کرپشن، غیر قانونی ترقی اور تعیناتی، ویمن یونیورسٹی ملتان کی وائس چانسلر کے خلاف حکم امتناعی
ملتان کے رہائشی محمد ہاشم نے سینئر وکیل جمشید حیات کے توسط سے عدالت عالیہ میں رٹ دائر کی کہ ڈاکٹر عظمیٰ قریشی کی ویمن یونیورسٹی لاہور میں بطور پروفیسر تعیناتی غیر قانونی ثابت ہوچکی ہے، جس پر آڈٹ جنرل پاکستان نے اعتراض اٹھایا، اور ایک تعیناتی پر آڈٹ پیرا بنایا کہ انکی تعیناتی نوازنے کی کوشش ہے۔
یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی ملتان : وائس چانسلر کی جاتے جاتے بھرتیاں، لوٹ سیل لگ گئی
ان کے اسامی کا اشتہار صرف ایک اخبار میں شائع ہوا جبکہ یہ کم سے کم دو اخبار میں شائع ہونا ضروری تھا، جبکہ ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے لاہور کالج یونیورسٹی سے اپنی تعیناتی کے بعد 5 ایڈوانس انکریمنٹ بھی وصول کیں، جن کی رقم 30لاکھ روپے بنتی ہے، جو غیر قانونی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی : پروفیسر کی دو نمبری پکڑی گئی؛ گورنر نے طلب کرلیا، رجسٹرار کی بھی پیشی
اسی طرح انہوں نے لاہور کالج یونیورسٹی کا ایڈیشنل چارج سنبھالا مگر تنخواہ وائس چانسلر والی وصول کی، جو غیر قانونی اور ایکٹ کے خلاف تھی۔
اس طرح انہوں نے قومی خزانے کو 70لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا۔
یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کا اجلاس : ممبران کو اندھیرے میں رکھ کر غیر قانونی اقدام منظور کرانے کی تیاریاں
اسی طرح سپریم کورٹ نے ڈاکٹر عظمیٰ قریشی کو ان کے ریسرچ پیپر پورے نہ ہونے اور غیر قانونی تعیناتی پر لاہور کالج یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ سے ہٹایا مگر بعد میں انہوں نے سیاسی اثر رسوخ سے ویمن یونیورسٹی ملتان میں تعیناتی کرالی، پیٹشنر نے مؤقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے اپنی ملتان تعیناتی کے دوران ڈاکٹر قمر رباب ، ڈاکٹر سعدیہ ارشاد، ڈاکٹر ماریہ شمس کو راتوں رات پروفیسر شپ سے نواز دیا جو غیر قانونی اور خلاف ایکٹ اقدام تھا، جبکہ اینٹی کرپشن ملتان میں بھی اس وقت ڈاکٹر عظمیٰ قریشی کے خلاف 20 کروڑ روپے نجی بنک میں رکھنے پر انکوائری شرو ع ہوچکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی میں فزکس پروجیکٹس کی نمائش
ان حقائق کی روشنی میں ڈاکٹر عظمیٰ قریشی کو مزید کسی بھی یونیورسٹی میں وائس چانسلر تعیناتی سے روکا جائے، اور کرپشن کی انکوائری کرائی جائے۔
یہ بھی پڑھیں ۔
ویمن یونیورسٹی ملتان میں پنجاب یونیورسٹی کے ایکٹ سے فائدہ اٹھانے کا انکشاف
جس پر جسٹس مزمل اختر نے مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے ڈاکٹر عظمیٰ کے خلاف حکم امتناعی جاری کردیا، اور فیصلے تک کسی بھی نئی اسائمنٹ سے روک دیا جبکہ یونیورسٹی حکام اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے اس بابت جواب طلب کرلیا ہے ۔