سامراجی دور میں مقامی زبانوں اور روایات کو کم تر بنانے کی خاطر تراجم کیے گئے
بہاوءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اردو کے زیراہتمام دو روزہ آن لائن بین الاقوامی کانفرنس "ترجمہ اور بین الثقافتی مطالعات” کے عنوان سے شروع ہوگئی ہے۔
پہلے سیشن کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر منصو راکبر کنڈی نے کی جبکہ پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد اورڈاکٹر اصغر ندیم سید مہمانان اعزاز تھے۔
کانفرنس سے اپنے خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر منصو راکبر کنڈی نے کہا ہے کہ میں خود استنبول میں اردو چیئر پر رہا ہوں اور مجھے یہ فخر ہے کہ میں نے وہاں ترکی زبان سیکھی اور اب بھی میں اعلی حکام سے کہتا ہوں کہ چیئرز پر جانے والوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے تھا اس طرح وہاں کے طالب علموں اور استادوں پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
مقتدرہ قومی زبان کے سابق صدر نشین و سابقہ ڈین جامعہ زکریا پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد نے اپنے خطاب میں تراجم کے اداروں کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ شعبہ ملک کا اس اعتبار سے منفرد شعبہ ہے کہ یہاں سے چار اساتذہ اردو چیئرز پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں جاپان اور ترکی کے طالب علموں اور استادوں کے اشتراک سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے کام بھی ہوئے ہیں ۔
نامورڈرامہ نگار ڈاکٹر اصغر ندیم سید نے ترجمہ کا ثقافتی تناظر پیش کرتے ہوئے۔ اس بات پر زور دیا کہ بہت سے تراجم ابھی ہونا باقی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تخلیقی ادب کا ترجمہ سب سے مشکل فن ہے ۔
شاہ محمد مری نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مترجم کو تمام تر تعصبات سے پاک ہونا چاہیے انہو ںنے کہاکہ ہم بلوچی زبان میں عالمی ادب کا ترجمہ کررہے ہیں ۔ کوئٹہ سے ماہنامہ سنگت بھی جاری کیا ہے ۔
دلی یونیورسٹی کی ڈاکٹر ارجمند آراء نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ تراجم دراصل انسانیت کی خدمت ہے۔ اور مجھے فخر ہے کہ میں نے رالف رسل اور ارون دھتی رائے کی شاہکار کتب کے تراجم کیے ہیں ۔
اورینٹل کالج لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر ناصر عباس نیئرنے اردو ترجمہ کو نوآبادیاتی تناظر میں دیکھتے ہوئے کہاکہ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سامراجی دور میں مقامی زبانوں اور روایات کو کم تر بنانے کی خاطر تراجم کیے گئے ہیں۔
صدر شعبہ اردو پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد خان کلیانی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ نہ صرف پاکستان سے بلکہ دس مختلف ممالک سے ایک سو سے زائد سکالرز طالب علموں کی رہنمائی کے لیے آن لائن اردو کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں۔
کانفرنس کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر خاور نوازش نے کہاکہ عہد حاضر میں ثقافتی مکالمے کی اہمیت سب سے زیادہ ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ کانفرنس منعقد کی کیونکہ مکالمے کا اہم ترین ذریعہ ترجمہ ہے اور پاکستان میں اس موضوع پر پہلے اتنے بڑے پیمانے پر کوئی کانفرنس منعقد بھی نہیں ہوئی۔
کانفرنس کے منتظمین میں صدر شعبہ اردو اور کانفرنس کوآرڈینیٹر کے ساتھ ڈاکٹر فرزانہ کوکب ، ڈاکٹر سجاد ، نعیم چنا ، جمشید ، الیاس کبیر اور اویس سجاد شامل ہے۔