ہم ایک عجیب دور میں رہ رہے ہیں ایک طرف تو اتنی سائنسی ترقی کہ انسان کے اندرونی نظام میں ہونے والی معمولی جنبش اور تبدیلیوں با آسانی سکرین پر دیکھا جا سکتا ہے، اور ہر مسئلے کے لئے ایک سے ایک موثر تھراپی موجود ہے لیکن اس سب کے باوجود ہر تیسرا انسان کسی نہ کسی مستقل بیماری میں مبتلا ہے اور بیماری بھی ایسی کہ جو ایک بار بیمار ہو گیا وہ کبھی اس مصیبت سے نکل نہیں پاتا۔
درحقیقت بیماری میں اگرچہ غذا، ماحول، موسم اور حالات جیسے محرکات اہم ہوتے ہیں لیکن مرکزی کردار انسان کی اس منفی سوچ اور عمل کا ہوتا ہے جو انسان کے ذہن میں چل رہا ہوتا ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ اگرچہ آج سے ایک ڈیڑھ صدی پہلے اتنی سائنسی ترقی نہ تھی لیکن تب کا انسان روحانی طور پر مضبوط تھا اس لئے مستقل اور دائمی امراض کا شکار نہیں تھا۔
لہذا اسی آگاہی کے لئے بلغاریہ کیڈن کے مختلف بیماریوں پر مضامین کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں بیماریوں کی سائنسی کے ساتھ ساتھ روحانی وجوہات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
بذریعہ: مصنف بلغاریہ کینڈن
دائمی گردے کی بیماری (CKD)، جسے دائمی گردوں کی ناکامی بھی کہا جاتا ہے، وقت کے ساتھ گردے کے کام کا سست نقصان ہے۔
گردوں کا بنیادی کام جسم سے فضلہ اور اضافی پانی کو خارج کرنا ہے۔
یہ جدید ترین پروسیسنگ مشینیں روزانہ آپ کے 200 کوارٹ خون کو فلٹر کرتی ہیں اور اوسطاً 2 کوارٹ فضلہ اور اضافی پانی نکالتی ہیں۔
دائمی گردوں کی ناکامی جسم میں سیال اور فضلہ کی مصنوعات کے جمع ہونے کا باعث بنتی ہے۔ یہ حالت جسم کے بیشتر افعال اور نظام کو متاثر کرتی ہے، بشمول:
خون کے خلیوں کی کم تعداد؛
ہائی بلڈ پریشر؛
وٹامن ڈی اور ہڈیوں کی صحت۔
اس حالت کے آخری مرحلے کو اینڈ اسٹیج رینل ڈیزیز کہا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں، گردے جسم سے کافی اضافی سیال اور فضلہ کو نکالنے کے قابل نہیں رہتے ہیں۔
اس وقت، آپ کو گردے کی پیوند کاری یا ڈائیلاسز کی ضرورت ہوگی۔
اگر آپ کو CKD ہے، تو آپ کو دیگر سنگین حالات پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جیسے کہ دل کی بیماری۔
یہ ایک قسم کی حالت ہے جو خون کی نالیوں اور دل کو متاثر کرتی ہے، جس میں فالج اور دل کے دورے شامل ہیں۔
گردے کی خرابی کی تشخیص عام طور پر خون کے ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے جس میں کریٹینائن، BUN، اور گلوومیرولر فلٹریشن کی شرح کی پیمائش کی جاتی ہے۔
گردے کی پتھری معدنیات اور نمکیات سے بنے سخت ذخائر ہیں جو آپ کے گردے کے اندر بنتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوتے ہیں جب پیشاب مرتکز ہو جاتا ہے، جس سے معدنیات کرسٹلائز ہو جاتے ہیں اور ایک ساتھ چپک جاتے ہیں۔
شماریات
عام آبادی میں CKD کا مجموعی پھیلاؤ تقریباً 14% ہے۔ مزید برآں، امریکہ میں 30 ملین لوگ CKD سے متاثر ہیں، اور زیادہ تر کو یہ تک نہیں معلوم کہ انہیں یہ ہے۔ 2013 میں، 47,000 سے زیادہ امریکی گردے کی بیماری سے مر گئے۔
گردے کی پتھری کی بیماری ہر سال ریاستہائے متحدہ میں ہر 500 میں سے ایک فرد کو متاثر کرتی ہے۔ زندگی بھر، 8 میں سے 1 مرد (40-60 کے زیادہ واقعات) میں گردے کی پتھری ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 35 سے 50 فیصد لوگ جن کے گردے کی ایک پتھری ہے ان میں عام طور پر پہلی کے 10 سال کے اندر اضافی پتھری پیدا ہوتی ہے۔
دائمی گردے کی بیماری – علامات گردوں کی پتری
ماہواری رک جانا (امینریا)؛
وزن کم کرنے کی کوشش کیے بغیر وزن میں کمی؛
سوجن پاؤں، ٹخنوں، یا ہاتھ؛
ہاتھوں اور پیروں میں بے حسی؛
آپ کے پیشاب میں خون؛
سینے میں درد، اگر دل کے استر کے گرد سیال جمع ہو جائے؛
آپ ہلکے پیشاب کے ساتھ معمول سے زیادہ یا زیادہ مقدار میں پیشاب کر سکتے ہیں۔
دائمی گردوں کی ناکامی کی جسمانی وجوہات
آٹومیمون عوارض (جیسے سیسٹیمیٹک سکلیروڈرما اور لیوپس ایریٹیمیٹوس)؛
ہائی بلڈ پریشر – یہ گردوں میں خون کی چھوٹی نالیوں پر دباؤ ڈال سکتا ہے اور گردوں کو صحیح طریقے سے کام کرنے سے روک سکتا ہے۔
طویل مدتی، بعض ادویات یا کیموتھراپی کی دوائیوں کا باقاعدہ استعمال، جو کہ وہ دوائیں ہیں جو کچھ خود کار قوت مدافعت کی بیماریوں اور کینسر کا علاج کرتی ہیں۔
گردوں میں پیشاب کا پسماندہ بہاؤ (جسے ریفلکس نیفروپیتھی بھی کہا جاتا ہے)؛
ہائی ایل ڈی ایل کولیسٹرول – یہ آپ کے گردوں کو سپلائی کرنے والی خون کی نالیوں میں چربی کے ذخائر کی تعمیر کا سبب بن سکتا ہے، جو ان کے لیے کام کرنا مشکل بنا سکتا ہے۔
ٹائپ 1 یا ٹائپ 2 ذیابیطس؛
گردوں کے پیدائشی نقائص؛
CKD کی تیسری بڑی وجہ گلوومیرولونفرائٹس ہے، یہ ایک بیماری ہے جو گردوں کے فلٹرنگ یونٹس کو نقصان پہنچاتی ہے، جسے گلومیرولی کہتے ہیں۔
پیشاب کی نالی کی طویل رکاوٹ، گردے کی پتھری، بڑھا ہوا پروسٹیٹ، اور کچھ کینسر جیسے حالات سے۔
گردے کی پتھری اور گردے کی دائمی بیماری کی روحانی وجوہاتگردے کی پتھری اور گردے کی دائمی بیماری کی روحانی وجوہات گردوں کے لیے توانائی کا مرکز سیکرل چکرا (یا سوادیستھان) ہے۔ اگر کوئی عدم توازن ہے، تو آپ اسے وہاں تلاش کر سکتے ہیں۔
جب اس چکر کو مسدود کردیا جاتا ہے، تو آپ کو علامات کی ایک حد کا سامنا ہوسکتا ہے جو عام طور پر کمر، پیٹ کے نچلے حصے، اور ہاضمہ اور تولیدی اعضاء تک محدود ہوتے ہیں۔
نظام انہضام کے ساتھ اس کے قریبی تعلق کی وجہ سے، پودوں پر مبنی غذا کو اپنانا اور اعتدال پسند جسمانی ورزش کرنا خاص طور پر سوادیستھان سائیکل کے توانائی کے بہاؤ کو متوازن کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
گردے کو "وزیر برائے طاقت” کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ ین اور یانگ کی توانائیوں کے لیے بنیادی بنیاد ہیں۔
یہ وہ اہم اعضاء ہیں جو ہمیں ان توانائیوں کو لنگر انداز کرنے کی اجازت دیتے ہیں، جو ہماری جسمانی ساخت، ہماری زندگی اور طاقت کا تعین کرتے ہیں، اور ہماری نشوونما اور نمو کے ذمہ دار ہیں۔
وہ قوتِ ارادی اور ہمت کا مرکز بھی ہیں، اس لیے گردے کی توانائی میں کسی بھی قسم کی خرابی کے نتیجے میں پاگل پن اور خوف کا احساس ہوتا ہے۔
روایتی چینی طب کے نقطہ نظر میں، گردے کے اعضاء کے نظام میں ایڈرینل غدود (انڈوکرائن غدود جو بہت سے مختلف ہارمونز پیدا کرتے ہیں) بھی شامل ہوتے ہیں، جو ایڈرینل کورٹیکس اور ایڈرینل میڈولا پر مشتمل ہوتے ہیں۔
سچ سننے یا سچ کو سمجھنے سے قاصر یا ناپسندیدگی، شرم، تنقید، اور مایوسی گردوں میں خون کی روانی کو متاثر کرتی ہے اور آخر کار CKD کا باعث بن سکتی ہے۔
روک تھام
تمباکو نوشی نہیں کرتے
تمباکو نوشی گردے جیسے اہم اعضاء میں خون کے بہاؤ کو سست کر دیتی ہے اور CKD کو مزید خراب کر سکتی ہے۔
تمباکو نوشی چھوڑنا ان بہترین چیزوں میں سے ایک ہے جو انسان اپنی صحت کے لیے کر سکتا ہے، اور اسے شروع کرنے میں کبھی دیر نہیں لگتی۔
شراب کا استعمال نہ کریں۔ شراب پینے سے آپ کے جسم کے کئی حصوں بشمول آپ کے گردے متاثر ہوتے ہیں۔
مسلسل زیادہ شراب پینے سے CKD کا خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے، جو وقت کے ساتھ ختم نہیں ہوتا۔
غذائیت: پھل اور ایسے کھانے کھائیں جس میں چربی اور کولیسٹرول کم ہو۔
مثال کے طور پر، پودوں پر مبنی غذا (بغیر سبزیوں کا تیل) سیسٹیمیٹک ہیموڈینامک اور گلوومیرولر تبدیلیوں سے منسلک ہے، جو صحت اور بیماری میں گلوومیرولر سکلیروٹک تبدیلیوں کی روک تھام میں فائدہ مند ہو سکتی ہے۔
باقاعدہ ورزش کریں۔
جسمانی ورزش آپ کے جسم کے سب سے اہم عضلات یعنی دل کو بھی ٹھیک کرنے میں مدد دیتی ہے۔
اضافی وزن کم کریں۔وزن کم abs موٹاپا اور زیادہ وزن گردے کی دائمی بیماری کے خطرے کے عوامل ہیں اور بیماری کے بڑھنے سے جڑے ہوئے ہیں۔
بہت زیادہ نمک (سوڈیم) کھانے سے پرہیز کریں، نمک
صحت مند گردے خون سے اضافی سوڈیم کو خارج کرتے ہیں۔ لیکن جب گردے کو نقصان پہنچتا ہے، تو گردوں کے فلٹرز کا ایک حصہ کام نہیں کرتا اور سوڈیم خون میں جمع ہو سکتا ہے۔
جن افراد کو گردے کی بیماری کا خطرہ سمجھا جاتا ہے وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنے نمک کی مقدار تجویز کردہ زیادہ سے زیادہ 6 گرام سے کم رکھیں۔
جذبات
کسی بھی ایسی چیز سے بچنے کی کوشش کریں جو خوف، یا اضطراب جیسے جذبات پیدا کرے۔ مزید برآں، زیادہ سیکس بھی گردوں سے توانائی کو ختم کرتا ہے اور انہیں کمزور کر دیتا ہے.
شفا یابی کے اثبات
"میری زندگی میں ہمیشہ حق ہو رہا ہے۔”
"میں ہمیشہ ایسی غذا کھاتا ہوں جو غذائیت کے لحاظ سے فائدہ مند اور میرے جسم کے لیے اچھی ہوں۔”
"ہر تجربے سے صرف اچھائی آتی ہے۔ بڑا ہونا محفوظ ہے۔”
"میرا جسم خود کو ٹھیک کرنا جانتا ہے، اور اب بھی کر رہا ہے۔”
’’میں وہ تمام ذمہ داریاں چھوڑتا ہوں جو میری نہیں ہیں۔‘‘
"میں محفوظ اور پیارا ہوں اور مکمل حمایت یافتہ ہوں۔”
"میں اپنے آپ سے پیار کرتا ہوں اور اس کی منظوری دیتا ہوں۔”
"میں ماضی کے تمام مسائل کو آسانی سے حل کرتا ہوں۔”
’’میں آزاد اور محفوظ ہوں۔‘‘
"میں صحت مند طرز زندگی گزارنے اور اپنا خیال رکھنے کے لیے سب کچھ کرتا ہوں۔”
"میں اپنے آپ کو شفا دینے کی اجازت دیتا ہوں۔”
ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے جوکہ ٹیکنالوجی کا دور ہے جس میں میڈیا ہمیں ایک ایسی زندگی کی ترغیب دیتا ہے جوکہ آسائشوں سے بھرپور ہے۔ لہذا معاشی ترقی کے اس معیار پر پہنچنے کے لئےایک دوڑ لگی ہے جس میں انسانیت، خوف خدا اور حلال وحرام کی حدود کو پس پشت ڈال ہر کوئی صرف ایک متمول اور پر آسائش زندگی گزارنا چاہتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔
اگر ایک لمحے کے لئے آخرت سے چشم پوشی بھی کر لی جائے اور دنیاوی معاملات بظاہر صحیح چل رہے ہوں لیکن پھر بھی درحقیقت سب کچھ صحیح نہیں ہوتا کیونکہ کائنات کی ہر چیز کی فطرت خالق حقیقی کی تابعداری ہے اور ان میں ہمارے اعضاء بھی شامل ہیں۔ لہذا اللہ کی نافرمانی میں کوئی حق تلفی یا منفی عمل ہمارے اعضاء کی بھی فطرت کے خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ منفی اعمال کے نتیجے میں دنیا میں ہمارا جسم طویل بیماری اور وبال کا شکار ہو جاتا ہے اور بروز محشر اس جسم کے اعضاء ہماری گناہوں کی گواہی دیں گے جیسا کہ سورہ فصلت میں بتایا گیا ہے:
وَيَوْمَ يُحْشَرُ اَعْدَآءُ اللّـٰهِ اِلَى النَّارِ فَـهُـمْ يُوْزَعُوْنَ (19)
اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے تو وہ روک لیے جائیں گے۔
حَتّـٰٓى اِذَا مَا جَآءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْـهِـمْ سَمْعُهُـمْ وَاَبْصَارُهُـمْ وَجُلُوْدُهُـمْ بِمَا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ (20)
یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آ پہنچیں گے تو ان پر ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں گواہی دیں گی جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔
وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِـمْ لِمَ شَهِدْتُّـمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوٓا اَنْطَقَنَا اللّـٰهُ الَّـذِىٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَىْءٍ وَّهُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (21)
وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی، وہ کہیں گی کہ ہمیں اللہ نے گویائی دی جس نے ہر چیز کو گویائی بخشی ہے اور اسی نے پہلی مرتبہ تمہیں پیدا کیا اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
وَمَا كُنْتُـمْ تَسْتَتِـرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُـمْ اَنَّ اللّـٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْـرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ (22)
اور تم اپنے کانوں اور آنکھوں اور چمڑوں کی اپنے اوپر گواہی دینے سے پردہ نہ کرتے تھے لیکن تم نے یہ گمان کیا تھا جو کچھ تم کرتے ہو اس میں سے بہت سی چیزوں کو اللہ نہیں جانتا۔
وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّـذِىْ ظَنَنْتُـمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدَاكُمْ فَاَصْبَحْتُـمْ مِّنَ الْخَاسِرِيْنَ (23)
اور تمہارے اسی خیال نے جو تم نے اپنے رب کے حق میں کیا تھا تمہیں برباد کیا پھر تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگئے۔
اب رہا یہ سوال کہ پتھری کا ان دنیا داری کے سمجھوتوں یا compromises سے کیا تعلق ہے؟ اسے سمجھنے کے لئے بلغاریہ کیڈن کی اس تحقیق میں بیان کردہ پتھری کے روحانی محرک کو ذہن میں رکھیں اس کے بعد میں وضاحت کرتی ہوں کہ قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے۔
قرآن پاک کی دوسری سورہ البقرہ کا بنیادی موضوع انسان کی تخلیق اور اس کی ہدایت کی تاریخ ہے جس میں سب سے پہلے آدم اور حوا کی تخلیق اور شیطان کے بہکانے کے بعد دنیا میں انسان کی آبادکاری کا قصہ بیان ہوا ہے پھر بنواسرائیل کی ہدایت، اللہ کے ان پر خصوصی انعامات اور ان کی نافرمانیوں کا تفصیلی بیان ہے جس سے غالبا اہل ایمان کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ جو اللہ کی ہدایت سے منہ موڑ کر شیطان اور اپنے نفس کی پیروی میں لگ جاتا ہے وہ ہمیشہ راندہ درگاہ رہتا ہے۔ بنی اسرائیل پر اپنے خصوصی انعامات کا تذکرہ کرنے کے بعد رب تعالٰی نے آیت نمبر 74 میں ان کے دلوں کی کیفیت کچھ یوں بیان فرمائی ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کو اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت کاملہ کی بے شمار نشانیوں کا مشاہدہ کرایا یہاں تک کہ مردے نے زندہ ہو کراپنے قاتل کا نام بتا دیا، لیکن ان سب کے باوجود ان کا یہ عالم تھا کہ: ثُـمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِىَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْـهَارُ ۚ وَاِنَّ مِنْـهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ ۚ وَاِنَّ مِنْـهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّـٰهِ ۗ وَمَا اللّـٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (74) (پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے گویا کہ وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت، اور بعض پتھر تو ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ کر نکلتی ہیں، اور بعض ایسے بھی ہیں جو پھٹتے ہیں پھر ان سے پانی نکلتا ہے، اور بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں، اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں۔)
آج ہماری نسل کے لوگوں کی تربیت کچھ ایسے ہوئی ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ سمجھنے کے باوجود ہم اللہ کی نشانیوں پر غور کرنے کی بجائے سائنسی حقائق پر زیادہ انحصار اور اعتماد کرتے ہیں
لہذا اگر خالق حقیقی اپنی مخلوق کے متعلق کہہ رہا ہے کہ اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر اللہ کی ہدایت سے منہ موڑنے کے باعث ان کے دل پتھر ہو گئے تو ظاہر ہے کہ ہم ان آیات کی ادب و احترام سے تلاوت بھی کریں گے ترجمہ بھی پڑھیں گے یہاں تک کہ ہمارے لاکھوں بچے حفظ کرکے قاری صاحبان کو بھی سنا دیں گے لیکن عملی زندگی میں اس بے نظیر کلام کے اطلاق کے متعلق ہماری کم وپیش وہی رائے ہے جوکہ مشرکین مکہ کی تھی یعنی کہ لَقَدْ وُعِدْنَا هٰذَا نَحْنُ وَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُۙ-اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ (النحل68)(،یہ تو صرف پہلے لوگوں کی جھوٹی کہانیاں ہیں۔)
اس کے بر عکس ہمیں اس مغربی محقق کی بات کی سمجھ بھی آئے گی، اور اسے سو فیصد درست بھی ہم تسلیم کر کے اس پر عمل کے ذریعے اپنی اصلاح کی کوشش کریں گے جو یہ کہہ رہا ہے کہ "CKD ایک قسم کی حالت ہے جو خون کی نالیوں اور دل کو متاثر کرتی ہے” اور "سچ سننے یا سچ کو سمجھنے سے قاصر یا ناپسندیدگی، شرم، تنقید اور مایوسی گردوں میں خون کی روانی کو متاثر کرتی ہزار آخر کار CKD باعث بن سکتی ہے۔”
اپنی سابقہ تحریر میں، میں نے مارچ 1987 میں شائع ہونے والی جس تحقیق کا حوالہ دیا تھا اس میں CKD کو جس تبدیلی سے احتراز سے جوڑا گیا تھا وہ تبدیلی معاشی نوعیت کی تھی نیز اس تحقیق کے نتیجے میں اس بیماری کو ان سات متغیرات variables سے جوڑا گیا ہے:
Stressful Life Events and Risk of
Symptomatic Kidney Stones
G REZA NAJEM,* JOSEPH J SEEBODE,** AHMED J SAMADY,* MARTIN FEUERMAN† AND
LAWRENCE FRIEDMAN**
: The seven variables which were statistically signi-
ficantly more frequent among cases than controls were
entered into a conditional logistic regression model.
These variables were: annual family income; worries
about symptoms that physicians could not explain;
changes in the usual physical activities; personal fin-
ancial difficulties; renting problems; stressful feelings
or emotional problems; and feelings of anger, nervous-
ness or sadness lasting for at least a week. Three of them
(annual family income, stressful feelings or emotional
problems and renting problems) remained significant in
the multivariate logistic regression analyses:
دور حاضر میں ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر ایک استحصالی اور اخلاقی طور پر گرا ہوا معاشرہ ہے جس میں نہ انسانیت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے اور نہ ہی اللہ کے احکامات پر چل کر کوئی اپنے آپ کو دوسروں کے حقوق کے بارے میں جواب دہ سمجھتا ہے اس کا مقصد کسی نہ کسی طرح پیسہ کما کر دنیاوی آسائشوں کو حاصل کرنا ہے کہیں کوئی سرکاری ملازم یا کاروباری یہ جانتے ہوئے بھی کہ کمانے کا یہ طریقہ حرام ہے اور آخرت میں میرے لئے شدید عذاب کا باعث بنے گا۔
سود اور رشوت خوری، ذخیرہ اندوری، ناجائز منافع خوری،اور ناقص میٹیریل سے دوسروں کی جانوں سے کھیل کر پیسہ بنانے میں مصروف ہے تو کہیں جب کسی کو اللہ تعالٰی اپنے فضل سے کوئی بلند مرتبہ عطا کردیتا ہے تو وہ اپنے غریب رشتے داروں سے یہ سوچ کر دور ہو جاتا ہے کہ سوسائٹی میں میری کیا عزت رہ جائے گی بلکہ لوگ تو اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کرکے اجر کمانے کی بجائے بےکار کا بوجھ اور بے عزتی کا باعث قرار دے کر اولڈ ایج ہاؤسز میں پہنچا دیتے ہیں اور پھر کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ جہاں ماں بہنیں حاوی ہوجائیں تو بیوی بچوں پر ان کی ایما پر دھڑلے سے ظلم زیادتی اور حق تلفی کی جاتی ہے، جبکہ اللہ کے اس فرمان کو جانتے ہوئے بھی پس پشت ڈال دیا جاتا ہےکہ وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:۱۹) (اور بیویوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزر بسر کیا کرو) یہاں تک کہ بہت سے معاملات میں دنیاوی مصلحت اور ذاتی مفاد کے تحت علماء کرام بھی آواز حق بلند کرنے سے پہلو تہی کر جاتے ہیں۔
انسان اپنے ضمیر کی آواز کو دباکر اپنے فرائض سے دل کو پتھر کرکے اپنی طرف سے ایک متوازن اور ہموار روٹین پر زندگی گزار رہا ہوتا ہے لیکن اس کی روح نے چین ہوتی ہے جس کے باعث اس کا جسم بیمار ہو جاتا ہے۔ اور در حقیقت دنیا کی یہ بیماری اور وبال بھی ایک نعمت ہے اگر یہ نہ ہو تو نہ انسان کی سنبھلنے اور توبہ استغفار کا موقع ملے اور آخرت میں اس سے ستر گنا زیادہ عذاب ہو۔
اب یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر اس چیز سے بچنے کی کوشش کریں جو خوف یا اضطراب پیدا کرتی ہو۔ ایسا کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ دنیا کے مسائل اور دنیا والوں کا خوف دل سے نکال کر حقائق کو ایمانداری اور اعتماد سے کسی دنیاوی دباؤ کا شکار ہوئے بغیر قبول کریں اور صرف اللہ کے راستے پر یہ سوچ کر چلیں کہ قُلِ اللّـٰـهُـمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِى الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُۖ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْـرُ ۖ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (العمران26) (تو کہہ اے اللہ، بادشاہی کے مالک! جسے تو چاہتا ہے سلطنت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلطنت چھین لیتا ہے، جسے تو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے تو چاہے ذلیل کرتا ہے، سب خوبی تیرے ہاتھ میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔) مزید کھانے میں اور دیگر امور میں ضبط نفس اور توازن کا دامن نہ چھوڑیں۔ اسی طرح اسلام کے روحانی نقطہ نظر سے زیادہ نمک کے استعمال سے منع کیا جاتا ہے۔
اللہ ہم سب کو ذمہ دار انسان اور اپنا وہ مخلص بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے جس کی نیکیوں کا اجر وہ ضائع نہیں کرتا۔ آمین