گزشتہ سے پیوستہ
گناہ کے بوجھ سے بیمار ہونے کا تصور صرف ہمارے ہاں ہی موجود نہیں ہے بلکہ یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ تاریخ انسانی ۔ کیونکہ جس ذات نے ہمیں تخلیق کیا ہے وہ ہر دور میں اپنے ہادیان بر حق کے ذریعے ہر اس غیر فطری اور نقصان دہ عمل خواہ وہ ہمارے اپنے لئے ہو یا دوسروں کے لئے جسے اصطلاح عام میں گناہ کہا جاتا ہے سے بعض رہنے کی تلقین کرتا رہا ہے جو کہ الہامی کتابوں میں بھی کبھی مضر نتائج بتا کر اور کبھی بتائے بغیر لازماً موجود ہوتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں ۔
بیماریوں کے روحانی محرکات ( قسط نمبر 1)
یہ بھی پڑھیں ۔
بیماریوں کے روحانی محرکات (قسط نمبر 2)
یہ بھی پڑھیں ۔
بیماریوں کے روحانی محرکات (قسط نمبر 3)
یہ بھی پڑھیں ۔
بیماریوں کے روحانی محرکات (قسط نمبر 4)
یہ بھی پڑھیں ۔
بیماریوں کے روحانی محرکات (قسط نمبر5)
یہی وجہ ہے کہ اسلام سمیت ہو مذہب اور دور کے حکماء پاکیزہ زندگی گزارنے پر زور دیتے رہے ہیں سوائے بقراط کے مکتبہ فکر hypocrites school of thought کے جس نے اس قدیم ترین نظریے کی تردید کی، اور اس بات پر زور دیا کہ انسانی جسم میں چار میں سے کسی ایک مادے کی افراد و تفریط، غلط خوراک اور ورزش کی کمی سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور اس کا گناہ یا ارواح سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
لہذا اس کا یہ نظریہ ایلوپیتھک میڈیسن کی بنیاد بنا جس میں ٹسٹ سے بیماری کنفرم ہونے کے بعد کثیر مقدار میں دوا دے دی جاتی ہے، جس کے سائیڈ ایفکٹ میں ایک اور بیماری ظاہر ہو جاتی ہے ۔
نتیجتاً حالیہ سالوں میں یہ پتا لگانے کے لئے ریسرچ کی جا رہی کہ انسان کے ذہن میں ایسا کیا چل رہا ہوتا ہے جو متعلقہ بیماری کی وجہ بنتا ہے۔
اگر تھوڑی سی گہرائی میں جا کر ان حالات کا جائزہ لیا جائے جن میں بقراط نے یہ نظریہ پیش کیا تھا تو پتا چلتا ہے کہ اس نے مصلحت کے تحت ایسا کیا کیونکہ George G M James کی تصنیف Stolen legency کے مطابق یونانی فلسفہ قدیم مصری راہبوں کا عطا کردہ ہے لہذا چونکہ ان کی تعلیمات وحدانیت یعنی monothism پر مبنی تھی، اور یونان کے روایتی مذہب میں بہت سے خداؤں کو مانا جاتا تھا۔
لہذا اپنے قومی مذہب کے خلاف عقائد رکھنے پر ریاست کی طرف سے ان اہل علم پر کافی سختیاں کی جاتی تھی اور سزائیں دی جاتی تھیں یہاں تک کہ بقراط کے استاد سقراط کو بھی اپنے عقائد کی سزا میں زہر کا پیالہ پلا دیا گیا۔
: لہذا غالب امکان یہی ہے کہ اس نے اپنی زندگی بچانے کے لیے طب کو روحانیت سے الگ کر لیا تھا۔
: یہ امکان اس لئے ہے کہ طب میں بالکل الگ سمت اختیار کرنے کے باوجود اس کے فلسفے میں روحانی پاکیزگی کا تصور قائم رہا جس کا اظہار اس کے طبیبوں کے لیے قائم کئے گئے حلف نامے یعنی hippcratic oath اور اقوال سے ہوتا ہے جیسے:
: جو شخص حسد کو قائم رکھے اس کا نفس قائم نہیں رہ سکتا اور اس کی حاسدانہ روش اس کو قبل از وقت موت کے منہ پہنچا دیتی ہے۔عقلمند وہ ہے جو میانہ روی کو اپنی زندگی کا شعار بنائے رکھے۔اس دنیا کو مہمان خانہ سمجھو اور موت کو میزبان۔اگر تمہیں بہت دولت مل جائے تو رب کا شکر کرو اور چھین لی جائے تو ناشکری مت کرو۔مخلوق کے فیصلوں میں انصاف برقرار رکھو۔
: چونکہ اللہ ہی ہمارا اور اس کائنات کا خالق ہے لہذا جہاں اس نے اپنی آخری کتاب میں ان بشری کمزوریوں کو بیان کیا ہے جو بیماریوں کا محرک بنتی ہیں وہاں اس کتاب کو سمجھ کر پڑھنا ان سب بشری کمزوریوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہوئے والی بیماریوں سے شفا کا باعث ہ:ے :
: وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ-وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا(82)
ترجمہ: کنزالایمان
اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز (۱۷۹) جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور اس سے ظالموں کو نقصان ہی بڑھتا ہے۔ ( سورہ الاسرا)
: جب ہم قرآن پڑھتے ہیں اور غور اس پر غور کرتے ہیں تو تین طرح سے ہمیں شفا ملتی ہے۔
: 1۔ low self esteem
: جو انسان معاشرے کا ستایا ہوا ہو اور دکھ سے بھر کر اس کتاب کو اٹھاتا ہے تو اس کے وہ الفاظ اسے تسلی دیتے ہیں جو اللہ تعالٰی نے کفار اور منافقین کے ستانے پر نبی کریم صلعم کی تسلی کے لئے نازل کیئے۔ ایسی آیات پڑھ کر اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ کا وہ عزیز ترین بندہ جس کے لئے اس نے دنیا بنائی تھی، دنیادار اور مقتدر لوگ کبھی مجنوں، تو کبھی جادوگر تو کبھی شاعر کہہ کر اس کی جتنی تضحیک کرتے تھے اور ذہنی اذیت دیتے تھے اس کے مقابلے میں میری تکلیف تو کچھ بھی نہیں۔
سورۃ نون میں اللہ تعالٰی نے نبی اکرم صلعم کو حضرت یونس علیہ السلام کا حوالہ دے کر صبر کرنے کی کچھ اس طرح تلقین کی ہے:
: فَاصْبِـرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِۢ اِذْ نَادٰى وَهُوَ مَكْـظُوْمٌ (48) ↖
پھر آپ اپنے رب کے حکم کا انتظار کریں اور مچھلی والے جیسے نہ ہوجائیں جب کہ اس نے اپنے رب کو پکارا اور وہ بہت ہی غمگین تھا۔
لَّوْلَآ اَنْ تَدَارَكَهٝ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَهُوَ مَذْمُوْمٌ (49) ↖
اگر اس کے رب کی رحمت اسے نہ سنبھال لیتی تو وہ برے حال سے چٹیل میدان میں پھینکا جاتا۔
فَاجْتَبَاهُ رَبُّهٝ فَجَعَلَـهٝ مِنَ الصَّالِحِيْنَ (50) ↖
پس اسے اس کے رب نے نوازا پھر اسے نیک بختوں میں کر دیا۔
وَاِنْ يَّكَادُ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا لَيُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِـمْ لَمَّا سَـمِعُوا الـذِّكْـرَ وَيَقُوْلُوْنَ اِنَّهٝ لَمَجْنُـوْنٌ (51) ↖
اور بالکل قریب تھا کہ کافر آپ کو اپنی تیز نگاہوں سے پھسلا دیں جب کہ انہوں نے قرآن سنا اور کہتے ہیں۔
: اس جیسی بہت سی آیات پڑھ کہ دنیا کے ستائے ہوئے انسان کے دل کو ایک سکون ملتا ہے کہ یہ سب کچھ تو نبیوں پیغمبروں اور اللہ کے مقرب بندوں کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے کہ شیطان اپنے ساتھی انسانوں کے ذریعے ان انسانوں کو تکلیف پہنچاتا ہے جن کے متعلق اسے یقین ہو کہ وہ اپنے عمل سے اللہ کے مقرب بن جائیں گے ۔
: اسی حقیقت کو ایک صوفی بزرگ میاں محمد بخش رحمت اللہ علیہ اپنی شاعری میں بتاتے ہیں کہ دنیا ہر کسی کو نہیں ستاتی:
: لکھاں بیر، بیری نوں لگدے تے جھڑ جاندے نے کچے
جیہرے پکن لال محمد بس اوہئو کھاندے وَٹے
: اسی طرح سورہ المطفیفین جس کا ذکر میں نے دل کے زنگ کے حوالے سے کی ہے اس میں بھی پہلے ان لوگوں کی تصویر کشی کی گئی ہے جو ناجائز طریقوں سے پیسہ اور لائف سٹائل بناتے ہیں اور شریف اور ایماندار لوگوں کو انتہائی بے وقوف اور ڈفر سمجھتے ہیں پھر آخری آیات میں نیک لوگوں کو بہت دلنشیں انداز میں کچھ اس طرح تسلی دی گئی ہے :
: اِنَّ الَّـذِيْنَ اَجْرَمُوْا كَانُـوْا مِنَ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا يَضْحَكُـوْنَ (29) ↖
بے شک نافرمان (دنیا میں) ایمان داروں سے ہنسی کیا کرتے تھے۔
وَاِذَا مَرُّوْا بِـهِـمْ يَتَغَامَزُوْنَ (30) ↖
اور جب ان (مسلمانوں) کے پاس سے گزرتے تو آپس میں آنکھ سے اشارے کرتے تھے۔
وَاِذَا انْقَلَبُـوٓا اِلٰٓى اَهْلِهِـمُ انْقَلَبُوْا فَكِهِيْنَ (31) ↖
اور جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر جاتے تو ہنستے ہوئے جاتے تھے۔
وَاِذَا رَاَوْهُـمْ قَالُوٓا اِنَّ هٰٓؤُلَآءِ لَضَآلُّوْنَ (32) ↖
اور جب ان (مسلمانوں) کو دیکھتے تو کہتے بے شک یہی گمراہ ہیں۔
وَمَآ اُرْسِلُوْا عَلَيْـهِـمْ حَافِظِيْنَ (33) ↖
حالانکہ وہ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔
فَالْيَوْمَ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُـوْنَ (34) ↖
پس آج (قیامت کے دن) وہ لوگ جو ایمان لائے کفار سے ہیں۔
: 2۔high self esteem
: جیسا کہ پہلے بتایا high self esteem وہ صورت ہے جب انسان اپنے آپ کو سب سے بہتر اور دوسروں کو کمتر سمجھتے ہوئے خصوصی سلوک کی توقع کرتا ہے لیکن جب اسے یہ پروٹوکول نہیں ملتا تو یا تو choice of behaviour کے تحت خود کسی بیماری میں پناہ لیتا ہے یا پھر بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن جب وہ قرآن پڑھتا ہے تو اس تصور کے تحت اس کے احساس برتری کی نفی ہو جاتی ہے کہ سب انسان برابر ہیں اور supreme صرف اللہ کی ذات ہے اس لئے غرور تکبر اللہ کی چادر ہے لہذا یہ کسی انسان کے لئے جائز نہیں ۔
سورہ الاسرار میں انسان کو انسان الفاظ میں غرور سے روکا گیا ہے :
: وَلَا تَمْشِ فِى الْاَرْضِ مَرَحًا ۖ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُـغَ الْجِبَالَ طُوْلًا (37) ↖
اور زمین پر اتراتا ہوا نہ چل، بے شک تو نہ زمین کو پھاڑ ڈالے گا اور نہ لمبائی میں پہاڑوں تک پہنچے گا۔
كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَيِّئُهٝ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْـرُوْهًا (38) ↖
ان میں سے ہر ایک بات تیرے رب کے ہاں ناپسند ہے۔
ذٰلِكَ مِمَّآ اَوْحٰٓى اِ
: سورہ الفرقان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ناگوار سلوک کا سامنا ہر کسی کو کہیں نا کہیں ہوتا ہے لیکن اگر آپ اللہ کے بندے ہیں تو نہ تو دوسروں کی توجہ اور محبت حاصل کرنے کے لیے choice of behavior سے کسی معذوری یا پاگل پن کا انتخاب کریں گے اور نہ ہی جل کڑھ کر کسی بیماری کا شکار ہوں گے، کیونکہ عزت ذلت اقتدار دولت کا اصل مالک اللہ ہے لہذا وہ جس کو جب چاہے دے اور جب چاہے چھین لے، بلکہ زمین پر اس کے عاجز غلام بن کر رہیں گے اور جاہلوں کے کلام کا یہ جواب دیں گے :
وَعِبَادُ الرَّحْـمٰنِ الَّـذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَاِذَا خَاطَبَهُـمُ الْجَاهِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا (63) ↖
اور رحمنٰ کے بندے وہ ہیں جو زمین پردبے پاؤں چلتے ہیں اورجب ان سے بے سمجھ لوگ بات کریں تو کہتے ہیں سلام ہے۔
[: اسی طرح کی نصیحت حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کچھ اس طرح کی تھی:
: وَلَا تُصَعِّـرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِى الْاَرْضِ مَرَحًا ۖ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ (18) ↖
اور لوگوں سے اپنا رخ نہ پھیر اور زمین پر اترا کر نہ چل، بے شک اللہ کسی تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
وَاقْصِدْ فِىْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۚ اِنَّ اَنْكَـرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَـمِيْـرِ (19) ↖
اور اپنے چلنے میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست کر، بے شک آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی ہے۔
اَلَمْ تَـرَوْا اَنَّ اللّـٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٝ ظَاهِرَةً وَّّبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِى اللّـٰهِ بِغَيْـرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًى وَّلَا كِتَابٍ مُّنِيْـرٍ (20) ↖
کیا تم نے نہیں دیکھا جو کچھ آسمانوں میں اور ج…
: 3۔دنیا کی محبت
: قرآن مجید میں کئی بار بتایا گیا ہے کہ دنیا کی زندگی محض دھوکا ہے اور اصل زندگی آخرت ہے :
: وَمَا هٰذِهِ الْحَيَاةُ الـدُّنْيَآ اِلَّا لَـهْوٌ وَّلَعِبٌ ۚ وَاِنَّ الـدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَـهِىَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُـوْا يَعْلَمُوْنَ (64) ↖
اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے، اور اصل زندگی عالم آخرت کی ہے کاش وہ سمجھتے۔
: دنیا کی محبت دو قسم کی ہوتی ہے پہلی یہ کہ انسان دنیاوی رشتوں اور محبتوں کے مان میں انتہائی خوشگوار زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ مسئلہ وہاں ہوتا ہے جہاں ان میں سے کوئی تعلق یا رشتہ اس سے چھوٹ جائے جیسا کہ کینسر کے مریضوں یہاں تک کہ بچوں کی کیس ہسٹری میں دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی بچہ یا بچی اپنے ماں یا باپ سے بے انتہا محبت کرتا ہے لہذا اچانک اس رشتے دار کی موت یا علیحدگی کی صورت میں اسکے لئے دنیا میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہتی اور وہ broken spirit کینسر کا شکار ہو جاتی ہے ۔
لہذا ایسے دنیاوی محبتوں اور رشتوں سے محروم ٹوٹے ہوئے دلوں کے لئے سورہ آلضحی ڈھارس ہے جسے اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب حضرت محمد صلعم کے دلاسے کے لیے نازل کی تھی کیونکہ ان سے زیادہ محبت کرنے والے دنیاوی رشتوں سے محرومی کسی نے نہیں دیکھی :
: وَالضُّحٰى (1) ↖
دن کی روشنی کی قسم ہے۔
وَاللَّيْلِ اِذَا سَجٰى (2) ↖
اور رات کی جب وہ چھا جائے۔
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى (3) ↖
آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ بیزار ہوا ہے۔
وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْـرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى (4) ↖
اور البتہ آخرت آپ کے لیے دنیا سے بہتر ہے۔
وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَـرْضٰى (5) ↖
اور آپ کا رب آپ کو (اتنا) دے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔
اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاٰوٰى (6) ↖
کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا تھا پھر جگہ دی۔
وَوَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى (7) ↖
اور آپ کو (شریعت سے) بے خبر پایا پھر (شریعت کا) راستہ بتایا۔
وَوَجَدَكَ عَآئِلًا فَاَغْنٰى (8) ↖
اور اس نے آپ کو تنگدست پایا پھر غنی کر دیا۔
: اس سورہ میں دنیاوی محبتوں سے محروم ہو جانے والے لوگوں کو بھی تسلی اور آخرت میں بے پناہ اجر کی بشارت دی گئی ہے ۔
: دوسری قسم کی محبت دنیاوی نعمتوں عیش و عشرت اور روپے پیسے کی ہے، جس کی محبت اور کمی کے خوف سے انسان ذیابیطس، heartburn اور پتھریوں جیسے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے ۔
لہذا اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کئی جگہ پر سامان دنیا کی محبت سے بچنے کی تلقین کی ہے اور بتایا ہے کہ اس کے نزدیک دنیا کی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں یہ سب وقتی عیش صرف دنیادار اور کفار کیلئے ہی جبکہ مومنوں کا حصہ اس دنیا میں کم ہے ۔
سورہ زخرف میں ارشاد باری تعالٰی ہے:
: وَلَوْلَآ اَنْ يَّكُـوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ يَّكْـفُرُ بِالرَّحْـمٰنِ لِبُيُوْتِـهِـمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّّمَعَارِجَ عَلَيْـهَا يَظْهَرُوْنَ (33) ↖
اور اگر یہ نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک طریقہ کے ہوجائیں گے (کافر) تو جو اللہ کے منکر ہیں ان کے گھروں کی چھت اور ان پر چڑھنے کی سیڑھیاں چاندی کی کر دیتے۔
وَلِبُيُوْتِـهِـمْ اَبْوَابًا وَّسُرُرًا عَلَيْـهَا يَتَّكِئُوْنَ (34) ↖
اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی چاندی کے کر دیتے جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں۔
وَزُخْرُفًا ۚ وَاِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا ۚ وَالْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِيْنَ (35) ↖
اور سونے کے بھی، اور یہ سب کچھ دنیا کی زندگی کا سامان ہے، اور آخرت آپ کے رب کے ہاں پرہیزگاروں کے لیے ہے۔
: یعنی جب ہم اپنے دل میں سامان دنیا کے نہ ملنے اور مل کر چھن جانے کا غم دل میں لے کر قرآن اٹھاتے ہیں تو وہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کے حصول کے لئے ہم انسانیت کے درجے سے گر کر دوسروں کا استحصال کریں اور اپنے آپ کو بیمار کر لیں بلکہ سورہ البقرة میں وضاحت کی گئی ہے کہ یہ سب کچھ تو دنیا کی آزمائش ہے جس میں کامیاب ہونے والوں کے لیے اجر کا وعدہ ہے:
: وَلَنَـبْلُوَنَّكُمْ بِشَىْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِـرِيْنَ (155) ↖
اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آز مائیں گے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔
اَلَّـذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُـمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْآ اِنَّا لِلّـٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (156) ↖
وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
اُولٰٓئِكَ عَلَيْـهِـمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّهِـمْ وَرَحْـمَةٌ ۖ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُهْتَدُوْنَ (157) ↖
یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے مہربانیاں ہیں اور رحمت، اور یہی ہدایت پانے والے ہیں۔
: بلکہ پہلی قوموں کی وہ مثالیں جنہیں کفار اور یہاں تک کہ ہم لوگ بھی صرف قصے کہانیاں پی سمجھتے ہیں ہمیں عبرت دلانے کے لئے بیان کی گئی ہیں تاکہ ان سابقہ قوموں کی طرح ہم زر پرستی، مادہ پرستی،مفاد پرستی جیسی خصلتوں سے بچے رہیں۔ مثال کے طور پر سورہ الفجر میں بہت سی شاندار تہذیبوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ چونکہ ان میں سے اکثر فساد کرنے والے لوگ تھے اس لئے اللہ تعالٰی نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا ۔
یہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالٰی نے انسان کی سوچ اور وہ انفرادی طرز عمل جو قوموں کی تباہی کا باعث بنتا ہے کچھ یوں بیان کیا ہے :
: فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهٝ فَاَكْـرَمَهٝ وَنَعَّمَهٝ فَيَقُوْلُ رَبِّىٓ اَكْـرَمَنِ (15) ↖
لیکن انسان تو ایسا ہے کہ جب اسے اس کا رب آزماتا ہے پھر اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے۔
وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهٝ فَيَقُوْلُ رَبِّىٓ اَهَانَنِ (16) ↖
لیکن جب اسے آزماتا ہے پھر اس پر اس کی روزی تنگ کرتا ہے تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔
كَلَّا ۖ بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِـيْمَ (17) ↖
ہرگز نہیں بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے۔
وَلَا تَحَآضُّوْنَ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ (18) ↖
اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو۔
وَتَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا (19) ↖
اور میت کا ترکہ سب سمیٹ کر کھا جاتے ہو۔
وَتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا (20) ↖
اور مال سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہو۔
: اب ایک لمحے کے لئے رک کر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں ،کیا یہ سب خصوصیات ہم میں موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے بحیثیت قوم ہم اللہ کے عذاب اور عتاب کا شکار ہیں کیا ہمارا وہ جسم جسے ہم میراثث، رشوت اور ملاوٹ کے پیسے سے بہترین اور قیمتی لباس اور کاسمیٹکس سے آراستہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جبکہ پڑوس کے یتیم مسکین بھوکے ننگے پھر رہے ہوں، اس بات کا مستحق نہیں کہ دنیا میں وہ گلے سڑے اذیت اٹھائے اور معافی نہ مانگنے کی صورت میں وہی اس کی ابدی جہنم کی سزا بن جائے۔
: بس یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں تخلیق کیا وہ ہم سے بہت پیار کرتا ہے لہذا کوئی بھی تکلیف ہمیں بغیر وجہ کے نہیں دیتا بلکہ ہمارا اپنا کوئی غیر فطری عمل، نا فرمانی، گناہ یا مخلوق کو تکلیف پہنچانا ہمارے لئے بیماری اور مصیبت کا باعث بنتا ہے جیسا کہ سورہ النساء آیت 79 میں ارشاد ہے :
: مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ٘-وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَؕ-
ترجمہ: کنزالعرفان
اے سننے والے! تجھے جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور تجھے جو برائی پہنچتی ہے وہ تیری اپنی طرف سے ہے
: اور جس عضو سے وہ نافرمانی، گناہ، سرکشی یا مخلوق کو تکلیف پہنچائی جاتی ہے وہی عضو اذیت میں مبتلا ہوتا ہے ۔
: اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دنیاوی تکالیف سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟ اللہ تعالٰی نے سورہ العصر میں یہ بھی بتا دیا کہ کامیاب کون ہے :
: وَالْعَصْرِ (1) ↖
زمانہ کی قسم ہے۔
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِىْ خُسْرٍ (2) ↖
بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔
اِلَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (3) ↖
مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے۔
: واضع رہے کہ برداشت اور صبر میں فرق ہے ۔ اللہ کی طرف سے آنے والی تکلیف کو برداشت تو کرنا ہی ہوتا ہے لیکن صبر صرف اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہوتا ہے ۔ صبر یہ ہوتا ہے کہ انسان مصیبت ، تکلیف اور دکھ برداشت کر رہا ہوتا ہے اور اللہ کے سوا کسی کو پتہ نہیں ہوتا ۔
صبر برائی اور حرام کے مواقع ہوتے ہوئے بھی اپنے نفس کو مارنے کا نام ہے۔جیسا کہ اللہ تعالٰی نے سورہ الشمس میں فرمایا :
: قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ﴿۹﴾
9. بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)o
: ہم لوگوں یعنی برصغیر پاک و ہند کے موجودہ دور کے مسلمانوں کو بنیادی طور پہ بتایا جاتا ہے کہ قرآن مجید کو ترجمے کے بغیر پڑھنا بھی بہت ثواب کا باعث ہے ۔
اگرچہ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں لیکن اس تعلیم کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تمام عمر ہم قرآن پڑھتے رہتے ہیں لیکن اس کے ثمرات سے صحیح طور پر مستفید نہیں ہو پاتے یہاں تک کہ حفاظ گرام کو بھی اس کے معنی و مطالب کا علم نہیں ہوتا۔المختصر ہماری صورتحال چراغ تلے اندھیرا والی ہے ۔
: اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ہم میں سے تو ہر شخص کسی نہ کسی بشری کمزوری کے باعث دنیاوی تکلیف اٹھا رہا ہے کسی کی عورت کمزوری ہے تو کسی کی دنیا کے شغل، کسی کی سامان دنیا اور کسی کی غصہ و نفرت کسی کی اقتدار اور کسی کا دل حسد سے بھرا ہے تو کیا ہمارے لئے کوئی اجر نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہی دنیاوی بیماری تکلیف ہی ہمیں گناہوں سے پاک کرنے کا باعث بنے گی ۔
: روزمرہ زندگی میں اپ کو بارہا مشاہدہ ہوا ہوگا کہ آپکے گھر کا کوئی بزرگ سال ہا سال بیمار رہنے کے بعد جب اپنے گناہوں کا احساس کرکے اللہ سے استغفار اور لوگوں سے معافی تلافی کرلیتا ہے تو ایک دم سے پر سکون ہو جاتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ صحتیاب ہو گیا ہو اور پھر اچانک کچھ وقت کے پردے انتہائی سکون سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے ۔
: اللہ کا کرم اس کے غضب پر حاوی ہے لہذا یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کی پوری زندگی سیاہ کاریوں میں گزری ہو اور مرنے سے پہلے سچی توبہ اسے دنیا آخرت کی تکلیف سے بچا لے۔
: سورہ الواقعة میں اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کا تزکرہ کیا ہے جو بروز محشر اللہ کے سامنے پیش ہوں گے یعنی سبقت والے دائیں ہاتھ والے اور بائیں ہاتھ والے ۔اب حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی راستے کے انتخاب میں آزاد ہے لہذا آپ چاہیں تو دنیا کی دیکھا دیکھی اللہ کا راستہ ترک کر کے زر پرستی مفاد پرستی کا راستہ اختیار کر لیں، حرام حلال کی تمیز کیئے بغیر پیسے کا حصول اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں اور اپنے مفاد کے لئے دوسروں کی زندگیاں اور سکون برباد کر ڈالیں لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ آپ کس کٹیگری میں آتے ہیں؟ سبقت والے تو اولیاء انبیاء صالحین میں سے ہوتے ہیں۔ باقی رہ گئی دو اگر آپ سرکش اور نافرمان ہیں تو دنیا میں تو سب کچھ ملتا رہے گا لیکن پھر قبر کی آگ ہوگی اور نہ ختم ہونے والا عذاب اور اگر وہ لوگ جو اپنے نفس اور دنیا کے چلن کی وجہ سے برائی اور نا فرمائی کر بیٹھتے ہیں لیکن ساتھ سات…
: لہذا بہتر یہی ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کے حصول کے لئے گناہوں سے آلودہ مت کریں تاکہ دنیا میں بھی صحت سلامتی کے ساتھ رہیں اور آخرت میں بھی جنت کے وارث بنیں۔
: اللہ ہم سب ہدایت کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
: ضروری وضاحت
: پہلا یہ فرق سمجھ لیں کہ ایک قرآن کی تفسیر ہوتی ہے اور دوسری تاویل۔ تفسیر میں علماء کرام شان نزول، واقعات اور احادیث کی روشنی میں متعلقہ آیات کی تشریح کرتے ہیں جبکہ تاویل کا تصور بالکل مختلف ہے ۔
چونکہ قرآن کا یہ معجزہ ہے کہ وہ ہمیں نہ صرف زندگی کے ہر شعبے میں مکمل ہدایت فراہم کرتا ہے بلکہ جب ہم اس کے ترجمے سے واقف ہوکر دکھ میں اس کو ہاتھ میں لے کر پڑھتے ہیں تو وہ آیتیں ہمیں تسلی دیتی ہیں جن میں نبی کریم صلعم پر ان کے اپنوں کے طعن و تشنیع تشن اور تکالیف کا بیان ہے اسی طرح جب ہم اپنے بگڑتے ہوئے حالات اور معاملات کا گلہ کرتے ہوئے اسے پڑھتے ہیں تو اس کے ذریعے ہمیں بتایا جاتا ہے پہلی عظیم الشان قومیں اور سلطنتیں کن خصائل کی بنا پر برباد ہوئیں۔
لہذا جن بیماریوں اور ان سے متعلقہ مسائل کا یہاں میں نے تذکرہ کیا ہے وہ کسی تفسیر کا حصہ نہیں بلکہ صرف میرا ذاتی مشاہدہ ہے جسے میں نے اس لئے تحریر کیا کہ سائنٹفک ریسرچ اور اسلام سے پہلے آنے والے مذہب یعنی عیسائیت اس کی تائید کرتے ہیں ۔
کیونکہ تمام سابقہ نبیوں پر اور کتابوں پر ایمان لانا اور ان کا احترام کرنا ہم مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے ) بلکہ صرف یہ بتانا مقصد ہے کہ اللہ تعالٰی نے تورات سے جو الہامی کتابوں کا سلسلہ شروع کیا تھا قرآن ان کا Last اور final version ہے جو آخری زمانے تک انسان کو درپیش مسائل کا حل بتانے، اور الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے کے لئے کافی ہے۔
بلکہ اس مقصد کے لئے یہاں میں نے صرف قرآن کی آیات ہیں بیان کی ہیں وگرنہ احادیث نبوی اور امام معصومین کی کتب میں تو وہ علم ہے جو نہ صرف سائنسی ترقی کی بنیاد بنا بلک وہ علم پوشیدہ ہے جہاں تک سائنس پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔
مثال کے طور پر "طب معصومین” جس کا لنک بھی با آسانی مل جاتا ہے، میں پیدائشی نقائص اور معذوریوں کی وجوہات بتائی گئی ہیں جہاں تک سائنس تا حال پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
(جاری ہے)