ویمن یونیورسٹی کے سلیکشن بورڈ اجلاس پر انگلیاں اٹھ گئیں، ڈاکٹر سعدیہ کی بطور پروفیسر تقرری مشکوک
ویمن یونیورسٹی کے سلیکشن بورڈ اجلاس میں بے ضابطگیاں سامنے آگئیں، پروفیسر نے چانسلر اور ممبران سینڈیکیٹ کو مراسلہ ارسال کردیا۔
یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی ملتان : غیر قانونی طورپر اساتذہ کی بھرتی اور ترقی دینے کی تیاریاں مکمل
آئی ایم ایس میں تقریری روکنے کی اپیل کی گئی ہے اس سلسلے میں پروفیسر ڈاکٹر صفدر حسین طاہر نے چانسلر اور ممبران سینڈیکٹ کا مراسلہ ارسال کیا ہے کہ جس میں کہاگیا ہے کہ ویمن یونیورسٹی ملتان نے انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز میں پروفیسر (BPS-21) کی خالی اسامی کا اعلان کیا، جس کی درخواست کی آخری تاریخ 8 اگست 2022 تھی ۔
جس میں چھ امیدواروں، حنا اسماعیل، خاور ناہید، محمد عمر فاروق، ندیم اقبال، سعدیہ ارشاد، اور صفدر حسین طاہر نے درخواست دی۔
پانچ امیدواروں کو میرٹ کی بنیاد پر اہل قرار دیا گیا ہے، پانچوں امیدوار 22 دسمبر 2022 کو سلیکشن بورڈ کے سامنے پیش ہوئے۔
سعدیہ ارشاد کو ایچ سی سی کے مقررہ کردہ قوانین کے برعکس پروفیسر تعینات کردیا گیا، جو غیر قانونی عمل ہے۔
اس کی نشاندہی کرنا ضروری ہے کہ ڈاکٹر سعدیہ ارشاد نے پی ایچ ڈی معاشیات میں کی ہے جو مینجمنٹ سائنسز کے پروفیسر کے عہدے کے لیے غیر متعلقہ ہے ، اور کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔
ڈاکٹر سعدیہ ارشاد نے اپنی ریسررچ مقالوں کی تعداد 17بتائی ہے ، مگر درخواست فارم کے ساتھ 5مقالے لگائے گئے ہیں، جبکہ ایچ ای سی کے قوانین کے تحت پروفیسر کےلئے یہ تعداد ناقابل قبول ہے۔
اس کے علاوہ اس نے کوئی پوسٹ ڈاک بھی نہیں کی ہے ، انہیں حال ہی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر (BPS-20) کے طور پر ترقی دی گئی ہے، اور ابھی وہ پروبیشن کی مدت میں ہیں، مگران کو پروفیسر بنایا جارہا ہے ، ہر چیز کا انتظام یونیورسٹی کے رجسٹرار (قمر رباب) اور ایڈیشنل رجسٹرار (ماریہ شمس خاکوانی) کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو کہ ڈاکٹر سعدیہ ارشاد کے قریبی دوست اور متعدد مقالوں میں شریک مصنف ہیں ۔
حیران کن طور پر ڈاکٹر ماریہ شمس خاکوانی جو کہ انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز میں ایڈیشنل رجسٹرار (تدریسی امور) کے عہدے پر اضافی فرائض سرانجام دے رہی ہیں، وہ بھی سعدیہ ارشاد کے ماتحت ہیں۔
پروفیسر مینجمنٹ سائنسز کی پوسٹ کے خلاف امیدواروں کے ڈوزیئر مقامی تشخیص کے لیے ڈاکٹر حسن بچہ ، (پروفیسر آف مینجمنٹ سائنسز بی زی یو، ملتان) کو بھیجے گئے تھے، جو ڈاکٹر سعدیہ ارشاد کے شریک مصنف بھی ہیں، جو کہ مفادات کا واضح تصادم ہے اور یونیورسٹی کی جانب سے بدنیتی کا ثبوت ہے۔
علاوہ ازیں ، ڈاکٹر سعدیہ ارشاد کی تقرری کا انتظام کرنے کے لیے محمد حسن بچہ کی سفارش پر ڈوزیئر امریکہ سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر کو بھیجے گئے تھے۔
جبکہ سنڈیکیٹ سے منظور شدہ ماہرین کی اسٹینڈنگ لسٹ میں غیر ملکی جائزہ لینے والوں کا نام غائب تھا۔
اس کے بجائے، یونیورسٹی کے چارٹر کے مطابق اسے سلیکشن بورڈ کی سفارش کے بغیر وی سی نے منظور کیا۔ایسے میں تعلیمی اور تدریسی کیریر کے باعث میں میرٹ پر پہلی پوزیشن پر تھا، مگر وائس چانسلر نے فراڈ اور بددیانتی کرتے ہوئے ڈاکٹر سعدیہ ارشاد کو پروفیسر بنانے کی سفارش کردی ۔
اب یہ کیس حتمی منظوری کےلئے سینڈیکیٹ میں پیش کیا جائے گا ، اس لئے تمام ممبران سینڈیکیٹ سے اپیل ہے کہ وہ ڈاکٹر سعدیہ ارشاد کی پروفیسر مینجمنٹ سائنسز کے عہدے کے خلاف تقرری پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل سماعت کا موقع دیا جائے۔