ساتھ یہ بھی ممکن ہوگا کہ امریکہ میں بیٹھ کر کوئی سرجن پاکستان کے ہسپتال میں کسی مریض کا آپریشن کر لے۔
اسی طرح اشیا کو انٹرنیٹ سے منسلک کرکے یہ بھی ممکن ہوگا کہ ڈرائیور کے بغیر کار چلائی جاسکے۔
ڈی ایس این جی کے تام جھام کے بغیر ہی رپورٹر اپنے موبائل فون کے ساتھ لائیو رپورٹنگ کرسکے گا۔