Paid ad
Breaking Newsآپ کی تحریریںتازہ ترین

این ایف سی انسٹی ٹیوٹ کا نوحہ

مزمل حسین ، سابق لیکچرار میکینکل انجینئرنگ

اس وقت میں لیکچرر سے اسٹنٹ پروفیسر کے طور پر پروموٹ ہو چکا تھا، بس لیٹر ملنے کا انتظار تھا۔
انہی دنوں مجھے ملتان کی سرکاری یونیورسٹی میں سلیکشن کی خبر ملتی ہے، چونکہ کسی بھی سرکاری ادارے میں نوکری کرنا میرے خاندان کیلئے اہم تھا۔
اس لیے میں نے اسسٹنٹ پروفیسر و زیادہ تنخواہ کی جگہ لیکچرار و انتہائی کم تنخواہ کا انتخاب کیا، اور یونیورسٹی آف لاہور کو خیر آباد کہہ کر این ایف سی ملتان آ پہنچا۔

دوران ملازمت پتہ چلا، کہ یونیورسٹی آف لاہور کا ماحول این ایف سی ملتان سے ہزار گنا بہتر تھا، کیونکہ این ایف سی میں کوئی نظام ہی نہیں تھا، اور یونیورسٹی دو چار لوگوں کی ذاتی جاگیر بن چکی تھی۔
نظام نہ ہونے کی وجہ سے صفائی والے سے لے کر استاد تک عجیب معاملات میں الجھے رہتے تھے۔ معمول کا کام بھی ” لے دے” کر انجام پاتا تھا۔ طلباء و اساتذہ عجیب سیاست میں مشغول رہتے، گروپ بندی انتہا درجے کی موجود تھی، اور یونیورسٹی کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھنے والے ضرورت کے مطابق طلباء و اساتذہ کو اپنے نا جائز مفاد کیلئے استعمال کر لیتے۔

ایسے ماحول میں ریسرچ و فری لانسنگ جیسی کسی مثبت سرگرمی میں خود کو مصروف رکھنا ممکن نہ تھا، کیونکہ کسی لیب میں کام کرنے کیلئے لیب کے متعلقہ عملے کی رضامندی حاصل کرنا ناگزیر تھا، اور یہ رضامندی عزت و خودداری پہ کمپرومائز کیے بغیر ممکن نہ تھی۔ یوں لیب کے مہنگے مہنگے آلات نا اہلی اور گندی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے تھے، اور ناکارہ ہو رہے تھے، یونیورسٹی میں کام کرنے والے لوگ بھی اسی طرح ناکارہ ہو رہے تھے۔

مثال کے طور پر کول ریسرچ سینٹر میں بڑے اثر و رسوخ کے بعد سیمپل ٹسیٹ کرنے کا موقع ملا تو وہاں موجود اسسٹنٹ رزلٹ دینے کیلئے آمادہ نہ تھے، اور کہنے لگے کہ "آپ صرف کمپیوٹر کی سکرین سے دیکھ سکتے ہیں”، اس بے وقوفانہ بات پر بحث کرنے کے بعد میں لیب سے ہی واپس آ گیا۔

اسی طرح کمپیوٹر لیب میں ایک بار میں کام کر رہا تھا تو وہاں موجود ایک صاحب مجھے کہنے لگے کہ "ان کی اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتا”، گویا کسی شخص سے کام لینے کیلئے اس کے ساتھ ذاتی تعلقات رکھنا ضروری تھا۔

بڑے نواب (وی سی) کی کالرو برادری کے لوگوں سے تو ہیڈز تک بے عزت ہوتے رہتے تھے، ہماری کیا اوقات تھی۔

اس طرح کے ماحول کی بنیادی وجہ نا اہل جاگیر داروں کا یونیورسٹی پر قابض ہونا تھا، پیسے دے کر ڈگریاں لینے والا نواب یونیورسٹی پر غیر قانونی طور پر قابض تھا، اس شخص کی شخصیت سے کہیں بھی نہیں لگتا تھا کہ ماضی میں کبھی اس کا تعلیم سے کوئی تعلق رہا ہے، بلکہ ہمیشہ اس نے پیسے کے بل بوتے پر ڈگریاں لی تھیں۔

اسی طرح ایک بی ایس سی جاگیر دار رجسٹرار کے عہدے پر قابض تھا، اور ایک بی کام پاس خزانچی کے عہدے پر قابض تھا۔ یہ لوگ صرف اثر و رسوخ کی وجہ سے پوری یونیورسٹی پر قابض تھے، اور پوری یونیورسٹی کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے تھے۔

یوں پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی ان سے آئے روز بے عزت ہوتے رہتے تھے۔ ایسے حالات میں محنتی اور اہل لوگوں کو عجیب عجیب مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔

یہ سب بیان کرنے کی وجہ کچھ ہلا دینے والے واقعات کا تسلسل سے پیش آنا ہے، ایک روز یونیورسٹی کے ایک ایماندار و محنتی استاد کو گارڈز سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے گیٹ سے داخل نہیں ہو سکتے، کیونکہ ایک اور استاد و کچھ طلباء نے ملی بھگت سے ان کے خلاف ایک جھوٹی درخواست جمع کروائی ہوئی تھی، جسے جواز بنا کر یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی لگا دی۔

اسی طرح ایک اور محنتی اور شریف استاد وی سی کے خلاف بولا کرتے تھے، وی سی نے ان سے فیل ہونے والی طالبہ سے ان کے خلاف درخواست لکھوائی اور اس کو جواز بنا کر معطل کر دیا، اور اسی طرح حال ہی میں وی سی کے خلاف آواز بلند کرنے والے اساتذہ کو جھوٹے ہراسمنٹ کے کیسز بنا کر معطل کر دیا جاتا ہے۔

یہ اتنے گھناؤنے اور گھٹیا واقعات ہیں کہ انہیں تفصیل سے بیان کرنے میں شرمندگی محسوس ہوتی ہے، کیونکہ ان واقعات میں وی سی کا آلہ کار بننے والے بھی اساتذہ اور طلباء ہیں، جو چند ذاتی مفادات کی خاطر اخلاقی طور پر اس قدر گر جاتے ہیں کہ وی سی کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں۔

  • نوٹ: – "ڈی رپورٹرز ” کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، ادارہ نیک نیتی کی بنیاد پر شائع کررہا ہے ۔
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button