جامعہ زکریا ایل ایل بی کیس: قانونی سقم سے بھرپور جے آئی ٹی کی رپورٹ تیار، دو وائس چانسلر سمیت 60 افراد پر ملبہ ڈال دیا گیا
زکریا یونیورسٹی کے ایل ایل بی کیس کا فیصلہ آج ہوگا، حتمی رپورٹ میں آخری اوقات میں تبدیلی کردی گئی ، الحاق کمیٹی اور خزانہ دار برانچ کے ڈپٹی کو بھی ذمے داروں میں شامل کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں ۔
جامعہ زکریا : ایل ایل بی کیس، سپریم کورٹ میں چار مئی کو سماعت، فریقین طلب
زکریا یونیورسٹی کےایل ایل بی تین سالہ پروگرام کیس کی فیصلہ کن گھڑی آن پہنچی، جی آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں ۔
جامعہ زکریا: ایل ایل بی کیس ؛ وی سی اور رجسٹرار معطل، کنٹرولر ، خزانہ دار بھی ذمےدار قرار
ذرائع کے مطابق ملتان سے انکوائری کمیٹی نے جو رپورٹ تیار کی تھی اس میں آخری اوقات میں تبدیلی کردی گی، جو ملتان سے باہر کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں ۔
ایل ایل بی کیس : طلباء کا کیس میں فریق بننے کا فیصلہ، ایف آئی اے کی رپورٹ فائنل ٹچ کےلئے ایک بار پھر ملتان پہنچ گئی
پہلے جو رپورٹ تیار کی گئی تھی اس میں جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ سابق وائس چانسلر طارق انصاری، سابق وائس چانسلر منصور اکبر کنڈی، سابق رجسٹرار صہیب راشد خان، سابق ڈپٹی رجسٹرار (رجسٹریشن) اللہ دتہ، پاکستان سکول آف پاکستان کے مالک لطیف نواب نے بے ضابطگیاں کیں۔
یہ بھی پڑھیں ۔
زکریا یونیورسٹی : ایل ایل بی کیس؛ کالجز مالکان کا منظم فراڈ ثابت، ایف آئی اے رپورٹ[“ڈی رپورٹرز” کی تفصیلی خبر]
لاکالج پاکپتن، محمڈن لاء کالج ملتان اور پاکستان لاء کالج پاکپتن کے مالک مبشر حسن اور دیگر لاء کالجوں کی جانب سے وصول کی گئی فیس کی بنیاد پر مالی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تقریباً 60کروڑ روپے سے زائد کے لاء کالجز اور یونیورسٹی نے غلط فائدہ اٹھا کر حاصل کیے تھے، مگر تبدیلی کے بعد اب ذمے داروں میں الحاق کمیٹی کے سارے ارکان کو بھی شامل کرلیاگیا، اور ان پر رقم بھی فکس کردی گئی ہے ۔
یہ بھی پڑھیں ۔
زکریا یونیورسٹی نے ایل ایل بی 5سالہ پروگرام کرانے والے 20 لا کالجز کا الحاق ختم کردیا
رپورٹ کے مطابق وائس چانسلر ڈاکٹر طارق انصاری اس کیس کے مرکزی کردار ہیں، ان پر 30 کروڑ 35لاکھ روپے کی ذمے داری عائد کی جاتی ہے، وائس چانسلر منصور اکبر کنڈی پر 29 کروڑ 53لاکھ روپے ،صہیب راشد رجسٹرار پر 60کروڑ34لاکھ روپے ،اللہ دتہ 60کروڑ 34لاکھ روپے ،ممبران الحاق کمیٹی جن میں پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ پر ایک کروڑ 70لاکھ روپے ، ڈاکٹر ممتاز کلیانی پر ایک کروڑ 75لاکھ روپے ، ڈاکٹر مصباح ایک کروڑ 75لاکھ روپے ، اسسٹنٹ رجسٹرار خالد بن طالب پر 25کروڑ84لاکھ روپے ،محسن شہزاد 25 کروڑ 84لاکھ روپے ، طارق اعوان 25 کروڑ 84لاکھ روپے جبکہ ڈپٹی خزانہ دار زاہد محمود پر 46لاکھ روپے کی ذمے داری عائد کی جاتی ہے، جبکہ ہر کالج پر بھی ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد کی ذمے عائد کی گئی ہے۔
حتمی رپور ٹ میں کہاگیا ہے کہ مکمل چھان بین کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ منظم فراڈ زکریا یونیورسٹی انتظامیہ نے مختلف لاء کالجوں کے ساتھ مل کر کیا تھا۔
اس گھوٹالے کا مالی اثر تقریباً 603.4 روپے ہے۔
اس لیے دعا کی جاتی ہے کہ ان مبینہ افراد کے خلاف جن کے کردار کی سیکشن (4) میں وضاحت کی گئی ہے، اس سلسلے میں دائرہ اختیار رکھنے والی متعلقہ تحقیقاتی ایجنسی کے ذریعے فوجداری کارروائی شروع کی جائے۔
خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں ۔
جعلی ووچر کیس: محمڈن لا کالج کو واجبات جمع کرانے کا حکم
دوسری طرف یونیورسٹی انتظامیہ نے اس رپورٹ کو حقائق کے منافی قرار دیا ہے، ماہرین قوانین کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں جتنے بڑے فراڈ کا کہاگیا ہے، وہ زمینی حقائق کے مطابق موجود نہیں ہے اور نہ ہی رپورٹ کے ساتھ اس کے کوئی ثبوت فراہم کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے اس رپورٹ میں بہت سارے قانونی سقم موجود ہیں جو انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی، اس لئے اس کیس پر مزید انکوائری کی جانے چاہیے تھی اور ثبوت کے ساتھ یہ رپورٹ پیش کیے جانی چاہیے تھی تاکہ اس کیس کے اصل کرداروں کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔