Paid ad
Breaking NewsEducationتازہ ترین

ایل ایل بی کیس: پنجاب بار کونسل کے زکریا یونیورسٹی انتظامیہ پر سنگین الزامات ،توہین عدالت کی دھمکی

زکریا یونیورسٹی کے ایل ایل بی کیس میں نیا موڑ آگیا، پنجاب بار کونسل کا ایک مراسلہ منظر عام پر آیا جو ابھی تک یونیورسٹی نہیں پہنچا مگر سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے جس میں زکریا یونیورسٹی انتظامیہ پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں ۔
قانونی تقاضے پورے کرکے ایل ایل بی کا امتحان لینے کا حکم

ایسے وقت میں جب معاملہ سپریم کورٹ میں اور جسٹس منصور علی شاہ ایک مختصر فیصلہ بھی سنا چکے ہیں، اس مراسلے کو دھمکی سے تشبیہ دی جارہی ہے جبکہ پاکستان بار کونسل کا موقف متضاد ہے۔

یہ بھی پڑھیں ۔
جامعہ زکریا : ایل ایل بی کیس پھر متنازع بنانے کی کوشش؛ ملوث اساتذہ کو بچانے کے لئے رپورٹ تیار، آفیسرز کو قربانی کا بکرا بنا دیاگیا

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ سابق الحاق شدہ کالجز کے ایل ایل بی طلباء کو نظر انداز کیا جارہا ہے، اس معاملے کو دیکھنے کےلئے پنجاب بار کونسل نے 7 دسمبر کو ایک کمیٹی قائم کی جس میں کیس کا جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیاگیا کہ زکریا یونیورسٹی انتظامیہ کو ہدایت اور یاد دلایا جائے کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں یونیورسٹی نے لا کالجوں کے حقیقی طلباء کو ایڈپٹ کرنے اور ان کو پڑھانے کی ذمے داری لی تھی۔

یہ بھی پڑھیں ۔

4ڑ44
بعدازاں ایک اور کیس ملک انیق کھٹانہ بمقابلہ خالد جاوید اور CP نمبر 134/2012 میں دیگر) کے روبرو عمل درآمد کی کارروائی میں، ضمنی امتحانات کی رجسٹریشن میں دیکھی گئی، مجموعی بے ضابطگیوں کی روشنی میں، سپریم کورٹ نے معاملہ ایف آئی اے کو بھجوا دیا اور فیصلہ سنایا ایف آئی اے کی رپورٹ میں بہت بڑی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا اور بہت سے کالجوں اور طلباء کو پتہ چلا کہ یونیورسٹی نے خود غیر حقیقی امیدواروں کو سپلیمنٹری امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت دی تھی۔

اس معاملے پر ایف آئی اے کی رپورٹس پر عمل کرنے کے بجائے جسے بار کونسلز نے قبول کر لیا ہے اور اس پر سپریم کورٹ سے کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے، یونیورسٹی نے بجائے اس کے کہ کالجوں کے لیے پراکسی کے طور پر کام کرنے والے حقیقی طلباء پر توجہ دی جائے اور اس کی پردہ پوشی کی جائے مگر یونیورسٹی نے اپنے عملے کو بچانے کےلئے حیران کن طور پر کسی نہ کسی بہانے، ایک بھی اسٹڈی سنٹر بنانے میں ناکام رہی یا کسی ایک حقیقی طالب علم کو پڑھانے میں ناکام رہا ہے۔ یہاں تک کہ جن طلباء نے پہلے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور ایف آئی اے کی رپورٹ میں حقیقی قرار دیے گئے افراد کو بھی نہیں پڑھایا گیا اور نہ ہی آج تک کسی اسٹڈی سینٹر نے کام شروع کیا ہے، یہاں تک کہ جن طلباء کے معاملات سپریم کورٹ کے سامنے نہیں تھے ان کا کیریئر بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اس سے ان طلباء کے کیریئر کو بہت نقصان پہنچا ہے جنہیں اب تک گریجویشن کر لینا چاہیے تھا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ کسی بھی موڑ پر کسی عدالت نے یونیورسٹی کو اس سلسلے میں کسی کارروائی سے نہیں روکا اور بار کونسلز کی طرف سے بھی آپ سے بارہا درخواست کی گئی ہے کہ اس کو فعال بنایا جائے، اس لیے آپ سے جلد از جلد اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مذکورہ بالا فیصلوں اور احکامات کی روشنی میں حقیقی طلبہ کے ساتھ فوری طور پر طلبہ کے طور پر برتاؤ کیا جائے اور ان کا مطالعہ دوبارہ شروع کریں اگر اس خط کی تاریخ سے ایک پندرہ دن کے اندر اس کی تعمیل نہیں کی جاتی ہے، بار کونسل عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد میں ناکامی کی وجہ سے متعلقہ افسران کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کی پابند ہوگی۔

اس مراسلے کے منظر عام پر آنے کے بعد یونیورسٹی حکام نے معاملہ سپریم کورٹ میں اٹھانے کا عندیہ دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ ابھی تک یونیورسٹی کو با ضابطہ طور پر موصول نہیں ہوا ہے جب ملے گاتو قانون کے مطابق اس کا جواب دیں گے۔

مراسلے میں جس کیس کا  حوالہ دیا جارہا ہے جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے کو ختم کردیا تھا اور قرار دیا تھا کہ ایف آئی اے کس طرح اس کیس میں مداخلت کرسکتی ہے یا انکوائری کرسکتی ہے جبکہ بار کونسل بھی یونیورسٹی کو ہدایت دینے کی پوزیشن میں نہیں اس لئے معاملے کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے ایسی صورت میں جب کیس سپریم کورٹ میں لگ چکا ہے، یہ مراسلہ اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش ہے جس پر قانون کے مطابق جواب دیں گے دوسر ی طرف وکلا ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت پنجاب بار کونسل کے انتخابات قریب آگئے ہیں یہ مراسلہ ایک الیکشن سٹنٹ ہے تاکے وکلا کوکارکردگی دکھا کرووٹ لئے جاسکیں اورزکریایونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر کو دباو میں لا کر مرضی کے فیصلے کرائے جاسکیں ۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button