Paid ad
Breaking Newsآپ کی تحریریںتازہ ترین

بیماریوں کے روحانی محرکات (قسط نمبر 2)

گزشتہ سے پیوستہ

پہلی قسط پڑھنے کیلئے مندرجہ لنک پر کلک کریں ۔
بیماریوں کے روحانی محرکات ( قسط نمبر 1)

میں نے teen age میں جب قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اللہ تعالٰی نے بار بار بنی اسرائیل کا حوالہ کیوں دیا ہے ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اندازہ ہوا کہ چونکہ اللہ جیسی علیم الخبیر ہستی کو پتہ تھا کہ آنے والے دور کے مسلمانوں میں بھی وہی خرابیاں پیدا ہونی ہی جو کہ بنی اسرائیل میں موجود تھی جیسے سود کو روٹین بنا لینا، اللہ کے نبی کی سنت اور اللہ کے احکامات کو پس پشت ڈال کر شیطانی میڈیا کے زیر اثر ایک اپنا طرز زندگی بنا لینا، جس میں اللہ کی حرام کردہ بہت سی چیزوں کو حلال اور اس کی حلال چیزوں کو حرام قرار دے دین شامل ہیں۔

غالباً اسی مماثلت کی بنا پر کہ وہ توحید پرست بھی ہیں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے یہود کو پہلی مسلمان قوم اور ہمیں دوسری مسلمان قوم قرار دیا تھا۔
اگرچہ طب سمیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سکھائے ہوئے علوم مصر سمیت ہر اس علاقے میں جہاں بنی اسرائیل آباد رہے موجود رہے، لیکن اللہ تعالی کی طرف سے ان کی طرف بہت سے نبیوں کو مبعوث کرنے کے باجود ان میں اخلاقی بگاڑ بڑھتا گیا۔

آخر کار پہلی صدی عیسوی میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، جن کو بنی اسرائیل کی اصلاح کے لئے توحید کا پیغام اور ایک نرم شریعت دے کر بھیجا گیا جیسا کہ سورہ آل عمران کی اس آیت سے ظاہر ہے ۔

وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۖ اَنِّـىٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْـرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُـوْنُ طَيْـرًا بِاِذْنِ اللّـٰهِ ۖ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْـرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّـٰهِ ۖ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ فِىْ بُيُوْتِكُمْ ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُـمْ مُّؤْمِنِيْنَ (49)

 ↖اور اس کو بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گا (اور وہ کہے گا) بے شک میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانیاں لے کر آیا ہوں، میں تمہیں مٹی سے ایک پرندہ کی شکل بنا دیتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے اڑتا جانور ہو جاتا ہے، اور مادر زاد (پیدائشی) اندھے اور کوڑھی کو اچھا کردیتا ہوں اور اللہ کے حکم سے مردے

اللہ تعالٰی نے سورۃ البقرة اور سورۃ آل عمران میں یہود اور نصاری کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ابراہیم نہ تو یہودی تھے نہ ہی عیسائی بلکہ سچے مسلمان تھے، چونکہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کو یہودی اور عیسائی دونوں اپنا باپ مانتے ہیں، اس لئے اللہ تعالٰی نے ان کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ اس نے جتنے بھی نبی بھیجے ان سب کا توحید کا پیغام ایک ہی تھا ، ہاں شریعت میں ضرورت اور حالات کے مطابق تبدیلی ہو جاتی تھی، لہذا عیسی علیہ السلام بھی کوئی الگ مذہب لے کر نہیں آئے تھے جسے ماننے والے عیسائیوں کے نام سے جانے جاتے ہیں، بلکہ بنی اسرائیل کی اصلاح کرنے اور ان پر اللہ کی طرف سے ان کی سرکش کی وجہ سے عائد پابندیاں اٹھانے آئے تھے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک سرکش قوم جو کہ صرف اپنی مرضی پر چلنے والوں کو برداشت کرتی تھی اور اللہ کا جو نبی ان کی مرضی کے خلاف اللہ کا کوئی حکم نافذ کرنے کی کوشش کرتا تھا ، اسے قتل تک کر دیتی تھی اسکی ایک نرم شریعت کے ذریعے کیسے اصلاح ممکن ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام کو جو شفا کا علم دیا گیا اسی میں ان کی ہدایت اور اصلاح پوشیدہ تھی، یعنی انہیں بتا دیا گیا کہ گناہ اور نا فرمانی سے روح بے چین ہوتی ہے، اور جسم بیمار ہو جاتا ہے۔

جیسا کہ بائبل کی ان اور دوسری بہت سی آیات سے ظاہر ہے : "ایک بدکار قاصد فساد میں پڑ جاتا ہے، لیکن وفادار سفیر صحت ہے۔”امثال 13:17

"خوشگوار باتیں شہد کے چھتے کی مانند، روح کے لیے میٹھی اور ہڈیوں کے لیے صحت مند ہوتی ہیں”۔
امثال 16:24

اس کی اس طرح وضاحت کی جاسکتی ہے کہ مثال کے طور پر شریعت عیسوی میں پردے کی ضرورت اس لئے نہیں محسوس کی گئی کہ شریعت میں واضع کر دیا گیا ہے کہ مرد اور عورت کو آپس میں پاک نیت سے ملنا ہے، اور اگر ان کی نیت میں یا عمل میں برائی آئی تو یہ گناہ انہیں بیمار کر دے گا۔

اگرچہ بنی اسرائیل نے حضرت عیسی کی تبلیغ اور معجزات کے باوجود نہ صرف یہ کہ ان کی تبلیغ اور تعلیمات سے انکار کر دیا ، بلکہ انکے قتل کی منصوبہ بندی کر ڈالی جس پر اللہ تعالٰی نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا، لیکن ان کے ماننے والوں کی قلیل تعداد نے جب ان کی تعلیمات کی تبلیغ کی تو عیسائیت کی شکل میں باہمی رواداری، انسانیت اور امن پر مشتمل ایک ایسا دین وجود میں آیا جس کی بنیاد حضرت عیسی علیہ السلام کو دیا گیا شفا کا علم تھا ۔

جیسا کہ سورہ المائدہ کی آیت نمبر 82 میں ارشاد باری تعالٰی ہے

وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰىؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ(82)

ترجمہ: کنزالعرفان اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جو کہتے تھے :ہم نصاریٰ ہیں ۔

یہ اس لئے ہے کہ ان میں علماء اور عبادت گزار موجود ہیں، اور یہ تکبر نہیں کرتے، لیکن یہودیت کی طرح اللہ کا دیا ہوا یہ دین اور الہامی کتاب بھی وقت کرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف تبدیل اور تحریف کا شکار ہو گئے بلکہ وحدانیت کی جگہ ثثلیث نے لی۔

ڈاکٹر عبدالخالق اپنے مضمون "عیسائیت میں توحید اور ثثلیث کی کشمکش” میں اس تبدیلی کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب عیسائیت روم سے باہر پھیلنی شروع ہوئی تو اس نے دوسرے خطوں جیسے مصر، یونان، اور برصغیر وغیرہ میں رائج ایک سے زیادہ خداؤں کے فلسفے سے متاثر ہونا شروع کر دیا اور ایک طویل کشمکش کے بعد بالآخر 371 عیسوی میں سرکاری طور پر قسطنطنیہ کونسل نے میں ایک میں تین خداؤں کے اقانیم کا عقیدہ وضع کر دیا۔

اس کے بعد بھی اگرچہ باہمی رواداری اور انسانیت کے ساتھ ساتھ شفا کا علم بھی اس دین کا پہلے کیطرح حصہ رہا، لیکن عقیدے کی اس تبدیلی سے نقصان یہ ہوا کہ ایک اگر الہامی کتاب کی بھی انسانی ہاتھوں تحریف ہو گئی ، دوسرا الہامی کلام میں انسانی کلام اور خوہشات کی آمیزش سے یہ آسان ترین ضابطہ حیات علماء اور راہبوں کے سہارے کے بغیر عام انسانوں کیلئے نامزد قابل فہم اور نا قابل رسائی ہو گیا۔

اس دیں کے بارے میں ہم بھی اور عیسائی بھی یہی جانتے ہیں کہ ان سے جو بھی گناہ سرزد زد ہو جائے تو متعلقہ علاقے کے چرچ کے بڑے پادری یعنی فادر کے سامنے اتوار والے دن اعتراف یعنی confession کرنے سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اسی طرح اہل کلیسا کا دعوٰی ہے کہ شفا کا علم صرف ہمارے پاس ہے جو کہ ہم میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا ہے۔ اب یہ صرف اللہ جانتا ہے کہ یہ چیزیں اور اختیارات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے اہل کلیسا کو دیئے گئے تھے یا بعد میں یہ تبدیلیاں کرکے یہ قوانین نافذ کئے گئے۔

کلیسا کا اختیار اور استحصال وقت کے ساتھ ساتھ اتنا بڑھتا چلا گیا کہ آج سے تقریبا دو صدی قبل جب یورپ کی ترقی کے مکمل ضابطہ حیات کی ضرورت پڑ گئی اس تک پہنچنے کا براہ راست یعنی بغیر کسی انسانی سہارے کے راستہ دے۔

آخر کار اللہ تعالٰی نے 571 عیسوی میں اپنے آخری نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دنیا میں بھیج کر بنی نوح انسان کی یہ ضرورت پوری کردی ، اور ان کے ذریعے جو کلام اتارا اس میں سب بیمار دلوں کی شفا رکھی ۔

اس دین کے ذریعے ایک طرف تو اللہ تعالٰی نے اپنے اور اپنے بندوں کے تعلق کو ہر واسطے سے آزاد کرکے اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان خالص کر لیا، یعنی اب کسی بھی انسان کو گناہ کرنے کے بعد کسی فادر سے confession کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی، یعنی کہ اسے اپنے رب کے سامنے دن میں پانچ بار حاضر ہونا ہوتا ہے، اور وہ جب چاہے اپنے رب سے تنہائی میں معافی بھی مانک سکتا ہے، اور دعا بھی مانگ سکتا ہے اور دنیا کے سامنے اس کا بھرم بھی نہیں ٹوٹتا ۔

دوسرا بیماریوں اور مصائب کا وہ علم جس کے متعلق نصاریٰ کے علما کا دعویٰ تھا کہ وہ کتاب میں نہیں ہے بلکہ سینہ بہ سینہ کلیسا کے علماء میں منتقل ہوتا رہتا ہے، اس شفا کے علم کو اللہ تعالٰی نے انتہائی سادہ اور جامع انداز میں اپنی آخری الہامی کتاب قرآن مجید میں سمو کر ہر کلمہ گو گھر میں پہنچا دیا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جب ہم دکھی ہوں بیمار ہوں اور قرآن کے دوسری جانب یہ چونکہ اللہ کا آخری کلام ہے ، اس لئے اس نے نہ صرف اس میں یہ بتا دیا کہ پہلے کی کتابوں میں کیا کیا تحریف ہو چکی ہے بلکہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پہلے آنے والے تمام نبیوں کو دیئے گئے علم کے بھی حوالے دے دیئے۔

مثال کے طور پر اگرچہ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر الہامی کتاب کوئی نازل نہیں ہوئی تھی لیکن قرآن پاک کی اس آیت سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انہیں اور ان کی اولاد پر بھی اپنا فضل کیا تھا اور ہدایت بخشی۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ وَّمِنْ ذُرِّیَّۃِ اِبْرٰھِیۡمَ وَاِسْرَآءِ یۡلَ وَمِمَّنْ ھَدَیۡنَا وَاجْتَبَیۡنَا اِذَا تُتْلٰی عَلَیۡھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا.(مریم ۱۹: ۵۸)

’’یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے پیغمبروں میں سے اپنا فضل فرمایا، آدم کی اولاد میں سے اور ان لوگوں کی نسل سے جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور ابراہیم اور اسرائیل کی نسل سے اور اُن لوگوں میں سے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا تھا۔ اُن کو جب خداے رحمن کی آیتیں سنائی جاتی تھیں تو سجدے میں گر پڑتے اور روتے جاتے تھے۔‘‘

اگر ہم انسانی تاریخ پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ آدم وہ زمین پر آباد ہونے والے پہلے انسان تھے، جنہیں اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے زندگی گزارنے کے طریقے بتائے جو کہ ان کی اولاد میں جاری رہے ان کے بعد نوح علیہ السلام کو ایک بہت بڑی کشتی بنانا، اور اس میں جانداروں کے کئی دن رہنے کے انتظام کے متعلق تمام امور سکھائے پھر اللہ کے سکھائے ہوئے اس علم کی بدولت نوح کی اولاد نے زمین کو دوبارہ آباد کیا اور 3000 ق م سے ایک نئی انسانی تہذیب کا آغاز ہوا نوح کے بعد حضرت ابراہیم کو کعبہ بنانے اور کئی دوسرے امور کی تعلیم عطا فرمائ اور ان کی اولاد میں ہدایت کو جاری کیا ، لہذا ان کی اولاد میں سے جو ہدایت یافتہ لوگ ہیں وہ اسلام کی تعلیمات پر فوری ایمان لے آتے ہیں۔

اسی طرح اللہ تعالٰی نے شفا کے علم کو حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ منسوب کیا ہے یہی وجہ ہے کہ جدید طب جو کہ مسلمان اہل دانش خصوصا بو علی سینا کی کتابوں القانون فطب cannon of medicine اور book of healing کی کڑی قرآن پاک سے ملتی ہے، وہ اس طرح کہ بو علی سینا کی سوانح عمری سے یہی اشارہ ملتا ہے انہوں نے بچپن میں ہی سب سے پہلے جب قرآن پاک کو سمجھنا شروع کیا تو ان کا رجحان طب کی طرف زیادہ ہو گیا ، جس کی تعلیم انہوں نے ایک نصرانی سبزی فروش سے حاصل کی، اس کے بعد انہیں طب پر اتنا عبور حاصل ہو گیا کہ ان کی شہرت دنیا میں پھیل گئی ،اور بیماریوں کے اسباب پر انہوں نے جو کتاب book of healing لکھی وہ آج طب پر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے جسے bible of medicine کہا جاتا ہے۔ (جاری ہے)

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button