کینسر کے روحانی معنی ( چھاتی، مثانہ، دماغ، تائرواڈ، پیٹ)
تحریر و تحقیق : کنول ناصر
جدید ایلوپیتھک طریقہ علاج میں ٹیسٹ اور رپورٹس دیکھ کر مریض کا علاج صرف دوا اور سرجری کے ذریعے کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے محرکات کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ روایتی طب میں جسم کے توازن کو خراب کرنے والے محرکات یعنی غیر متوازن خوراک اور عادات کو بھی مد نظر رکھا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ اس دور میں شفایابی کا تناسب اج سے کہیں زیادہ تھا۔
اسی لیے بلغاریہ کیڈن کی تحقیق پر مشتمل سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں انہوں نے سائنسی وجوہات کے ساتھ ساتھ روایتی یا یونانی طب کے طریقے کار کے مطابق بیماری کے تمام پہلوؤں بشمول روحانی محرکات پر روشنی ڈالی ہے۔
بذریعہ: مصنف بلغاریہ کینڈن کینسر کا روحانی معنی کیا ہے؟تعارف کینسر کا امریکہ اور پوری دنیا میں معاشرے پر بڑا اثر پڑتا ہے۔اس کے علاوہ، یہ امریکہ میں موت کی دوسری بڑی وجہ ہے۔
عالمی سطح پر، تقریباً 6 میں سے 1 موت کینسر کی وجہ سے ہوتی ہے۔سب سے زیادہ عام کینسر ہیں:چھاتی کا سرطان؛پھیپھڑوں اور bronchus کینسر؛پروسٹیٹ کینسر؛بڑی آنت اور ملاشی کا کینسر؛جلد کا میلانوما؛مثانے کا کینسر؛نان ہڈکن لیمفوما (کینسر جو خون کے سفید خلیوں میں شروع ہوتا ہے جسے لیمفوسائٹس کہتے ہیں)؛گردے اور رینل شرونی کا کینسر؛اینڈومیٹریال کینسر (ایک قسم کا کینسر جو بچہ دانی میں شروع ہوتا ہے)؛سرطان خون؛لبلبہ کا سرطان؛تائرواڈ کینسر؛جگر کا کینسر.ہر سال، امریکن کینسر سوسائٹی (ACS) امریکہ میں ہونے والے کینسر کے نئے کیسز اور اموات کی تعداد کا تخمینہ لگاتی ہے اور کینسر کی اموات، واقعات اور بقا کے بارے میں تازہ ترین ڈیٹا مرتب کرتی ہے۔
مثال کے طور پر، 2018 میں، امریکہ میں کینسر کے ایک اندازے کے مطابق 1,735,350 نئے کیسز کی تشخیص کی جائے گی اور تقریباً 609,640 لوگ اس بیماری سے مر جائیں گے۔خواتین کے لیے، 3 سب سے زیادہ عام کینسر چھاتی، پھیپھڑوں، اور کولوریکٹل ہیں، جو کہ مجموعی طور پر تمام کیسز کے 50 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں (خواتین میں کینسر کی تمام نئی تشخیصوں میں صرف چھاتی کا کینسر 30 فیصد ہے)۔
مردوں کے لیے، پروسٹیٹ، پھیپھڑوں، اور کولوریکٹل کینسر تمام کیسز کا 42 فیصد ہیں (صرف پروسٹیٹ کینسر جو کینسر کی تمام نئی تشخیصوں میں سے تقریباً 20 فیصد کا حصہ بنتا ہے)۔
اچھی خبر یہ ہے کہ کینسر سے اموات کی شرح 1991 میں 215.1 فی 100,000 آبادی کے عروج سے 26 فیصد کم ہو کر 2015 میں 158.6 فی 100,000 ہوگئی۔
ڈراپ کا کافی تناسب سگریٹ نوشی میں مسلسل کمی اور ابتدائی پتہ لگانے اور علاج میں پیشرفت کی وجہ سے ہے۔ کینسر کا روحانی معنی (عام طور پر)کینسر ایک ایسی زندگی کی نمائندگی کرتا ہے جس پر نظم و ضبط نہیں ہوتا ہے اور جسم کے خلیوں کے درمیان بے ترتیبی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جب کسی شخص کو کینسر ہوتا ہے، تو انفرادی خلیہ جسم کی تنظیم کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ اس کے بجائے، یہ اپنی خود مختار زندگی تیار کرتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس کا جسم پر کیا اثر پڑتا ہے۔جرمن ماہر نفسیات تھوروالڈ ڈیتھلیفسن کینسر کی پیتھالوجی کا ہماری جدید دنیا کی پیتھالوجی سے موازنہ کرتے ہیں، جس کی خصوصیت ایک بے رحمانہ توسیع اور مرکزی مفادات کے حصول کی طرف ہے۔
لہٰذا، معیشت، سیاست، مذہب یا نجی زندگی کے شعبوں میں، زیادہ تر افراد اپنے مفادات کی پیروی کرتے ہیں، اپنے خود غرض مقاصد کے حصول کے لیے زندگی میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس سارے عمل کے دوران، وہ دوسرے لوگوں اور فطرت کا استحصال کرتے ہیں اور دنیا کو ایک بہت بڑا مہمان ادارہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کینسر کے خلیے جسم کو مہمان جسم سمجھتے ہیں جس کا وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بے رحمی سے استحصال کرتے ہیں۔
بریسٹ کینسر کا روحانی مفہوم بریسٹ کینسر کا روحانی مفہوم نسائیت کو ترک کرنا چھاتی کے کینسر کی ایک اہم وجہ ہے۔اس نقطہ نظر سے، چھاتی کے کینسر کی موجودگی کو روکنا نسائیت کی بحالی، عورت کی شناخت کی بحالی بن جاتا ہے۔مثانے کے کینسر کا روحانی مفہوم مثانے کے درد کے روحانی معنیلمبے عرصے تک بے چینی اور پریشانی مثانے کی بیماری کا باعث بنتی ہے۔ بظاہر، آپ مثانے پر نفسیاتی دباؤ ڈالتے ہیں اور یہ جلد ہی اپنے اثرات پیدا کرے گا۔
آپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ دباؤ کو دور کرنے سے ہمیشہ سکون ملتا ہے۔ خود کو نفسیاتی دباؤ سے نجات دلانا سیکھیں اور مثانہ خود کو سنبھال لے گا۔دماغی کینسر کا روحانی مفہوم دماغی رسولی کے روحانی معنی دماغ کا کینسر اس علامت کی نمائندگی کرتا ہے کہ آپ کو سوچنے کے طریقے کو تبدیل کرنا ہوگا۔
آپ وہی ہیں جسے "سخت سر” کہا جاتا ہے اور آپ پرانی عادتوں کو ترک نہیں کرنا چاہتے جو آپ کو جسمانی طور پر بیمار کرنے کے لیے کافی عرصے تک چلی ہیں۔آپ کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ زندگی مستقل تبدیلی سے مشروط ہے۔ زندگی کی طاقت پر بھروسہ کریں، اور آپ کو آزادی ملے گی۔
تائرواڈ کینسر کا روحانی مفہوم تائرواڈ کام کرنے اور ایک عظیم تحفہ کا احترام کرنے کی نسائی صلاحیت سے منسلک ہے: وجدان۔
ایک ہی وقت میں، نفسیاتی سطح پر، تائرواڈ مواصلات اور اظہار کے ساتھ منسلک ہوتا ہے، یا اس کے برعکس، روکنا اور دبانے کے ساتھ جب ہم وجدان کی آواز کو سن کر اور اسے ظاہر ہونے دے کر انتخاب اور فیصلے کرتے ہیں، تو ہم مابعد الطبیعاتی سطح پر بھی اپنے تھائرائڈ کو متوازن کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
معدے کے کینسر کا روحانی معنی
اعتماد کی کمی کی وجہ سے، آپ کو جذبات کو قبول کرنے میں دشواری ہوتی ہے، خاص طور پر غصے اور جارحیت کے، اور آپ کو تنازعات کا مقابلہ کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے بجائے، آپ چیزوں کو "نگلنے” کو ترجیح دیتے ہیں اور انہیں آپ کو "کھانے” دیتے ہیں۔زندگی آپ کو پیش کرتی ہے اور آپ کو پیش کرتی رہتی ہے۔ایک بار جب آپ یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہر چیز کے پیچھے کوئی نہ کوئی مطلب ہوتا ہے، تو آپ کو اپنے پیٹ میں اتنی دباؤ والی چیزوں کا احساس نہیں ہوگا۔آپ زندگی کو اس کے تمام تاثرات اور تجربات کے ساتھ گلے لگانا بھی سیکھیں گے اور آپ اپنے جذبات کو قبول کرنے اور ان کا آزادانہ اظہار کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
اگرچہ مسٹر کیڈن نے تمام بیماریوں کی وجوہات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن شوگر کی طرح کینسر پر بھی ان کی تحقیق خاصی مختصر ہے خاص طور پر غذائی تبدیلیوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔یونانی طبی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو کینسر کا مسئلہ گرم مرطوب مزاج کے غلبے سے پیدا ہوتا ہے۔
میں نے اپنی سابقہ تحریروں میں انسان کے چاروں مزاجوں پر تفصیلی معلومات دی ہیں تاکہ قدرت کے اس میکنزم کو سمجھنے میں اسانی ہو۔ انسان کے چار طرح کے مزاجوں یعنی گرم خشک یا صفراوی گرم تر یا دموعی سرد تر یا بلغمی اور سرد خشک یا سوداوی میں سے گرم تر یا دموی مزاج میں کینسر کا امکان ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ توانائیوں سے بھرپور ہوتے ہیں اور سماجی زندگی میں خوش و خرم رہنے کے عادی ہوتے ہیں اور عیش ارام کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگر جدید تحقیق کو دیکھا جائے تو یہ کہیں کینسر کو کاسمیٹکس کے باقاعدہ استعمال سے جسم کے اندر جانے والا کیمیکل، کہیں سموکنگ، کہیں تیار شدہ پیک کھانوں کے ذریعے ہمارے اندر جانے والا پلاسٹک تو کہیں برتھ کنٹرول اور بریسڈ فیڈنگ کی پابندیوں سے احتراض سے وابستہ کرتی ہے۔ اسی محرک کی نشاندہی مسٹر کیڈن نے یہاں پر بھی کی ہے کہ کینسر ایک ایسی زندگی کی نمائندگی کرتا ہے جس پر نظم و ضبط نہیں ہوتا لہذا اس کے نتیجے میں انفرادی خلیہ جسم کی تنظیم کو تسلیم نہیں کرتا اور اپنی خود مختار زندگی تیار کرتا ہے۔ با الفاظ دیگر اس کی یوں بھی وضاحت کی جا سکتی ہے کہ جس طرح ایک انسان مذہب معاشرے کی پابندیوں اور اصولوں کو توڑ کر اپنی مرضی کی مفاد پرستانہ زندگی گزار رہا ہوتا ہے اسی طرح اس کے خلیے بھی یہی عمل کرنے لگتے ہیں۔
اب یہ کس طرح ممکن ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی ایسا مسئلہ ہو جسے خالق کائنات میں اپنی اخری کتاب میں شامل نہ کیا ہو۔
سورۃ العنکبوت میں اللہ تعالی نے مختلف قوموں کا ذکر کیا ہے جو پیغمبروں کی ہدایت کے باوجود اپنی روش پہ قائم رہیں اور دنیا کی رنگینیوں میں گم رہیں اور برائیوں کو جاری رکھا۔
اس سورۃ کی ایات میں حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت لوط حضرت شعیب اور عاد و ثمود کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی نے دنیا کی حقیقت ایت نمبر 41 میں بیان کی ہے مَثَلُ الَّـذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ اَوْلِيَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَـبُوْتِۚ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَـبُوْتِ ۘ لَوْ كَانُـوْا يَعْلَمُوْنَ (41) (ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا حمایتی بنا رکھے ہیں مکڑی کی سی مثال ہے، جس نے گھر بنایا، اور بے شک سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا ہے، کاش وہ جانتے۔)
اب یہاں ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ مفسرین کرام اس طرح کی ایات میں علمی پہلو تلاش کرنے اور اللہ کی ایات پر غور کرنے کی بجائے صرف عرب لوک شاعروں کی ضرب المثل قرار دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں جب کہ اس کتاب کا ایک ایک لفظ بلکہ ایک ایک حرف علم و حکمت کا خزانہ ہے۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ ڈی این اے پر کی گئی ایک جدید ریسرچ کے کم و پیش یہی الفاظ ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے: "ٹیم نے پایا کہ گلوکوکورٹیکوائڈز نامی تناؤ کے ہارمونز نیوٹروفیلز پر کام کرتے ہیں۔ یہ "دباؤ والے” نیوٹروفیلز نے مکڑی کے جالے نما ڈھانچے بنائے جنہیں NETs (نیوٹروفیل ایکسٹرا سیلولر ٹریپس) کہتے ہیں۔ NETs اس وقت بنتے ہیں جب نیوٹروفیل ڈی این اے کو خارج کرتے ہیں ۔ عام طور پر، وہ حملہ آور مائکروجنزموں کے خلاف ہمارا دفاع کر سکتے ہیں۔
تاہم، کینسر میں، NETs میٹاسٹیسیس دوستانہ ماحول پیدا کرتے ہیں۔”یعنی جب انسان کو یہ دنیا مکڑی کے کمزور جالے کی طرح قابو کر لیتی ہے تو یہی جالا اس کے وجود کے اندر بھی نمو پا کر اس کو آخر کار موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے۔ فَبِاَيِّ حَدِيْثٍ بَعْدَهٝ يُؤْمِنُـوْنَ (المرسلات 50) (پس اس کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے۔)
اب دیکھنا یہ ہے کہ stress کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔عیسائیت یعنی Christianity میں کینسر کے مریض کو broken spirit کہا جاتا ہے وہ اس طرح کہ اگر کینسر کے مریضوں کی کیس ہسٹری کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اپنے ارد گرد ایسی صورت میں لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے نظر ائیں گے کہ جب ایک انسان دنیا کی زندگی کو پوری طرح انجوائے کر رہا ہوتا ہے تو اگر اچانک وہ اس سہارے کو کھو دے جس کی وجہ سے معاشرے میں اس کو ایک مقام ملا ہوتا ہے اور جس کی وچہ سے معاشرتی اور اقتصادی طور پہ وہ ایک اچھا سٹیٹس انجوائے کر رہا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں چونکہ ان افراد کے جسم اور جلد میں چکنائی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے اس لیے کوئی معمولی سا زخم یا گلٹی بھی بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ دموی مزاج کے لوگ دنیا کی رونقوں میں خوش رہنے والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالی سے ان کا تعلق واجبی سا ہوتا ہے لہذا جس سہارے پر ایک عمارت کھڑی ہوتی ہے اگر وہ سہارا ہی ختم ہو جائے تو عمارت کو گرتے دیر نہیں لگتی۔ اسی لیے رب تعالی نے دنیاوی سہاروں کو مکڑی کے کمزور جالے سے تشبیہ دی ہے۔
مثال کے طور پر ہم اپنے ارد گرد کینسر میں مبتلا ہونے والوں کے حالات پر اگر غور کریں تو ایسے افراد اس بیماری میں مبتلا نظر ائیں گے جو ایک طرف تو ارٹیفیشل، عیش پرستانہ اور مذہب اور معاشرے کی حدود اور پابندیوں سے ازاد لائف سٹائل انجوائے کر رہے ہوتے ہیں تو اچانک ہی کسی کا شوہر، بیوی، بچہ یا یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کے والدین بھی جو انتہائی توجہ دینے والے، ناز اٹھانے والے اور اچھا لائف سٹائل دینے والے تھے اچانک ہی دنیا سے چلے جائیں یا کسی وجہ سے انہیں چھوڑ جائیں یا صدمہ دے جائیں تو ایسی عمارت جو پہلے ہی غلط قسم کی خوراک اور طور طریقوں کی وجہ سے بھر بھری ہوچکی ہو اس کے لیے ایک دھکا ہی کافی ہوتا ہے۔ کیونکہ بات پھر وہی ا جاتی ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں تخلیق کیا ہے اور اپنے احکامات کے ذریعے غذا اور دیگر ضروریات زندگی کے ایسے طریقے بتائے ہیں جن میں ہماری اپنی بھلائی ہے۔
لہذا جب ہم اس کے بتائے طریقوں پہ چلتے ہیں تو ایک طرف تو جب ہم سادہ، فطری اور بمطابق ضرورت غذا استعمال کرتے ہیں اور اس کی بتائی ہوئی عبادات کرتے ہیں تو بہت سی بیماریوں اور مصائب سے بچ جاتے ہیں۔
مثال کے طور پہ جدید ریسرچ کے مطابق سال میں ایک مہینہ روزے رکھنا انسان کو کینسر سے محفوظ رکھتا ہے ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ روزے کے نتیجے میں جو جسم میں خشکی پیدا ہوتی ہے وہ گرم مرطوب یعنی دموی مزاج کی چکنی جلد اور جسم کا توازن قائم کر دیتی ہے، اور دوسری طرف اللہ پر یقین اور اس کے ساتھ مضبوط تعلق ہمیں زندگی کے مصائب برداشت کرنے اور ان سے نکلنے کے لیے توانائی دیتا ہے وہ اس طرح کہ ایک کامل ایمان والے کی سوچ ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ کرتا ہے جو کچھ ہمیں دیتا اور لیتا ہے اس میں خواہ وقتی تکلیف ہی کیوں نہ پوشیدہ ہو لیکن اس کی رضا میں درحقیقت ہماری بھلائی ہی پوشیدہ ہوتی ہے جسکا انسان اپنی محدود عقل کے باعث احاطہ نہیں کر سکتا۔
نیز اس بات کا کامل ایمان کہ وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَۚ-وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖؕ-یُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(یونس107)(اور اگر تجھے اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا کوئی ٹالنے والا نہیں اس کے سوا اور اگر تیرا بھلا چاہے تو اس کے فضل کے رد کرنے والا کوئی نہیں اسے پہنچاتا ہے اپنے بندوں میں جسے چاہے اور وہی بخشنے والا مہربان ہے) انسان کو اللہ کی طرف یکسو رکھتا ہے اور در در بھٹکنے سے بچاتا ہے۔
کیونکہ میں نے خود کئی کینسر کے مریضوں کے اس یقین کا مشاہدہ کیا ہے کہ ہمارے رشتہ داروں نے ہم پر عملیات کروائے ہیں اس لیے ہم اس بیماری اور تکلیف میں مبتلا ہوئے ہیں ورنہ ہم تو بالکل صحتمند تھے اور بیماری کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی اور اس ضعیف الاعتقادی کے زیر اثر وہ جگہ جگہ جعلی پیروں اور بابوں کے پاس دھکے کھاتے ہیں مگر اخری وقت تک ان کا عقیدہ درست نہیں ہوتا کہ وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ(الشوری 30)(اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا) چنانچہ مخلوق یعنی جن و بشر صرف اس تکلیف کو پہنچانے کا وسیلہ بنتے ہیں۔ دکھ سکھ اور راحت دینا اور لینا صرف خالق کے کام ہیں مخلوق کی کچھ لینے دینے کی کوئی مجال نہیں۔ اسی طرح جو انسان مذہب اور معاشرے کی حدود سے جڑا ہوتا ہے وہ صرف اپنے مفاد پہ نہیں چلتا بلکہ صلہ رحمی بھی اور قربانی بھی اس کے عمل میں شامل ہوتی ہے۔
مزید مذہب سے جڑے افراد جب سنت اور اہل بیت کی مصائب اور تکلیف کا تذکرہ پڑھتے ہیں ، سنتے ہیں یا کرتے ہیں تو ان میں خود دنیاوی مصائب کو اور نقصانات کو برداشت کرنے کی ہمت یہ سوچ کے پیدا ہوتی ہے کہ اللہ اپنے پیارے بندوں کو دنیا کی دکھ تکلیف میں مبتلا کرتا ہے اور اس کے پیارے بندے وہ ہیں جو صبر کرتے ہیں اور اخرت میں ان مصائب کے بدلے ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کے حقدار ہوتے ہیں۔
جیسا کہ سورہ البقرة میں اللہ تعالی نے انسان کو مطلع کیا ہے کہ جان اور مال کا نقصان اس دنیا کی آزمائش ہے اور ہر کسی کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے: وَلَنَـبْلُوَنَّكُمْ بِشَىْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِـرِيْنَ (155) اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آز مائیں گے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔اَلَّـذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُـمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْآ اِنَّا لِلّـٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (156) وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔اُولٰٓئِكَ عَلَيْـهِـمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّهِـمْ وَرَحْـمَةٌ ۖ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُهْتَدُوْنَ (157) یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے مہربانیاں ہیں اور رحمت، اور یہی ہدایت پانے والے ہیں۔
جیسا کہ مسٹر کیڈن نے نشاندہی کی ہے کہ کینسر فطرت کا استحصال کرکے ازادانہ طور پہ جدید طرز زندگی اپنانے کا نتیجہ ہے۔لہذا اس کا حل بھی یہی ہے کہ فطرت کو قبول کیا جائے اور انسان ہونے کے ناطے فطرت کی حدود و قیود کی پابندی کی جائے خواہ وہ دین کے احکامات کی شکل میں ہوں یا حفظان صحت کے اصولوں کی شکل میں، بجائے اس کے کہ آپ کی فطرت کی آزاد روی اپکے جسم کے خلیئے بھی اپنا لیں اور انجانے میں موت کا سفر شروع ہو جائے۔
اس کے لیے سب سے پہلے پھر وہی بات ا جاتی ہے کہ سورۃ البقر کی ایت نمبر 60 کے حکم کے مطابق صرف وہی چیز کھائی جائے جو اللہ تعالی نے کھانے کے لیے بنائی ہے یعنی کسی بھی شکل میں کیمیکل کے intake کو روکا جائے خواہ وہ میک اپ اور کاسمیٹکس کی شکل میں ہو یا جدید برینڈڈ اور محفوظ شدہ کھانوں میں شامل کیمیکلز اور نقصان دہ کولڈ ڈرنکس اور bewerage ہوں یا تیارشدہ کھانوں کے ساتھ ہمارے اندر جانے والا پلاسٹک ہو۔ مزید جیسا کہ میں نے نشاندہی کی کہ گرم مرطوب طبیعت کے لوگوں میں چکنائی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے لہذا میٹھی، نشاستہ دار اور چکنی اشیاء سے پرہیز کریں اور سلاد کچی سبزیاں پھلوں کا استعمال زیادہ کریں۔ اپنے گھر میں صحت بخش طریقے سے پکا کر کھائیں اور تیار شدہ خانوں سے گریز کریں۔ کاسمیٹک ہمیشہ organic استعمال کریں۔
تمباکو نوشی اور ہر طرح کی نشہ اور اشیا سے گریز کریں۔ اور سب سے اہم یہ کہ اس دنیا کے مکڑی کے جالے سے نکلنے کی کوشش کریں جو کہ غیر محسوس طریقے سے انسان کو اپنے اندر جکڑ کر موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے۔ یعنی کہ خالق کے ساتھ تعلق استوار کریں اور اس پر اپنا ایمان مضبوط رکھیں کہ جو اس کا سہارا پکڑتا ہے وہ کبھی بھی نہیں ڈگمگا سکتا۔
دنیا میں کسی کے اختیار میں کچھ بھی نہیں نہ کسی کا کچھ بگاڑنا نہ عزت ذلت دینا اور نہ ہی کسی اچھائی برائی پر اختیار ہے۔ سب کچھ من جانب من اللہ ہوتا ہے۔ لہذا انسان پر لازم ہے کہ اسی کے احکام تسلیم کرے اسی کے اگے سر جھکائے اور اپنی ہر دکھ تکلیف پر صرف اسی سے فریاد کرے اور اسی سے امید لگائے۔
اگر اپنے لائف سٹائل میں یہ سب تبدیلیاں لانا اکورڈ لگے اور سوسائٹی کی طرف سے تضحیک کا سامنا کرنا پڑے تو ایک بار رک کر اتنا سوچ لیں کہ بچے پیدا کرنا اور اپنی سماجی مصروفیات کو کم کرکے اسے فیڈ کرانا کینسر کی تکلیف دہ تھراپی سے کہیں بہتر ہے۔
اسی طرح دوسروں کو اخلاق سے اپنے مفادات کے لئے ثریپ کرکے مخلوق کی بد دعائیں اور ان کے نتیجے میں بیماریا مصائب مول لینے سے بغیر مفاد کے صلہ رحمی اور بھلائی کر کے مخلوق کی دعائیں اور اللہ کی ابدی رحمتیں لینا کہیں بہتر ہے اسی طرح جب تھراپی کے بعد بال اترنے کے نتیجے میں سر ڈھانپنا ہی ہے تو اس سے کہیں بہتر ہے کہ اللہ کی تابعداری میں پردے کا اہتمام کر لیا جائے۔
مختصر الفاظ میں انسان کے سیکھنے کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے اور اپنی اصلاح کی گنجائش ہمیشہ رکھیں تاکہ بیماریوں مصیبتوں سے دنیا میں بھی محفوظ رہیں اور اخرت کا عذاب بھی نہ جھیلنا پڑے اور اللہ تعالی سے ہمیشہ یہ دعا کرتے رہیں: رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(البقرہ 201)(اے ہمارے رب!ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔
یہ سلسلہ مہلک قسم کی بیماریوں کے متلق معلومات عامہ کے لئے شروع کیا گیا ہے لہذا اگر آپ کسی مخصوص بیماری کے متلق جاننا چاہتے ہیں تو ضرور کمنٹ کریں۔