زکریا یونیورسٹی کے ہاسٹلز پر جرائم پیشہ افراد کا قبضہ ، منشیات کی منڈی لگ گئی
تفصیل کے مطابق زکریا یونیورسٹی حکام اس وقت شدید پریشانی کا شکار ہیں۔
ایک لسانی تنظیم کے طلباء نے ہاسٹل میں کرمنل سرگرمیوں کو عروج پر پہنچادیا ہے، یہ طلبا منشیات کی استعمال کرنے اور فروخت کرنے میں ملوث ہیں ۔
گزشتہ ہفتے بھی ایک طالب علم آئس فروخت کرتا ہوا پکڑا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں۔
زکریا یونیورسٹی میں پھر منشیات کی گونج ، ایک طالب علم گرفتار
ذرائع کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں آئس کا کھلے عام استعمال ہورہا ہے ، جبکہ دوسری منفی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں۔
آئس نشہ اور منشیات کے خاتمہ کے لیے ایک ماہ کی مہلت
چھ اکتوبر کو ایک سکول کے طالب علم کو اغوا کرکے جنسی تشدد کا نشانہ بنایاگیا، طالب علم ’’م‘‘ کی والدہ روبینہ مراتب علی نے پولیس کو بتایا کہ اس کا بیٹے کی عمر 15 سال ہے، وہ نویں کا امتحان دے چکا ہے ۔
اس کو یونیورسٹی کے طلبا علی حیدرجٹ ، عمربزدار، احتشام پٹھان، دانی ، قادر ، مترو شاہ زیب قریشی نے تنگ کرنا شروع کیا، اور حیلے بہانوں سے اس کو لیجانے لگے ، پھر اس کو آئس کے نشے پر لگادیا۔
یہ بھی پڑھیں۔
زکریا یونیورسٹی میں منشیات کا ریکٹ پکڑا گیا، طالبعلم سے چرس اور رقم برآمد ، گاہکوں کی تلاش شروع
وہ میرے بیٹے کو عثمان ہال میں لے گئے، اور وہاں نشہ پلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا، اور خلاف فطرت کام کراتے ہوئے ویڈیو بھی بنالیں ۔
یہ بھی پڑھیں۔
زکریا یونیورسٹی میں منشیات فروش کا طلباء پر وار، ایک قتل اور تین زخمی
بعد ازں بلیک میل کرکے 80ہزار روپے ، طلائی انگوٹھی ، ٹاپس ڈیڑھ تولہ لے لیے، جب میں نے بیٹے کو روکنے کی کوشش کی توانہوں نے فون پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور بیٹے کو جان سے مانے کا کہا ،ان کی تمام گفتگو کی ریکارڈ نگ فون میں موجود ہے ، اب مجھےیہ افراد جان سے مارنے کی دھمکی دے رہے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں۔
زکریا یونیورسٹی کے ہاسٹلز پب بن گئے، ویڈیوز وائرل
اعلیٰ حکام ان کے خلاف کارروائی کرے، جس پرپولیس تھانہ الپہ نے مقدمہ درج کرکے کارروائی شروع کردی ۔
دوسری طرف ایک اور ذرئع کا کہنا ہے کہ پولیس نے یہ کس رجسٹر ہونے کے بعد ریسرچ آپریشن کرنا تھا ، مگر بات آوٹ ہوگئی ، طلباء نے گرفتاری سے بچنے کےلئے یونیورسٹی میں احتجاج شروع کردیا، اور رات گئے تک ایڈمن آفس کے سامنے احتجاجا بیٹھے رہے، جس کی وجہ سے سرچ آپریشن ملتوی کرنا پڑا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لسانی تنظیم سے تعلق رکھنے والے طلبا سیاسی طور پر بااثر ہیں، جن کے سامنے سیکورٹی حکام بھی بے بس نظر آتے ہیں، اور لڑائی جھگڑے معمول بنتے جارہے ہیں ۔